’’معراج کے دروازے تک‘‘ ایک فکر انگیز سفر نامہ، تبصرہ: سحر صدیقی

یہ حقیقت کسی تشریح اور وضاحت کی محتاج نہیں ہے کہ عالم اسلام ، خاص طور پر مملکت خداداد کے مسلمانوں کا ارض فلسطین اور اسرائیل کے ساتھ نہایت گہرا مذہبی اور جذباتی رشتہ ہے جس پر گاہے سیاست کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔

ارض فلسطین وہ مقدس سرزمین ہے جہاں پر بے شمار انبیاء کرام نے مخلوق خدا کی اصلاح اور راہنمائی کا منصب ادا کیا اور اسرائیل وہ صہیونی ریاست ہے جس کو اسلام دشمن سامراج نے اپنے اقتصادی، سیاسی اور مالیاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر ایک سوچے سمجھے منصوبے بلکہ سازش کے تحت اس سرزمین پر تشکیل دیاجو صدیوں سے عربوں کی ملکیت ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کے قیام کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے ایک ایسا ملک اور ریاست قائم کیا جائےجہاں وہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنی عرب اور اسلام دشمن سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ 14مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا سرکاری طور پر اعلان ہوا اور اس کے ساتھ ہی امریکہ اور برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک نے اس کو تسلیم کر لیا۔ اسرائیلی ریاست کی پالیسی ساز شخصیات اور ادارے مسلسل اس کوشش میں مصروف ہیں کہ ارض فلسطین کے حقیقی عرب باشندوں یعنی فلسطینیوں پر ان کی اپنی سرزمین تنگ کر دی جائے جبکہ یہ مظلوم اور محکوم فلسطینی باشندے اپنے حق ملکیت کے تحفظ اور حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایک طویل عرصہ تک اسلامی دنیا میں سفارتی سطح پر اسرائیل کو تسلیم نہ کیا اور اس کے ساتھ کسی قسم کے ریاستی تعلقات بھی قائم نہ کیے لیکن گذشتہ چند برسوں سے اس روش اور حکمت عملی میں تبدیلی مشاہدہ کی جا رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات اور بحرین کی ہے جنہوں نے امریکی ایماء پر اسرائیل کے ساتھ دوستی اور قربت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان ’’معاہدات ابراہیم‘‘ کے تحت معاملات طے پائے اور بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں اس بات کا چرچا ہے کہ بعض مزید عرب ممالک بھی اس سلسلہ میں شامل ہوں گے ۔ اس کے مقابلہ میں مملکت خداداد وہ ریاست ہے جس نے اسرائیل کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ عسکری اور سفارتی محاذ پر حسب ضرورت عرب ممالک کا ساتھ دیا۔ فی الجملہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے مسلمان ، گاہے اسرائیل دشمنی اور مخالفت میں عربوں سے بھی آگے اور نمایاں ہوتے ہیں۔

اس پس منظر میں یہ بات بلاشبہ بے حد اہم محسوس کی جاتی ہے کہ جب کوئی پاکستانی کسی اسرائیلی یا یہودی ادارے /شخصیات سے رابطہ کرتا ہے تو اہل وطن اس واقعہ کو نظر انداز نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں اگر کوئی پاکستانی اسرائیل /ارض فلسطین کا دورہ کرے تو اس پر توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔

کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت مشاہدہ کی گئی جب وطن عزیز کے ایک جواں سال اور باصلاحیت کالم نگار ، راحیل اظہرکا سفر نامہ ’’معراج کے دروازے تک‘‘ اشاعت پذیر ہوا۔

راحیل اظہر نے دو مرتبہ (2018ء اور 2020ء میں )اس مقدس سرزمین کا سفر کیا جس کے دوران انہوں نے اس سرزمین انبیاء کے متعدد تاریخی مقامات کی زیارت بھی کی۔ ظاہر ہے کہ ان میں سب سے نمایاں قبلہ اول یعنی بیت المقدس /مسجد اقصیٰ تھی ۔ یہاں پر ہی رئیس الاحرار ، مولانا محمد علی جوہر کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ واضح رہے کہ مولانا، محمد علی جوہر ، علامہ اقبال کے عزیز دوست تھے اور انہیں مولانا اپنا استاد قرار دیتے تھے۔ علامہ صاحب جب فلسطین گئے تو انہوں نے اپنے اس دوست کی قبر پر فاتحہ خوانی بھی کی تھی۔ مولانا کا انتقال آزادی سے 16برس قبل لندن میں ہوا تھا ۔ ان کی انگریزی دانی اور انشاء پردازی کا لوہا مقامی انگریز تو مانتے تھے ہی پر ان کے ادب پاروں کی داد انگلستان کی ادبی محفلوں میں بھی دی جاتی تھی۔ ان کی قبر ایک حجرہ میں واقع ہے جس پر عربی زبان میں کندہ ہے ’’ محمد علی الہندی‘‘۔

راحیل اظہر کی شخصیت کا ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ وہ وطن عزیز کے ممتاز کالم نگار اور منفرد انشاء پرداز اظہر سہیل (مرحوم) کے صاحبزادے ہیں۔ راحیل نے اپنے والد کی وفات کے بعد امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی اور اسی حیثیت میں انہوں نے کسی مشکل اور مداخلت کے بغیر اسرائیل/فلسطین کا سفر اختیار کیا ۔ ان کا انداز بیان نہایت متوازن اور معلوماتی ہے جس کے نتیجہ میں یہ سفر نامہ کسی مبالغہ آرائی، افسانہ طرازی اور خود ستائی کے ان عناصر سے محفوظ رہا جو ان دنوں ہمارے بیشتر سفرناموں پر غالب دکھائی دیتے ہیں۔ ’’معراج کے دروازے تک‘‘ کا مطالعہ نہ صرف قاری کے علم و شعور میں اضافہ کرتا ہے بلکہ یہ اس اعتبار سے بھی نہایت فکر انگیز ہے کہ یہ تاریخی حقائق پر مبنی ایک مستند اور معتبر دستاویز ہے۔ یہ کتاب ملک کے ممتاز ادبی اشاعتی ادارے ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور نے شائع کی ہے جو اس کے منتظم ، افضال احمد صاحب کے ذوق اور شوق کا ثبوت ہے۔۔۔

close