“گزری ہوئی دنیا سے، منٹو کا صفیہ سے رشتہ (ایک اقتباس) ، مصنف: محمود الحسن

سعادت حسن منٹو کی والدہ بمبئی میں انھیں غلیظ کھولی میں رہتے دیکھ کر خاصی آزردہ ہوئیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے
بیٹے سے پوچھا:
”سعادت، تم زیادہ کیوں نہیں کماتے؟“
اس سوال پر سعادت مند بیٹے نے جواب دیا:
”بی بی جان، زیادہ کما کر کیا کروں گا، جو کچھ کما رہا ہوں میرے لیے کافی ہے۔“
یہ سن کر ماں نے بیٹے سے کہا:
”نہیں، بات اصل میں یہ ہے کہ تم زیادہ کما نہیں سکتے۔ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے تو الگ بات تھی۔“
منٹو نے والدہ کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی اپنی سی کوشش کی:
’ ’بی بی جان، میں جو کچھ کماتا ہوں میری ذات کے لیے کافی ہے۔ گھر میں بیوی ہوتی تو پھر آپ دیکھتیں، میں کیسے کماتا ہوں۔ کمانا کوئی مشکل کام نہیں۔ آدمی اعلیٰ تعلیم کے بغیر بھی ڈھیروں روپیہ حاصل کرسکتا ہے۔“
بیٹے کا موقف جان کر والدہ نے پوچھا:
”شادی کرو گے؟“
منٹو نے جواب دیا:”ہاں…کیوں نہیں!“
بیٹے کے منھ سے ہاں سن کر ماں نے کہا:” شادی ہوجائے گی۔“
فرزندِ ارجمند کو اتوار کے روز ایک جگہ پہنچنے کو کہا اور بال کٹوا کر آنے کی تاکید کی۔
منٹو نے بال تو نہیں کٹوائے البتہ جوتے پالش سے چمکا لیے۔ دھلی دھلائی سفید پتلون زیب تن کی اور والدہ کی بتائی جگہ پر پہنچ گئے۔
منٹو نے لڑکی کے چچا کو اپنی زبوں حالی کی کتھا سنائی۔ یہ تک بتا دیا کہ وہ ان پھٹے حالوں میں بھی ہرشام بیئر پیتے ہیں۔ اس اعترافِ رندانہ پر بھی ناگواری ظاہر نہ ہونے پر منٹو کو حیرت ہوئی۔
منٹو کی والدہ نے انھیں بتایا کہ لڑکی کا خاندان مشرقی افریقہ سے آیا ہے اور یہ لوگ اس کے بھائیوں کے واقف کار ہیں۔ لڑکی کا رشتہ کسی کشمیری گھرانے میں کرنا چاہتے ہیں۔
منٹو کی طرح ان کی والدہ نے بھی لڑکی والوں سے کوئی بات نہیں چھپائی۔ اس بنیاد پر منٹو کو اُمّید تھی کہ وہ”ریجیکٹ“ ہو جائیں گے۔ فیصلہ مگر ان کی توقّعات کے برعکس آیا۔ رشتہ منظور ہونے کی خبر سن کر منٹو کی کیا کیفیّت ہوئی اس کا احوال انھوں نے کچھ یوں قلمبند کیا ہے۔:

…جب میں نے یہ سنا تو چکرا گیا۔ میں توشادی کے اس قصّے کو صرف ایک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے قطعاً یقین نہیں تھا کہ مجھے کوئی ہوش مند انسان اپنی لڑکی دے گا۔ میرے پاس تھا ہی کیا۔ انٹر پاس۔ وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں۔ ملازمت ایسی جگہ جہاں تنخواہ کے بجائے ایڈوانس ملتا تھا۔ اور پیشہ فلم اور اخبار نویسی۔ ایسے لوگوں کو شریف آدمی کب منھ لگاتے تھے۔
منٹو کے لیے اب کوئی راہِ فرار نہ تھی۔ چارو ناچار نکاح کے لیے راضی ہونا پڑا۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد انھوں نے رسومات کے لیے تھوڑے پیسے اکٹھے کرلیے۔
فلم کمپنی کی طرف ان کے قریباً ڈیڑھ ہزار روپے نکلتے تھے۔ سیٹھ سے تقاضا کیا تو اس نے نقدی دینے سے انکار کیا، مایوسی کے عالم میں وہاں سے پلٹنے لگے تو سیٹھ نے کہا :”میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ تمھیں ضروری چیزیں لے دوں۔“
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا! منٹو نے یہ آفر قبول کرلی اور اس سکیم سے فائدہ اٹھایا۔ دلھن کے لیے دو ساڑھیاں اور زیورات خریدے۔
1938ءمیں منٹو کا صفیہ سے نکاح ہو گیا۔ رخصتی اس لیے نہ ہو سکی کہ بیوی کو رکھنے کے لیے ڈھنگ کی رہائش نہیں تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
…اسے کھلاتا کہاں سے؟ سامنے والے ایرانی کے ہوٹل سے اور وہ بھی ادھار۔ رکھتا کہاں؟ کھولی میں تو ایک سے زائد کرسی کے لیے بھی جگہ نہیں تھی۔
ظاہر ہے کہ بیویاں نہاتی بھی ہیں، مگر وہاں تو کوئی غسل خانہ ہی نہیں تھا۔ دو منزلہ بلڈنگ تھی جس میں 40 کھولیاں تھیں۔ ان سب کے ساکنوں کے لیے صرف دو غسل خانے تھے، جن کے دروازے معلوم نہیں کب کے غائب ہوچکے تھے۔ مجھے اس احساس سے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ میرا نکاح ہوگیا ہے اور ایک لڑکی کے ساتھ آج نہیں تو کل مجھے شوہر کی حیثیت سے زندگی گزارنا ہو گی۔
نکاح کے بعد احمد ندیم قاسمی کو خط میں لکھا:
میری شادی ؟ … میری شادی ابھی مکمّل طور پر نہیں ہوئی۔ میں صرف ”نکاحیا“ گیا ہوں۔ میری بیوی لاہور کے ایک کشمیری خاندان سے تعلّق رکھتی ہے۔ اس کا باپ مرچکا ہے، میرا باپ بھی زندہ نہیں۔ وہ چشمہ لگاتی ہے ،میں بھی چشمہ لگاتا ہوں۔ وہ گیارہ مئی کو پیدا ہوئی ہے، میں بھی گیارہ مئی ہی کو پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں چشمہ لگاتی ہے، میری والدہ بھی چشمہ لگاتی ہے۔ اس کے نام کا پہلا حرف ہے S ہے ،میرے نام کا پہلا حرف بھیS ہے۔ ہم میں اتنی چیزیںcommonہیں۔ بقایا حالات کے متعلّق میں خود بھی کچھ نہیں جانتا۔ پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھی مگر جب سے اس پر میرا حق ہوا ہے اس نے پردہ کرنا شروع کردیا ہے (صرف مجھ سے)۔

منٹو اپنے دگرگوں حالات کی وجہ سے رخصتی میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے لیکن جب نکاح کو سال ہونے کو آیا اور سسرالیوں کی طرف سے اصرار بڑھا تو والدہ نے تاریخ مقرر کردی۔
منٹو نے اس دن کو روزِ محشر لکھا ہے۔ دلھن کی رخصتی سے 10 دن پہلے منٹو حرکت میں آئے۔ دفتر کے قریب 35 روپے ماہوار پر فلیٹ کرائے پر لیا۔ خالی فلیٹ بھرا بھرا نظر آئے، اس کے لیے کچھ سامان خریدا۔
نانو بھائی ڈیسائی سے کہانی کے معاوضے اور بقایا جات کا تقاضا کیا۔ اس نے ٹرخانا چاہا تو منٹو نے دھمکی دی اور بابو راﺅ پٹیل کو بیچ میں ڈالا، تب کہیں جا کر رخصتی سے چار دن پہلے اس سے پانچ سو روپے نکلوانے میں کامیابی ہوئی۔
شادی کے دن منٹونے بن ٹھن کر آئینہ دیکھا تو ان کے بقول وہ کارٹون سے نظر آئے اور انھیں ہنسی آئی۔رخصتی کے بارے میں منٹو نے لکھا:
دلھن کو میرے سپرد کردیا گیا۔یہ سب مجھے ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔دماغ میں جانے کتنے خیالات تلے اوپر آرہے تھے۔ دلھن میرے ساتھ تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور لرزاں آواز میں کہا:
”چلو بھئی۔ “

منٹو کو اپنی بہن ناصرہ اقبال سے بڑی محبت تھی لیکن بہنوئی سے ان کی نہیں بنتی تھی۔ ان کے بقول:
میرے اور میرے بہنوئی کے تعلقات کشیدہ تھے۔ اب اسے خدا بخشے مگر اس کا کردار بہت ہی خراب تھا ، میں چونکہ نکتہ چینی کرتا تھا ، اس لیے اس نے اپنے گھر میں میرا داخلہ بند کردیا تھا اور میری بہن پر یہ پابندی عاید کردی گئی تھی کہ وہ مجھ سے نہیں مل سکتی۔
بد مزاج بہنوئی نے بیوی کو بھائی کی شادی میں شرکت کی اجازت بھی نہ دی۔ بہن نے بھائی سے فون پر کہا:
سعادت ، میں تمھارے واری جاﺅں، ذرا کی ذرا اپنی موٹر میرے گھر کے سامنے روکنا…میں تمھیں دیکھنا چاہتی ہوں!
منٹو دُلھا بن کر بارات کے ساتھ جاتے ہوے بہن کے گھر کے باہر رُکے تو اس نے روتے ہوے محبت سے بھائی کے سر پر ہاتھ پھیرا،دعائیں اور مبارکباد دی۔
منٹو کی زندگی میں بیوی کے آنے سے نئے دور کا آغاز ہوا۔ شادی کو انھوں نے زندگی کے تین حادثوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ باقی دو حادثوں میں ایک ان کی پیدائش اور دوسرا افسانہ نگار بننا ہے۔
صفیہ منٹو کا خاندان ایک مدّت سے مشرقی افریقہ میں آباد تھا۔ ان کے والد خواجہ قمر الدّین زنجیبار پولیس میں پبلک پراسیکیوٹر تھے۔ ایک دنگے میں کسی حبشی نے خنجر مار کر انھیں قتل کردیا۔ صفیہ کے تایا رکنِ پارلیمنٹ تھے۔ چچا ملک حسن پولیس میں تھے۔ افریقہ ہی میں منٹو کے دو سوتیلے بھائی قانون کے پیشے سے منسلک تھے اور صفیہ کے خاندان سے ان کی واقفیت تھی۔ رشتے کی بات بمبئی میں مقیم منٹو کی بہن نے چلائی جسے ان کی والدہ نے توڑ پہنچایا۔
شادی کے بعد منٹو کو دو بڑے صدموں سے گزرنا پڑا۔ شادی کے ایک سال بعد والدہ دنیا چھوڑ گئیں۔ شدّت ِغم سے بیمار پڑ گئے۔
والدہ کی وفات کے بعد منٹو کو بیٹے عارف کی موت کا چرکا لگا۔ جگر گوشے کی موت نے صفیہ کو ادھ موا کردیا۔ منٹو بھی غم سے بے حال۔
عصمت چغتائی نے منٹو پر جو خاکہ لکھا ہے اس سے ان کی بیٹے سے محبت کا اندازہ ہوجاتا ہے:
وہ بیٹے کے خیال پر اچک کر کرسی پر اونچا ہوگیا۔” خدا کی قسم اتنا سا پیروں پر چلتا تھا۔بڑا شریر تھا۔گھٹنوں چلتا تھا تو فرش کی درزوں میں سے مٹی نکال کر کھالیا کرتا تھا۔میرا کہنا بڑا مانتا تھا۔‘
عام باپوں کی طرح منٹو نے اپنے بیٹے کے عجیب وغریب ہونے کا یقین دلانا شروع کیا۔
”آپ یقین کیجیے چھ سات دن کا تھا کہ میں اسے اپنے پاس سلانے لگا۔ میں اسے خود تیل مل کر نہلاتا۔ تین مہینے کا بھی نہیں تھا کہ ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگا۔بس صفیہ کوکچھ نہیں کرنا پڑتا تھا۔دودھ پلانے کے سوا اس کا کوئی کام نہ کرتی۔رات کو بس پڑی سوئی رہتی۔چپ چاپ بچّے کو دودھ پلوا لیتا۔ اسے خبر بھی نہ ہوتی۔ بچے کو دودھ پلوانے سے پہلے یوڈی کلون یا اسپرٹ سے صاف کرلینا چاہیے، نہیں تو بچّے کے منھ میں دانے ہوجاتے ہیں۔“
وہ بڑی سنجیدگی سے بولا اور میں حیرت سے اسے دیکھتی رہی کہ یہ کیسا مردوا ہے جو بچے پالنے میں مشاق ہے۔
”مگر وہ مر گیا “منٹو نے مصنوعی مسرت چہرہ پر لا کر کہا۔” اچھا ہوا جی وہ مر گیا۔ مجھے تو اس نے آیا بناڈالا تھا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو آج میں اس کے پوتڑے دھوتا ہوتا۔ نکمّاہوکر رہ جاتا۔ مجھ سے کوئی کام تھوڑا ہوتا۔ سچ مچ عصمت بہن مجھے اس سے عشق تھا۔“
احمد ندیم قاسمی کو خط میں اطلاع دی :
میرا عارف صرف دو دن بیمار رہ کر کل رات کے گیارہ بجے ارون ہسپتال میں مرگیا۔
منٹو نے بیٹے کی موت کے واقعہ پر “خالد میاں” کے عنوان سے افسانہ لکھا جسے ممتاز نقّاد وارث علوی نے دل دہلا دینے والا افسانہ قراردیا ہے۔
شادی کے بعد بھی منٹو کی زندگی میں معاشی آسودگی نہیں آئی۔ ”مصوّر“ رسالے سے نوکری ختم ہوئی تو مشکلات اور بھی بڑھ گئیں۔ حالات منٹو کو دہلی لے گئے اور وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ سال ڈیڑھ سال بعد منٹو بمبئی واپس آ گئے۔ اب فلمی دنیا میں بطور رائٹر ان کے قدم جمنے لگے۔” مصور“ کی ایڈیٹری بھی مل گئی۔ معاشی حالت بہتر ہو گئی۔ تخلیقی سفر بھی کامیابی سے جاری تھا۔ بیٹی پیدا ہوئی تو میاں بیوی کی زندگی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
صفیہ منٹو بہت نفیس خاتون تھیں۔ میاں کے ادیب دوستوں سے انھیں چڑ نہ تھی اور وہ ان کا احترام کرتی تھیں۔ منٹو کے احمد ندیم قاسمی کے نام خطوط سے، اور عصمت چغتائی کے منٹو پر خاکے سے ،ان کی شخصیّت کے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔
خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ صفیہ کو مطالعے کا بھی شوق تھا اور وہ ادبی رسالوں میں احمدندیم قاسمی کے افسانے پڑھ کر فیڈ بیک بھی دیتی تھیں۔
منٹو کے خطوط سے چند اقتباس ملاحظہ کریں :
٭صفیہ آپ کو سلام لکھواتی ہے۔ کل ”ساقی“ میں آپ کا ”روشندانوں کے شیشے “ پڑھ رہی تھی۔
٭ صفیہ آداب عرض کرتی ہے۔ آپ کا افسانہ” توبہ میری“ کل اس نے پڑھا اور پسند کیا۔ مجھے بھی افسانہ پسند ہے۔
٭صفیہ راضی خوشی ہے۔ آپ کا افسانہ اس نے ”ساقی“ میں پڑھا اور پسند کیا۔
احمد ندیم قاسمی کے نام خطوط سے ان کے ہمدردانہ رویّے کی بابت بھی معلوم ہوتا ہے:
٭صفیہ کو بھی بہت افسوس ہے کہ ہم آپ کی وقت پر مدد نہ کرسکے۔
٭ صفیہ مجھ سے سخت ناراض ہے کہ میں نے اتنی دیر آپ کو خط نہیں لکھا۔یہ خط میں اسی کے اصرار پر لکھ رہا ہوں۔پوسٹ کرنے کا ذمّہ اس نے لیا ہے۔
٭یہاں ہر روز تمھاری باتیں ہوتی ہیں۔ صفیہ کہتی ہے کہ ندیم بھائی کو یہاں اپنے پاس بلا لو۔
عصمت چغتائی سے صفیہ کی ملاقات ہوئی تو ان کی فوراً ہی دوستی ہوگئی۔دونوں کے درمیان ہونے والے راز ونیاز منٹو کے کانوں تک پہنچے تو انھوں نے کہا:
توبہ توبہ! میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ عورتیں بھی اتنی گندی گندی باتیں کرتی ہیں۔
یہ سن کر عصمت کے بقول :” صفیہ کے شرم سے کان لال ہوگئے۔“
منٹو نے عصمت سے کہا:
اور آپ سے تو عصمت بہن مجھے قطعی اُمّید نہ تھی کہ یوں محلّے کی جاہل عورتوں کی طرح باتیں کریں گی۔”کب شادی ہوئی؟ شادی کی رات کیسے گزری؟ بچّہ کب اور کیسے پیدا ہوا؟“توبہ ہے۔
اس پر عصمت بولیں:
حد ہے، منٹو صاحب، میں آپ کو اتنا تنگ نظر نہ سمجھتی تھی۔ ارے آپ بھی ان باتوں کو گندی کہتے ہیں۔ان میں گندگی کیا ہے۔ بچّے کی پیدائش دنیا کا حسین ترین حادثہ ہے اور یہ کاناپھوسی ہی تو ہمارا ٹریننگ اسکول ہے۔کیا سمجھتے ہیں آپ ، کیا کالج میں مجھے بچّے دینا سکھایا گیا ہے؟ وہاں بھی بوڑھے پروفیسر آپ کی طرح ناک بھوں چڑھا کر توبہ توبہ کہتے رہے۔ محلّے کی عورتوں ہی سے تو ہم نے زندگی کے اہم ترین راز جانے ہیں۔
منٹو اور عصمت جب بھی اکٹھے ہوتے ان میں نوک جھونک چلتی۔ عصمت کی بیٹی سیما پیدا ہوئی تو صفیہ ان کے پاس ہی تھی۔ عصمت کی بچی دیکھ کر منٹو کو عارف بہت یاد آیا ،وہ اس کی باتیں کرتے رہے جنھیں سن کر بقول عصمت، صفیہ کا دل پگھل گیا۔منٹوکی بیٹی نگہت کی پیدائش سے گھر میں رونق آگئی۔عصمت ملنے گئی تو دیکھا کہ منٹوالگنی پر بچی کے پوتڑے نچوڑ کر پھیلا رہے تھے۔
تقسیم سے پہلے کے چند برسوں میں بمبئی میں منٹو کو معاشی آسودگی حاصل ہو گئی تھی جس کی وجہ فلمی دنیا میں بطور رائٹراُن کی مانگ میں اضافہ تھا۔ تقسیم نے منٹو کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔ اس کی وجہ سے سیاسی فضا مسموم ہوئی اور مختلف قوموں کے افراد کے آپسی تعلّقات میں رخنہ آگیا۔ دلوں کے بیچ جو گرہ پڑی تو شوبز انڈسٹری بھی اس سے متّاثر ہوے بغیر نہ رہ سکی۔
فسادات نے صورتِ حال اور بھی درد ناک بنادی۔ منٹو جیسا حسّاس انسان بکھر کر رہ گیا۔ حالات کے جبر نے منٹو کو پاکستان نقلِ مکانی پر مجبور کیا۔ انھوں نے زندگی کے آخری سات سال لاہور میں بسر کیے۔ یہ عرصہ تخلیقی اعتبار سے نہایت زرخیز لیکن ذاتی اعتبار سے بہت تلخ رہا۔ بمبئی فلم انڈسٹری کے کامیاب رائٹر کو پاکستان میں کامیابی نہ ملی۔ ناشروں نے استحصال کیا۔ افسانوں پر مقدّمے چلے۔ رجعت پسندوں اور ترقی پسندوں سے لڑائی رہی۔ ایک بڑی مصیبت ان کا الکوحلک ہونا تھا جس کے لیے انھیں تخلیقی اور ذاتی حوالے سے سمجھوتے بھی کرنا پڑے۔ اس علّت کے باعث صحت دن بدن گرتی گئی۔
یہ سب صفیہ منٹو کے لیے بہت پریشان کن تھا۔انھوں نے شوہر کو بہتیرا سمجھایا۔منّت ترلا کیا۔ پہرہ دیا کہ وہ شراب نہ پئیں۔ مینٹل ہسپتال داخل کرایا کہ شراب نوشی سے چھٹکارا پا سکیں۔
ادبی جلسوں میں ان کے ساتھ جاتیں کہ راستے میں کہیں بھٹک نہ جائیں لیکن سب بے سود گیا۔ منٹو نے اپنی روش نہ بدلی جس کے نتیجے میں گھر میں عسرت نے ڈیرے ڈالے۔ صفیہ منٹو نے احمد ندیم قاسمی سے التجا کی:

ندیم بھائی! خدا کے لیے انہیں خود کشی کرنے سے روک لیجیے… وہ یونہی پیتے رہے تو بہت دن تک جی نہیں سکیں گے۔

احمد ندیم قاسمی نے دوست کو شراب پینے سے باز رکھنا چاہا تو منٹو نے جواب دیا:
دیکھو احمد ندیم قاسمی، میں نے تمھیں دوست بنایا ہے۔ اپنے ضمیر کی مسجد کا امام مقرر نہیں کیا۔ مجھے وعظ نہ دیا کرو، سمجھے؟

سعادت حسن منٹو 18 جنوری 1955ءکو اس جہان سے گزر گئے۔ 22 برس بعد 1977ءمیں صفیہ منٹو نے آخری سانس لی۔
منٹو کے بعد صفیہ منٹو نے بڑی ہمت اور تدبر سے بیٹیوں کی پرورش کی۔ انھیں پڑھایا لکھایا۔ اپنے پاﺅں پر کھڑا کیا اور ان کی شادی کی۔ ان سب کاموں میں ان کے خاندان نے بہت ساتھ دیا۔
ممتاز ادیب انور سجاد نے صفیہ منٹو کے بارے میں اپنے تأثّرات اس موثّر انداز میں بیان کیے کہ مرحومہ کی شخصیت سے تھوڑے لفظوں میں بھرپور تعارف ہو جاتا ہے۔

صفیہ آپا
صفیہ آپا بہت ہمت اور جرأت والی تھیں۔
سعادت صاحب کے ساتھ گزارا کرنا بلکہ ان کی زندگی کے ہر لمحے کو تین بچوں سمیت جینا ٹائٹ روپ واکنگ ہی کے مترادف تھا۔
سعادت صاحب کے بعد
وہ خاموشی سے اپنی بچیوں کو پالتی رہیں۔
اُن کی شادیاں کیں۔
سعادت صاحب
(نہیں، منٹو، کہ اُردو ادب پر اسی اسم کی چھاپ ہے)
کی کہانیوں کے مجموعوں کی رائلٹیوں کا
صفیہ آپا کی جدوجہد سے کوئی تعلّق نہیں
کہ وہ رائلٹی کے نام سے آگاہ تو تھیں
پر اس سے شناسائی شاذ و نادر ہی ہوئی۔
اس سلسلے میں حلقہ ارباب ِذوق میں منٹو کی ہر برسی پر زور و شور سے قرار دادیں پاس ہوتی رہیں؛
قراردادوں پر عمل کرنے کے بھی پیمان ہوتے رہے؛
ان پیمانوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی؛
کسی ادب ادیب پرست کے کان پر
جُوں تک نہ رینگی
حتیّٰ کہ حنیف رامے پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنے
تو وہ بھی اس سلسلے میں
پبلشر ہی رہے
اب کسی سے کوئی گلہ نہیں ہو گا۔
حساب صاف ہو گیا۔
صفیہ آپا سعادت صاحب کے پاس چلی گئیں۔
بچیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔
منٹو کو ہر ایک نے کیش کیا،
کرنے کی کوشش کی۔
میں نے بھی
کہ میں نے ”پھند نے“ سے کہانی لکھنا سیکھا
اور یوں انہیں کیش کیا۔
صفیہ آپا ہمیشہ خاموش رہیں۔
وہ اسی خاموشی سے کار میں ہسپتال جاتے ہوئے،
جہاں اُن کے ایک داماد کا
آپریشن ہو رہا تھا،
راستے ہی میں،
پچھلی سیٹ پر
چپ چاپ،
خاموشی سے سو گئیں۔
وہ میری آپا تھیں۔
وہ سب کی صفیہ آپا ہیں۔

close