اشفاق احمد، ایک کثیر الجہت شخصیت داستان گو، ظفر معین بلے جعفری

اشفاق احمد دی گریٹ : (22 اگست 1925ء فیروز پور، صوبہ پنجاب ۔۔۔۔۔۔ 7 ستمبر 2004ء لاہور پنجاب) اللہ کریم باباجی اشفاق احمد کے درجات بلند فرمائے۔ اشفاق احمد خاں صاحب کی برسی کے موقع پر کچھ لکھنے کا آغاز کرنا چاہا تو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور باباجی حضرت اشفاق احمد خاں صاحب کی نصف صدی پر محیط داستان رفاقت کی بے شمار باتیں جو سن رکھی تھیں اور بے لاتعداد واقعات اور ان گنت ملاقاتیں اور ان ہوش سنبھالنے کے بعد کے قصے ایک فلم کی شکل میں آنکھوں کے سامنے آگٸے ۔ باوجود اس کے کہ ہم جانتے تھے سمجھتے تھے اور اندازہ کرسکتے تھے کہ باباجی اشفاق احمد خاں صاحب کس قدر شدید علیل ہیں اور ان کی حالت بتدریج تشویش ناک ہو رہی تھی۔ محترمہ صدیقہ بیگم سے بدستور رابطہ قائم تھا لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیت سے باخبر بھی تھے۔ 2004 ہی کے جنوری کی 28 تاریخ تھی کہ جب ہمارے پیارے بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی رحلت ہوٸی تھی. ہمارے سروں سے آسمان اٹھ گیا تھا لیکن احمد ندیم قاسمی صاحب ۔ اشفاق احمد صاحب ۔ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد ۔ خالد احمد۔پھوپی اماں ادا جعفری اور صدیقہ بیگم سمیت بے شمار محبان سید فخرالدین بلے اس قیامت کی گھڑی میں ہمارے ساتھ ساتھ رہے۔ باباجی اشفاق احمد خاں صاحب اور بانو آپا نے فون پر ہمہ وقت رابطہ قائم کیے رکھا۔

اشفاق احمد خاں صاحب موذی مرض میں مبتلا ہوچکے تھے اور بیماری تیزی سے شدت اختیار کرتی جارہی تھی۔ دوران علالت بھی ان سے مسلسل رابطہ رہا ۔ بات ہوئی ان کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی ہوتی تھی اور وہ فرما رہے ہوتے تھے اللہ کا شکر ہے۔ اللہ کا کرم ہے۔ اکثر اوقات تو ان سے بات کرنے دوران خود ہم پر رقعت طاری ہوجاتی اور وہ ہمیں حوصلہ دیتے۔ایک دو مرتبہ تو یہ بھی فرمایا کہ بَلّےصاحب سے ملنے کے بہانے بن رہے ہیں۔ ظفر تم سمجھنا کہ ہم نے قافلہ کے پڑاٶ کا ٹھکانہ بدل لیا ہے۔ دیکھو رونا نہیں۔ میں نے بانو سے بھی کہا ہے کہ ہمت نہ ہارنا آنکھ سے آنسو ٹپکے تو ہماری تپّسیا بھنگ ہوجائے گی۔ بس دعاٶں میں یاد رکھنا جب تک رکھ سکو۔ جب اپنے والد سید فخرالدین بلے صاحب کے درجات کی بلندی کےلیے ہاتھ اٹھاٶ تو ان کے حلقہ احباب میں شامل اصحاب کو بھی یاد کرلیا کرنا۔ میں یاد رہ جاٶں تو مجھے بھی دعاٶں میں شامل کرلینا ۔

اشفاق احمد خان صاحب ممتاز ترین دانشور ، افسانہ نگار ، ڈرامہ رائٹر اور براڈ کاسٹر اشفاق احمد نے گڈریا ، باباصاحبا ، من چلے کا سودا ، ایک محبت سو افسانے، سفر در سفر اور زاویہ سمیت متعدد افسانے ڈرامے تخلیق فرماٸے اور گفتگو کی نشستوں کا اہتمام فرمایا ۔ ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی قاٸم کردہ ادبی تنظیم قافلہ کا ماہانہ بھی انہی کی اقامت گاہ پر ڈالا جاتا تھا اور وہی میزبان ہوا کرتے تھے ۔ اشفاق احمد خاں صاحب اور بانو قدسیہ آپا قافلہ پڑاٶ کے مستقل شرکائے کرام میں سر فہرست شمار کیے جاتے تھے ۔

باباجی اشفاق احمد خاں کے ڈرامہ ”من چلے کا سودا “ کے حوالے سے قافلہ کے دو پڑاٶ ڈالے گٸے ۔ ڈاکٹر اصغر ندیم سید ۔ڈاکٹر اجمل نیازی۔ ڈاکٹر سلیم اختر ۔ احمد ندیم قاسمی میزبان سید فخرالدین بلے اور جناب منور سعید صاحب اور دیگر شرکائے قافلہ نے بھرپور گفتگو فرمائی۔ اشفاق احمد خاں صاحب اور بانو قدسیہ صاحبہ کے اعزاز میں متعدد خصوصی پڑاٶ بھی ڈالے گٸے ۔ اور اس کے علاوہ بھی قافلہ کے متعدد معمول کے ماہانہ پڑاٶ بھی اشفاق احمد خاں صاحب اور بانو قدسیہ آپا کے نام سے منسوب کیے گٸے ۔ ستارہ امتیاز اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کی وقعت اور حیثیت میں اضافہ ہوا جب یہ اعزازات محترم بابا جی اشفاق احمد خاں صاحب کو پیش کیے گٸے۔

بابا جی اشفاق احمد 22 اگست 1925ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے ۔ باباجی حضرت اشفاق احمد خاں صاحب طویل عرصے تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ 1992 میں کانٹریکٹ کی مدت و معیاد مکمل ہونے پر اس ادارے سے علیحدہ ہوگٸے تھے ۔ سرکار بابا جی حضرت اشفاق احمد خاں صاحب نے 41 برس تک ریڈیو کے مشہور موضوعاتی سیریل ’’تلقین شاہ‘‘ کا اسکرپٹ بھی لکھا اور اس میں صداکاری بھی کی۔ ”تلقین شاہ “ ریڈیو پاکستان کا واحد پروگرام ہے جو مقبول ترین قرار پایا اور چالیس برس سے زاٸد عرصے تک بلا تعطل جاری رہا۔ دنیا بھر میں ریڈیو پاکستان کا تعارف کروانے اور یہ ریڈیو پاکستان ہے کا پہلا اعلان فرمانے والے قابل صد احترام سید مصطفی علی ھمدانی کے مقربین میں سے تھے ۔ اور اشفاق احمد خاں صاحب کو ہمیشہ جناب سید مصطفی علی ھمدانی صاحب کا حد درجہ احترام کرتے دیکھا گیا ہے.

باباجی حضرت اشفاق احمد نے شاعر کرب آنس معین اور آنس معین کی یکسر منفرد لہجے کی چونکا دینے والی شاعری کے حوالے سے اپنے ناقدانہ تجزیے میں جو کچھ لکھا بے شک وہ تاریخ ادب کا حصہ ہے۔ یہاں ہم جناب اشفاق احمد صاحب کے اس مضمون کا اقتباس پیش کر رہے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے۔ آنس معین آتش پارہ ٕ سخن ۔ ……… جواں مرگ آنس معین کی غزلیات کا مجموعہ کٸی دنوں سے میرے پاس رکھا ہے ، میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں مگر دیکھ نہیں سکتا ، میں اس پر لکھنا چاہتا ہوں مگر لفظ وجود میں آنے سے پہلے بکھر جاتے ہیں ایسی چیزیں پہلے بھی نظر سے گزری ہیں جنہیں دیکھتے ہوٸے ایک چیخ سی سینے میں پیدا ہونے سے پہلے فنا کا درس بن جاتی تھی مگر یہ کیفیت تو کبھی نہیں ہوٸی تھی کہ کاغذ آتش پارہ بن جاٸے اور لفظ لفظ انگارہ ۔ بہر حال مجھے آنِس کے لیے کچھ لکھنا تھا سو ان انگاروں میں اترنا پڑا اور خود کو جھلسانا پڑا مگر رک رک کر ، ٹھہر ٹھہر کر ، وقفے دقفے سے کہ اس کیفیت میں چند ثانیوں سے زیادہ رہا نہیں جاسکتا۔

آنِس معین کی شاعری دیکھتے ہوٸے لفظ بھی ۔۔۔۔۔۔ پھول بن جاتا ہے حالانکہ لفظ تو لفظ ہے اور ایک خاص مفہوم رکھتا ہے۔ جسے جس طرح بھی استعمال کیا جاٸے ، اپنا فرض ادا کرکے الگ ہوجاتا ہے ۔ مگر آنِس کے قلم سے ٹپکے ہوٸے لفظوں نے تو حیثیت ہی کچھ اور اختیار کرلی ہے اور یہ اعتبار اس عہد کے کسی اور تخلیق کار کے حصے میں شاید ہی آیا ہو ، پھر اس قدر کم عمری میں !! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینا“ یہ ایک اعجاز ہے جو دست فطرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ آنس کو عطا کیا تھا ۔

اگر نہیں میں آشنا عبادتوں کی رسم سے

چھپا ہوا ہوں کس لیے بدن کی خانقاہ میں

=××=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی

بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

==×=×=×=×=×=×=×=×=×=

جب فضاٶں سے ربط بڑھتا ہے

ٹوٹ جاتا ہے آشیانے سے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

رہتا ہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گا میں

جاٸے اماں اک اور بھی ہوتی ہے گھر کے بعد

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آٸے نہ سورج

اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

کیا عدالت کو یہ باور میں کرا پاٶں گا

ہاتھ تھا اور کسی کا مرے دستانے میں

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

میں جستجو میں ہوں آٸینے کو کھرچ رہا ہوں

میں رفتہ رفتہ مٹا رہا ہوں نشان اپنا

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں

وقت سے پہلے دھوپ سروں پر آ پہنچی ہے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے

مرا ملبہ ، ملبہ مرے اوپر گرا ہے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو

لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

یہ آٸینہ تو سچ کہتا ہے لیکن

ہم اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

اس نے بھی یہ سوچا ہے کہ بس ربط نہ ٹوٹے

اک دوسری بستی کا پتہ دے کے چلا ہے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں

ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

ذرا تو کم ہوٸیں تنہاٸیاں پرندے کی

اب ایک خوف بھی اس آشیاں میں رہتا ہے

=×==×=×=×=×=×=×=×=×==×=۔

میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس نے

میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

آنس کی شاعری اور زندگی کے بارے میں آنِس کے رویے مظہر ہیں کہ آنس معین ایک انتہاٸی مضطرب ، متجسّس ، متلاطم اور منّور روح کا جسمانی پیرہن تھا۔ آنس ہم میں موجود تھا مگر ہم سے الگ تھا ، اس معاشرے کا حصہ تھا مگر اس سے بالکل کٹا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہی فضاٶں میں محو پرواز تھا ، مگر اس کی اڑان جدا تھی ۔ اسی لیے تو اچانک آنِس نے بہت گہراٸی میں سرکتی ہوٸی زمین پر نظر ڈالی اور پھر اچانک عمودی پرواز پر روانہ ہوگیا ، جس کا کوٸی انت ہے نہ اخیر

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=

ہے میرے اندر بسی ہوٸی ایک اور دنیا

مگر کبھی تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

سیر چمن کی کرنے والو تم نے سنی تو ہوگی

پاٶں تلے آجانے والے پتوں کی آواز

×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا

پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

==×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=

میں بارش کی دعاٸیں کیسے مانگوں

مری بستی میں کچے گھر بہت ہیں

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

کبھی میں سورج کو دوں صدا تیرگی کے ڈر سے

کبھی یہ سوچوں کہ برف کا ہے مکان اپنا

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

جانتے ہو کس قدر خاٸف ہے اپنے آپ سے

سنگ جیسا آدمی جو کانچ کے اس گھر میں

==×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

میری قامت سے ڈر نہ جاٸیں لوگ

میں ہوں سورج ، مجھے دیا لکھنا

×=××=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

بہت سی باتیں ابھی وضاحت طلب ہیں لیکن

مری کہانی کا حسن ہی اختصار میں ہے

=×=×==×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے

خود میری کہانی بھی سناٸے گا کوٸی اور

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

اسے ملے ہو مگر جانتے کہاں ہو تم

خود اپنے آپ پہ آنِس ابھی کھلا کب ہے

×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×۔

کیسے ہم سمجھاٸیں گے مفہوم کیا خوشحالی کا

دورِ قحط میں جینے والے بھوکے پیاسے بچوں کو

×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا

کہیں پہ سر ، کہیں پگڑی کا احترام ہوا

==×=×=×=×==×=×=×=×=×=×=۔

چپ رہ کر اظہار کیا ہے کہہ سکتے تو آنِس

ایک علہدہ طرزِ سخن کا تجھ کو بانی کہتے

=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=۔

اہل نظر نے مختلف مشاہیر سے آنس کی مماثلت تلاش کی ہے ، مگر میرے خیال میں آنِس ۔۔۔۔۔۔۔۔ آنِس تھا اور بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر یہ اس بچے کی واپسی تھا ، جو گیارہ سال کی عمر میں

دل کے پھولے جل اٹھے سینے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گٸی گھر کے چراغ سے

کہہ کر دہکتے ہوٸے شعلوں کی نذر ہو گیا تھا ۔ یہ طے ہے کہ جب تک شعر سلامت ہے بلکہ جب تک لفظ زندہ ہے آنِس معین زندہ رہے گا ، کسی محراب میں چراغ کی صورت ، کسی دل میں بکھرتے خواب کی طرح ، کسی آنکھ میں آنسو بن کر ۔

close