اسلام آباد(پی این آئی)نئے نوول کورونا وائرس کی علامات ایسے مریضوں میں بھی کئی ہفتوں تک برقرار رہ سکتی ہیں جن کو ہسپتال جاکر علاج کرانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔تحقیق میں کووڈ 19 کے 272 مریضوں کے ایک گروپ کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 41 فیصد میں کھانسی علامات سامنے آنے کے بعد 3 ہفتوں
تک برقررار رہی، 24 فیصد کو سانس لینے میں مشکلات کا ہوا جبکہ 23 فیصد میں سونگھنے یا چکھنے کی حس کام نہیں کررہی تھی۔مزید 23 فیصد افراد کو ناک بند ہونے جبکہ 20 فیصد کو سردرد کی شکایت رہی۔محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی علامات آئسولیشن کی مدت سے زیادہ عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں، اسی لیے مریضوں اور طبی عملے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ علامات بتدریج ختم ہوں گی۔امریکا سے تعلق رکھنے والے ان مریضوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی نیسل سواب سے ہوئی تھی اور ان کا علاج ایک ورچوئل کلینک کے ذریعے ہوا تھا۔ان کی نگہداشت گھر میں اس وقت تک ہوئی جب تک علامات بہتر نہیں ہوگئیں اور علاج علامات شروع ہونے کے 10 دن بعد جبکہ کورونا وائرس ٹیسٹ کے 5 دن کے اندر ہوا تھا۔محققین نے ایسے مریضوں کا ڈیٹا بھی اوسطاً 20 دن تک دیکھا جو طبی عملے سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے دریافت کیا کہ ان مریضوں میں سب سے عام علامات کھانسی، سردرد، سونگھنے یا چکھنے کی حس ختم ہونا، ناک بند ہونا اور جسم میں درد تھیں جبکہ بہت کم افراد میں ہاضمے کی علامات نظر آئیں۔مگر جن افراد کو ہاضمے کے مسائل کا سامنا ہوا تو ان میں وہ زیادہ وقت تک برقرار رہیں جیسے 10 فیصد کو ہیضے کی تکلیف تھی جو کم از کم 3 ہفتے تک برقرار رہی۔محققین نے تسلیم کیا کہ ان کی تحقیق محدود تھی اور بخار کا ڈیٹا شاید مکمل نہ ہو کیونکہ مریضوں سے پوچھا گیا تھا کہ انہیں ابھی بخار ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات کا تسلسل برقرار رہنا مریضوں کی معمول کی سرگرمیوں کرسکتا ہے۔اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ایک ویب سائٹ medRxiv پر جاری کیا گیا۔چین میں طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے کسی
مریض کی موت اوسطاً 18.5 دن میں واقع ہوسکتی ہے۔تحقیق میں ووہان کے جن ین تان ہسپتال اور ووہان پولمونری ہسپتال میں 29 دسمبر 2019 سے 31 جنوری 2020 تک داخل ہونے والے 191 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سنگین علامات کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔دونوں ہسپتالوں میں یکم فروری تک ایسے مریضوں کو داخل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی علامات کی شدت بہت زیادہ تھی اور اس عرصے کے دوران 137 ڈسچارج جبکہ 54 ہلاک ہوگئے تھے۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈسچارج ہونے کے وقت کا اوسط دورانیہ 22 دن تھا جبکہ موت کا اوسط دورانیہ 18.5 دن تھا۔ریکور کرنے والے افراد میں بخار کا اوسط دورانیہ 12 دن کے قریب تھا جو کہ ہلاک ہونے والوں میں بھی اتنا ہی تھا، مگر صحت مند ہونے والوں میں 50 فیصد کے قریب افراد کو ہی کھانسی کی شکایت ہوتی ہے جبکہ سانس لینے میں مشکل کی شکایت 13 دن کے بعد کم ہونے لگتی ہے۔جہاں تک اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کا تعلق ہے، ان میں عفونت کا آغاز 9ویں دن شروع ہوجاتا ہے جبکہ گردے یا دل کی شدید انجری 15ویں دن تک ہوسکتی ہے۔محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جو مریض بچ جاتے ہیں، وہ وائرس کو 37 دن تک کسی صحت مند افراد میں منتقل کر سکتے ہیں، یہ دورانیہ سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ طویل ہے۔چین کے چائنا۔ جاپان فرینڈشپ ہسپتال اور کیپیٹل میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر بن کاؤ نے بتایا کہ وائرس کے جھڑنے کے دورانیے میں اضافے کو ہماری تحقیق کے دوران دیکھا گیا جو مصدقہ کیسز میں الگ رکھنے کی احتیاطی تدابیر اور اینٹی وائرل علاج کے حوالے سے رہنمائی میں اہم اثرات مرتب کر سکتا ہےان کا کہنا تھا ‘مریضوں کو ہسپتال سے گھر جانے کی اجازت دینے سے قبل کووڈ 19 کے نیگیٹو ٹیسٹ لازمی قرار دیئے جانے چاہیے’۔تحقیق میں یہ بھی
دریافت کیا گیا کہ ہسپتال میں داخل 30 فیصد افراد ہائی بلڈ پریشر کے شکار تھے جبکہ 19 فیصد کو ذیابیطس کا عارضہ تھا، یہ دونوں امراض کورونا وائرس سے ہلاکت کا باعث بننے والے اہم عناصر سمجھے جارہے ہیں، جبکہ زیادہ عمر اور خون جمنا بھی موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ زیادہ عمر، داخلے کے وقت عفونت کی علامات، ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس جیسے امراض وغیرہ اموات کے اہم اسباب ہیں۔انہوں نے کہا کہ زیادہ عمر کے افراد میں عمر کے ساتھ مدافعتی نظام میں آنے والی کمزوری اور ورم وائرس کے پھیلنے کے عمل کو بڑھا سکتا ہے اور اس سے مزید ورم پیدا ہوتا ہے جو دل، دماغ اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے۔تحقیق کے دوران محققین نے صحت یاب ہونے والے اور ہلاک ہونے والے افراد کے کلینیکل ریکارڈ، علاج کا ڈیٹا، لیبارٹری نتائج اور دیگر ڈیٹا کا موازنہ کیا۔انہوں نے دریافت کیا کہ ہلاک ہونے والے مریضوں کے معمر ہونے (اوسطاً 69 سال عمر) ہونے اور اعضا کے کام نہ کرنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے، جبکہ عفونت جیسے عناصر بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔سنگین کیسز کے شکار افراد میں خون کے سفید خلیات کی شرح بھی کم ہوتی ہے، انٹرلیوکین 6 (ورم اور دائمی امراض کا بائیومیکر) کی سطح بڑھ جاتی ہے جبکہ ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والے ٹروفونین آئی کی حساسیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ ان عناصر کو یہ تعین کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ کن مریضوں کو ہسپتال میں داخلے کے وقت زیادہ خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں