محمد انور معین زبیری کی کتاب “مقامات ِ نور” کا دیباچہ: یادوں کا اجالا، دیباچہ نگار: سید عارف معین بلے

یاد آنکھوں میں ٹھہرا ہوا پانی ہے۔یاد اپنوں کی نشانی ہے۔
یاد ایک محمل ہے ،جس میں لیلی ء معانی ہے۔ یہ ایک دریا ہے ، جس میں روانی ہے۔یاد سمندر ہے، جس میں طغیانی ہے۔یاد ہی سے اندھیروں میں ضوفشانی ہے۔یاد بڑھاپے میں جوانی ہے ۔ اسی سے زندگی سہانی ہے۔ یاد بلاشبہ حسنِ زندگانی ہے۔یاد بیتے ہوئے لمحوں کی سچی کہانی ہے۔
فضا پر سکوت طاری ہو تو یاد بولتی ہے۔تاریخ کے در کھولتی ہے۔یاد بےکیف زندگی میں رس گھولتی ہے۔
یاد صحبتِ گزشتہ کا انعام ہے۔ یاد ہجومِ تنہائی میں انجمن آرائی کا نام ہے ۔یاد داغِ زخم و غم و آلام ہے۔یاد تلاشِ شوکتِ گم گشتہ ء ایام ہے۔یاد زندگی کی ایک مسکراتی شام ہے۔یاد اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیغام ہے۔یاد وظیفہِ سیدِ خیر الانام علیہ السلام ہے۔یاد سجدہ ہے ، رکوع ہے ، قیام ہے۔ یاد درود و سلام ہے۔ یاد نمازِ ناتمام ہے۔ یاد مسلکِ اولیائے کرام اور اتباعِ صوفیائے عظام ہے۔ یاد انعام یافتگان کے رستے پہ چلنے کا نام ہے ۔یاد ایک مشغلہ ہے، شوق ہے اور کام ہے۔یاد گزرے وقت کا احترام ہے۔یاد نورِ ایمان ہے اور روشنی ِ ء اسلام ہے۔یاد لوحِ دل پر نقشِ دوام ہے۔
یاد شیرِیں ہو تو انمول خزانہ ہے اور تلخ ہو تو تازیانہ ہے۔یاد سپنا ہے، پر سہانا ہے۔یاد ایک طرزِ عاشقانہ ہے۔ یاد اندازِ دلبرانہ ہے۔یاد طلبِ رفوئے سوزنِ نگہِ کریمانہ ہے۔شرابِ کہنہ سے لبریز پیمانہ ہے۔یاد مے گساروں کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا رہنے والا میخانہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادوں کے ثمرات، اثرات، مضمرات، تجلیات، برکات، انعامات اور اکرامات کو پیشِ نظر رکھیے اور دیکھیے کہ محمد انوار معین زبیری نے یادوں کے گلاب کھلائے ہیں ۔ “مقاماتِ نور” میں نور کے جلوے دکھائے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے ہیں ۔ عقیدت کے پیمانے چھلکائے ہیں۔محبت کے جام پرجام لنڈھائے ہیں ۔معرفت کے اَن دیکھے جہاں دکھائے ہیں ۔اور درحقیقت معرفت کے ایسے دیپ جلائے ہیں کہ اللہ النور السموات والارض کے نئے مطالب اور معنی سمجھ میں آئے ہیں ۔یہ۔۔۔کتابِ مستطاب نہیں ، بحرِ معرفت میں ایک سفینہ ہے۔مقاماتِ نور کی بلندیوں کی طرف زینہ ہے۔ عرفان و تصوف کا خزینہ ہے۔ جس کا ایک ایک لفظ نگینہ ہے۔ محبتوں کا قرینہ ہے۔ اسرارِ شریعت ، رازِ حقیقت اور رموزِ طریقت کا گنجینہ ہے۔اس کی بنیاد ہی عشقِ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔
اسلام اور اسلامی تصوف میں یاد کرنا، یاد دلانا، یاد منانا، یادوں کے گلاب کھلانااور یادوں کے دیپ جلانا عین عبادت ہے۔ نماز ِ پنجگانہ خدا کو یاد کرنے کا اسلامی طریقہ ہےلیکن یہ پانچوں فرض نمازیں بھی درحقیقت پانچ انبیائے اکرام کی سنت ہیں۔ جو شکرانے کے لیے ادا کی گئیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اس نے خیر البشر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لیے انہیں فرض قرار دے دیا۔مناسکِ حج بھی یادوں کو منانے کا ایک انداز ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا جنت سے بچھڑنے کے بعد میدان ِ عرفات میں ملے تھے۔چناچہ وہاں حاجیوں کے لیے جمع ہونا اسی سنت کو تازہ کرنے کیلیے لازم ٹھہرا دیا گیا۔ حضرت بی بی حاجرہ نے نومولود اسماعیل علیہ السلام کو پانی پلانے کیلیے مرویٰ و صفا کے درمیان بھاگ دوڑ فرمائی۔ اسی یاد میں حجاج کرام کو سعی کرنے کا اسی مقام پر حکم دیا گیا۔قربانی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے فرض قرار پائی۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے ایام یاد کرنے اور منانے کا حکم دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے ایام کیا ہیں ؟ وہ تو لم یلد و لم یو لد ہے ۔پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے کسی کو جنم دیا۔ اس لیے اس کا یومِ ولادت منانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔وہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔اللہ تعالیٰ کے ایام وہی ہیں ۔ جب اس کی طرف سے ہمیں انمول نعمتوں سے نوازا گیااور لازوال رحمتوں سے سرفراز فرمایا گیا۔اللہ والوں کو یاد کرنا اور ان کی یاد میں کوئی دن منانایا تقریب سجانابھی بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو یاد کرنے کے مترادف ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر بہت کچھ یاد دلایا ہے۔یقیناً یاد دلانا بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی سنت ہے۔ یاد دلانے کی بناء پر ہی بہت سے رازِ حقیقت کھلے ہیں ۔ ان گنت بابِ حکمت کھلے ہیں۔ درِ رحمت کھلے ہیں ۔ یاد نہ دلایا جاتا اور یہ نہ فرمایا جاتا کہ یاد کیجئے تو بہت سے اسرار نہ کھلتے۔حقائق کے گیسوئے خمدار نہ کھلتے اور قدرت کے لبِ اظہار نہ کھلتےتو بہت سی سچائیوں سے پردے نہ اٹھتے۔ہم اور آپ دین اور دنیا کے بہت سے حقائق اور دقائق کو نہ سمجھتے۔اختصار کے ساتھ موضوع کی مناسبت سے صرف ایک آیتِ قرآنی کا حوالہ دینا ضروری ہے ۔
واذقال ربک للملٰئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفا
ترجمہ: یاد کیجئے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ بےشک میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ۔
اس آیت کریمہ پر غور کیجئے ۔ ” یاد کیجئے ” فرما کر کتنے حقائق سے پردے اٹھا دئیے گئے ہیں ۔کوئی واقعہ یاد تو اسے دلایا جاتا ہے ،جو موجود ہو۔ اس نے بھی اس کا مشاہدہ کیا ہو۔وہ بھی پوری طرح اس کاا دراک رکھتا ہو ۔ حضرت آدم علیہ السلام تو پہلے انسان ہیں ۔اس سے پہلے کوئی بندہ بشر نہیں تھا ۔ اسی لیے ان کی تولید نہیں تخلیق ہوئی۔پھر جب کوئی تھا ہی نہیں تو یاد کس بنیاد پر دلایا گیا؟ یہ کیوں فرمایا گیا کہ :۔
ترجمہ: یاد کیجئے جب آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ بےشک میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ۔
کیا یہ آیتِ قرآنی اس حقیقت کی مظہر نہیں نبیِ رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں موجود تھے۔کیا یہ ارشادِ ربانی اس سچائی کا اغماز نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی نورِ محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرشِ بریں منور تھا۔اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ” یاد کیجئے” ۔۔۔۔۔۔۔ ہی بتا رہا ہے کہ وہاں جب فرشتوں کے سوا کوئِ نہیں تھا تو حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم، پر نور تھے۔حدیثِ قدسی سے بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشکیل دیا۔ حدیثِ قدسی کا مکمل مفہوم یہ ہے:۔
ترجمہ: اللہ چھپا ہوا خزانہ تھا، اس نے چاہا کہ اسے پہچانا جائے چناچہ اس نے نورِ محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشکیل دیا۔
کیا یہ مقامِ فکر نہیں کہ پہچان اللہ اپنی کروانا چاہتا ہے اور تخلیق نورِ محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا جا رہا ہے۔نبی رحمت، مدینۃ العلم و الحکمت ، مظہرِ شانِ مشیت حضرت محمد مصطفی احمدِ مجتبیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ ذیشان ہے کہ:۔
“اول ما خلق اللہ نوری ”
ترجمہ:سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا گیا۔[حدیث]
اور یہ حدیث مبارکہ بھی غور طلب ہے:۔
ترجمہ:”مجھے اس وقت شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا جب آدم روح اور جسم کے درمیانی مراحل میں تھے”۔ [ ترمذی شریف]
“مقاماتِ نور ” کا ذکر ان حوالوں کے ساتھ اس لیے ضروری ہے کہ یہ کائنات، یہ تجلیات اور یہ ارض سماوات ہی نہیں جو کچھ بھی ہے ، وہ حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور ہی کی جلوہ آرائی ہے۔ اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی صورت میں بھی ہمیں جو نعمت ، دولت ، حکمت، بصیرت اور ہدایت ملی ہے ، یہ نبیِ رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے نور کا فیضان ہے ۔نقشبندیہ ، مجددیہ کے سوا روحانیت کے تمام سلاسل مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ ابنِ ابی طالب اسد اللہ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پر منتہی ہوتے ہیں ۔ البتہ نقشبندیہ سلسلہ الفضل البشر ، ثانیِ اثنین اذھما فی الغار۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلا ہے۔ ان دونوں ہستیوں کو بلاشبہ جو مقام اور احترام ملا وہ بھی مظہرِ اول مرسلِ خاتم سرکارِ دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ بابرکت کا ثمرہ ہے۔
مقاماتِ نور۔۔۔۔۔۔۔ بظاہر ایک برگزیدہ شخصیت اور مخفی ولی کی زندہ کہانی ہے لیکن غور کیجئے تو یہ پرتوِ شانِ ربانی ہے۔ اس میں نبیِ رحمت نورِ مجسم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضوفشانی ہے۔ صحابہِ کرام کی جلوہ سامانی ہے ۔ روشنیِ مجدد الفِ ثانی ہے ۔ ضمنا سہی مگر تذکرہِ محبوبِ سبحانی ، قطبِ صمدانی ، شہبازِ لامکانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ہے۔ مثنویِ مولانا روم کے افکار کی تابانی ہے ۔ اردو اور فارسی کے استاد شعرا کے متصوفانہ خیالات کی ترجمانی ہے ۔ یہ ذکر ِ جمیل جملہ سلاسلِ روحانی ہے ۔ یہ ان بوریہ نشینوں کی حکایتِ لاثانی ہے، جو آسودہ ِ خواب ہیں مگر دلوں پر آج بھی ان کی حکمرانی ہے ۔یہ اسلاف کی صدائے لن ترانی ہے ۔ مگر انہیں نہیں بھلایا گیا ، مصنف کی تحقیق و تخلیق اس امر کی یقین دہانی ہے ۔ فارسی زبان میں استغاثہ دیکھئے ، کیا زبان دانی ہے ؟کیا لطف بیانی ہے؟ ایک ایک مصرع میں فکر و قلم کی جولانی ہے ۔ تعظیماً جھکی ہوئی لوحِ پیشانی ہے ۔ سبحان اللہ۔۔۔ پیرو مرشد قدس سرہ العزیز حضرت قبلہ سید نور الحسن مجددی رحمتہ اللہ علیہ کی کیا مدح خوانی ہے ۔ بلاشبہ ” مقاماتِ نور” پر انور۔۔۔۔ معین زبیری نے یہ کتاب تحریر کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ، اس لیے بھی یہ کتاب نورانی ہے ۔ کتاب کی” بسم اللہ ” نے ہی دامنِ دل تھام لیا ہے۔ اور روح نے فرطِ عقیدت سے مالکِ ارض و سما کا نام لیا ہے۔انور معین زبیری نے تجرِ علمی کی بنیاد پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تضمین میں خوب جوہر دکھائے ہیں ۔دیپ سے دیپ جلائے ہیں ۔ سوچ کے نئے رستے سجھائے ہیں ۔ سبحان اللہ ۔۔۔ غیب سے کیا کیا مضامین خیال میں آئے ہیں ۔ آگے بڑھئیے تو ایک اور شاہکار دستِ نگاہ کو تھام لیتا ہے ۔ ایک لائن میں حمد و ثنا ہے اور دوسری لائن میں درود و سلام۔ ایک سطر میں تحمیدِ ذوالجلال اولاکرام ہے اور دوسری سطر میں توصیفِ سیدِ خیر الانام ۔ ایک طرف تسبیحِ ربِ کریم دوسر ی طرف نذرانہِ عقیدت بحضور روف و رحیم۔ ایک جانب ثنائے ربِ قدیر دوسری جانب درود و سلام بحضور سراجِ منیر ۔ بلاشبہ یہ بھی علمی نمونہ ہے بے نظیر ۔ باکمال ہے تحریر۔ پر تاثیر ہے تسطیر اور ” مقاماتِ نور” میں اسی کی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے تنویر۔
اس کتاب کو پڑھ کر کوئی ایک ہستی سامنے نہیں آئی ۔بہت سے بزرگوں سے ملاقات ہو گئی ہے ۔ برکات و تجلیات کی برسات ہو گئی ہے ۔ بارشِ لطف و عنایات ہو گئی ہے ۔ محض سید نور الحسن نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ کی سیرت و شخصیت کا بلند قامت مینار آنکھوں کے سامنے نہیں آیا ۔ “پیشوائے عارفاں ” اور ” چارہ سازِ بے کساں ” کی زیارت بھی ہوئی ہے ۔”رہبر شریعت” ، “کامل طریقت” ،”کاشف حقیقت” اور “عارف معرفت” کی معرفت بھی ہوئی ہے۔”مظہر خوارق و کرامت” کا دیدار ہوا ہے۔”مصدرِ نورِ ہدایت” سے قریہ ء دل و جان کو روشنی ملی ہے۔”موردِ فیوض و نسبت” نظر مستفید اور روح مستفیض ہوئی ہے۔یہ کتاب بظاہر ایک مخفی ولی پر ہے لیکن مخفی ولی میں بھی ان گنت شخصیات “مخفی “ہیں۔بہت سی ہستیاں مجتمع ہیں۔اس ایک شخصیت میں جو شخصیات ہیں اور اس ذات میں جو کائنات ہے،اس مخفی کائنات کا گوشہ گوشہ منور کر دیا گیاہے۔یہ فکری ،تخلیقی اور تحقیقی کاوش اتنی کامیا ب ہے کہ میں مخفی ولی کو اٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے ،سجدہ اور رکوع کرتے اور قیام و سلام کرتے دیکھ رہا ہوں۔” مقامات ِنور” کو دیکھنے کےلیے وہ نظر تو میرے پاس نہیں،جس سے انور معین زبیری نے دیکھا ہے لیکن اب و روشنی ہے کہ دیکھا جا سکتا ہے۔اس لیے میں نے بھی مصنف کی آنکھو ں اور اس کتاب میں مہیا کی گئی روشنی سے ایک عظیم المرتبت اور کثیر الجہت روحانی شخصیت کے مقامات بلند اور مدارج ارجمند کو دیکھ لیا ہے۔سبحان اللہ کیا بات ہے۔ان کا قدو قامت اور استقامت سب آنکھوں کے سامنے آگیاہے۔ان کی عبادات ،مجاہدات ،مکاشفات ہی نہیں تمام معمولات بلکہ پوری حیات آئینہ کر دی گئی ہے۔بلاشبہ یہ ایک ایسا آئینہ خزانہ ہے،جس میں “نور” کی تجلیات اور مختلف ادوار اور اقامت میں ان کی جو کیفیات رہی ہیں ، ان کا مشاہدہ کیا جا سکتاہے۔فنا فی الشیخ سے فنا فی الرسول کی منزل پر پہنچنے والی ہستی فنا فی اللہ کی منزل پر پہنچ گئی۔زندی کے آخری دس سال ان پر جذب کا عالم طاری رہا اور زبان حق بیان پر بس ” اللہ النور السموات والارض”کا وظیفہ جاری رہا۔
یہ کتاب پڑھ کر یہ حقیقت بھی کھلی کہ ان کے عقیدت گزار ہزاروں لاکھوں تھے مگر وہ مرید بہت کم بناتے تھے۔کوئی حلقہء ارادات میں شامل ہونے پر اصرار بھی کرتا تو بس یہی فرماتے تھے کہ آپ ہمیں دیکھیں ،ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں۔یہ احتیاط نہ فرماتے تو آج آپ کے مریدین کی فوج ظفر موج نظر آتی لیکن آپ نے اپنے بعد صرف تین خلفاء چھوڑے ۔بلاشبہ یہ ہستی مایہ ءناز تھی۔شرافت،نجابت اور سیادت ان کا طرہء امتیاز تھا۔آپ کو ایک مرتبہ خضرت بندہ نواز گیسو دراز کے مزار ِپر انوار پر حاضری کا شرف حاصل ہوا تو وہیں پتا چلا کہ قرب وجوار میں ایک سیدانی بی بی کا بھی مزار ہے۔لیکن اگر کوئی نجیب الطرفین سید نہ ہو تو وہاں نہیں جا سکتا۔اور اگر چلا جائے تو راندہء درگاہ کر دیا جاتا ہے۔یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرما یا کہ بزرگوں سے تو یہی سنا ہے کہ میں نجیب الطرفین سید ہوں ۔اگر کسوٹی یہ ہے تو ضرور آزمانا چاہیے۔پھر آپ نے اس دربار ِ ذی وقار میں حاضری دی۔بڑی دیر وہاں قیام کیا ۔اور جب باہر تشریف لائے تو لوگوں نے وفورِ عقیدت سے ہاتھ چوم لئے ۔ یہ مقام اور احترام محض اس لیے ملا کہ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔
حضرت سید نور الحسن نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ پوری زندگی خود نمائی سے گریزاں رہے۔بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ اظہار نہیں فرماتے تھے کہ میں بھی کچھ ہوں ۔اور اگر کوئی صاحبِ نظر کچھ جان بھی لیتا اور ان کی روحانی عطمتوں کو پہچان بھی لیتا تو بھی آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ یہ بات زبان پر لائے یاکسی اور کو بتائے ۔حضرت غلام حسین سہاگ بھی مجددی تھے۔صاحبِ نظر تھے۔ آپ کو دیکھا تو بے ساختہ فرمایا کہ سبحان اللہ۔۔۔اس عمر میں تمام لطائف جاری ہیں ۔ آپ کو یہ انداز نہ بھایا اور اپنے بزرگوں سے فرمایا کہ حضرت غلام حسین سہاگ کو منع کیجئے ۔اگر ان کے فقرے سے میں کسی گھمنڈ کا شکار ہو جاتا تو میرے پاس کیا رہتا ؟اس واقعے سے ان کی سوچ اور اپروچ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ مخفی ولی رہنے والوں کی یہ بھی ایک نشانی ہے ۔ نظر نہیں آتے مگر دلوں پر حکمرانی ہے۔
اس کتاب اور صاحبِ کتاب کے حوالے سے میں نے کچھ صفحات ضرور سیاہ کئے ہیں لیکن آپس کی بات ہے میرا دل نہیں مانتا کہ یہ کتاب محمدانور معین زبیری نے لکھی ہے ۔، سرورق پر مصنف کی حیثیت سے نام انہی کا جگمگا رہا ہے ۔ لیکن کوئی کتنا بھی بڑا لکھاری ہو ، بیس دن میں کتاب نہیں لکھ سکتا ۔ اور ایسی کتاب جس میں علم بھی ہو اور معرفت بھی ، عرفان بھی ہو اور حکمت بھی ، طریقت بھی ہو اور حقیقت بھی ۔ دینِ اسلام کے رنگوں کی چھوٹ بھی ہو اور کسی عظیم روحانی شخصیت کی مکمل سوانح حیات بھی ۔ قلبی وارداتیں بھی ہوں اور روحانی تجربات و مشاہدات کی حکایتیں بھی ۔ ایمان افروز باتیں بھی ہوں اور بصیرت زا یادیں بھی ۔ مصنف نے یہ سب کچھ تسبیح کی دانوں کی طرح محبت اور عقیدت کی ڈوری میں پرو کر یادوں کی جو “مالا” بنا دی ہے،وہ بجائے خود تخلیق،تحقیق اورتدقیق کا ایک معجزہ اور ایسا علمی ،ادبی اور روحانی تجربہ ہے کہ جس کی کوئی مثال ڈھونڈنے سے بھی تلاش کرنا محال ہے۔بزرگوں کی سیرت و شخصیت اور ان کی حیات و خدمات پر ہزاروں لاکھوں کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی لیکن یہ تجربہ کئی اعتبار سے منفرد ہے۔پہلے سے لکھی ہوئی کوئی ایک سطر پاس نہیں ہے۔اور چند احباب کے اصرار پر ایک مکمل کتاب لکھنے کی حامی بھر لی جاتی ہے۔وسائل نہیں ہیں۔مواد نہیں ہیں۔کیا لکھا جائے گا؟ابھی سوچا نہیں ہے۔البتہ یہ فیصلہ ضرور کر لیا گیا ہے کہ کتا ب کب منظر عام پر آئے گی؟آفرین ہے اس ارادے اور وعدے پر۔انور معین زبیری سیاسی شخصیت ہوتے تو مان لیا جاتا کہ موقع کی مناسبت سے جو جی میں آیا کہہ دیا۔انہوں نے کس بنیاد پر یہ کتاب لکھنے کی ہا می بھر لی اور بے سروسامانی کے باوجودقلع فتح کرنے کے لیے میدان میں اترنے کی ٹھان لی۔یہ تو وہی جانتے ہیں۔شاید قبولیت کی کسی گھڑی میں انہوں نے ارادہ اور وعدہ کیا ہو گا،جو پورا ہوگیا۔آپ انہیں اس کتاب کا کریڈٹ دینے پر مصر ہیں تو ضرور دیجئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب انور معین زبیری کی نہیں ہے۔کسی کے مکان پر میں اپنے نام کی تختی آویزاں کردوں تو وہ میرا مکان نہیں ہو سکتا۔انور معین زبیری نے جب اس کتاب کا کوئی لفظ نہیں لکھا تو یہ کتاب ان کی کیسے ہو سکتی ہے؟ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ ان کے اندر کا انسان بولتا گیااور کمپوزر ان کی گفتگو کو کمپیوٹر پر محفوظ کرتا رہا۔روحانی ،ایمانی اور وجدانی قوتوں نے اس عمل میں ہاتھ بٹایا۔انہوں نے 72 سالہ زندگی میں اسلام،تصوف،معرفت،شریعت،طریقت ،حقیقت ،روحانیت ،علم ،ادب ،فلسفے اور حکمت کے حوالے سے جو دولت سمیٹ کر اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپا لی تھی ، وہ کچھ بٹن دبتے ہی باہر آگئی اور کسی محنت کے بغیر وہ ایک کتاب کے مصنف بن گئے ۔ایک ایسی کتاب کے مصنف جو انہوں نے لکھی ہی نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس کتاب سے اہلِ ذوق کو سوچ کی غذا اور مزہ ہی نہیں بہت کچھ ملے گا ۔ اس سے روحانیت کی نئی جہتیں بھی سامنے آئی ہیں اور ” مقاماتِ نور ” کی تجلیات سے قریہِ ءدل و جاں بھی منور ہوں گے لیکن یہ مانئے کہ یہ محمد انور معین زبیری کا کا رنامہ نہیں ہے ۔قارئین یقیناً یہی سمجھتے رہیں گے کہ انور معین زبیری نے ایک علمی معرکہ سر کر لیا ہے اور صاحبانِ ذوق کے دل میں گھر کر لیا ہے ۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ عمر بھر اسی غلط فہمی کا شکار رہیں ، اس سے حقائق بدل تو نہیں سکتے۔ میرے خیال و فکر کے آسمان پر جو بادل چھائے ہوئے ہیں، وہ ٹل تو نہیں سکتے۔
مجھے اس کتاب میں لکھنے والے کی دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں ۔ زندگی میں لوڈشیڈنگ سے اندھیرا ہے ، مگر اس اندھیرے میں بھی نئی راہیں سجھائی دیتی ہیں ۔ جن پر قلم نہیں اٹھایا گیا، وہ حقیقتیں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ آپ بھی پڑھئے ، سر دھنئے کہ یہ ایک محبتوں بھرا مقالہ ہے ۔ اس میں جو ہے معتبر حوالہ ہے اور بہت کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ بس ” یادوں ” کا اجالا ہے۔

close