الیکشن کمیشن کے پاس کوئی قانون نہیں تھا کہ الیکشن تاریخ کی توسیع کرے، چیف جسٹس

اسلام آباد(پی این آئی)سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جہاں نقل وحرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلد بازی میں لکھا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی قانون نہیں تھا کہ الیکشن تاریخ کی توسیع کرے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی،دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی ہے، وزارت دفاع نے کہاسکیورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کر سکتے، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہو سکتا ہے الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہو جائے گی۔جسٹس منیب اختر نے کہاشہدا اسی دھرتی کے سپوت ہیں،اس سے زیادہ کوئی کیا کر سکتا ہے اپنی جان کی قربانی دے، افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ فوج کی نقل وحرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں ،کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا،دہشتگردی کا مسئلہ نوے کی دہائی سے ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہئے تھا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے، اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں ،2008میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی، کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ محترمہ کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیاتھا، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے کمیشن کو تیار رہنا چاہئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا4 ماہ میں الیکشن کراسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن وہ ہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم لکھی ہوئی ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا،مردم شماری ابھی بھی جاری ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ مردم شماری کے بعد چارماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں ، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہیں اس کی بنیاد پر الیکشن ہوتے ہیں ، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ مردم شماری کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی تو کیا ہو گا، کیا نگران حکومت مردم شماری کے نتائج شائع کرسکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ 30 اپریل کو مردم شماری ہونی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ گزشتہ مردم شماری کے نتائج آنے میں کئی سال لگے تھے، آپ پر بھروسہ کیسے کریں نتائج تاخیر سے شائع نہیں کریں گے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں،آئی کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، مشترکہ مفادات کونسل جو بھی کرے کیا الیکشن کی آئینی مدت آگے جا سکتی ہے،آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کاالیکشن سے کوئی تعلق نہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے الیکشن کا نئی حلقہ بندیوں پر کیا اثر پڑے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ 2017 سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پٹ پر اعتراض کررہی ہے،عوام کی نمائندگی ہی شفافیت ہونی چاہئے، پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے۔

اصل صورتحال یہ ہے اتنے لمبے عرصے کیلئے الیکشن ملتوی کیسے کئے جا سکتے ہیں ، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف40 دن آگے ہوئے تھے، احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نظر آتش کردیئے گئے تھے، ملک بھر میں سانحہ احتجاج ہو رہے تھے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ الیکشن کیلئے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے، سیاسی میچورٹی پر بھی ہدایات لے کر آئے، سندھ میں ٹرین پر سفر کیا ہر جگہ سیلاب تھا، بلوچستان میں کئی جگہ ٹرین پیدل چلنے والوں کی رفتار سے چلتی ہے، کوئٹہ ابھی تک ریلوے لائن سے منسلک نہیں ہوسکا، جہاں نکل وحرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلد بازی میں لکھا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی قانون نہیں تھا کہ الیکشن تاریخ کی توسیع کرے۔عدالت نے پنجاب اورکے پی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی ۔

close