حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر ، عقل، غُصہ اور احسان

اندرونی اور بیرونی ظلم کے خلاف جنگیں غصے سے نہیں عقل سے جیتی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جو معاشی خلا پیدا ہو رہا ہے وہقرضے ملتوی کروانے، یا معاف کروانے یا نئے قرضے جاری کروانے سے پُر نہیں ہو گا۔ ہماری اشرافیہ ہمارے اثاثے غیر ملکیوں کےحوالے کرے گی۔ اور ہماری “خود مختاری” بھی اُنہی کے حوالے کرے گی۔ نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ قرعہ کس کے نام نکلے گا مغرب یا مشرق کے؟ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ فکری طور پر یتیم ہے اور چیخنے چلانے کے علاوہ کُچھ نہیں کرسکتا۔ بد قسمتی سے ہمارے پاس ایک ہی تفریح ہے رونا دھونا ۔ ہم فکری طور پر جہادی ہیں اور ثقافتی طور پر عزادار ہیں-

ہمیں عقل بچائے گی ۔ عقل کی معراج گوشہ نشینوں کے پاس ہے مسند نشینوں کے پاس نہیں۔ ہم گوشہ نشینوں کی بات نہیں سُنتےکیونکہ وہ بڑے کام کرتے ہیں، بڑی باتیں نہیں کرتے۔ یہ گوشہ نشین ہمارے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں – پاکستان کو بدلنا ہے تو اُنہیںڈھونڈیں اور اُن کا ہاتھ بٹائیں۔گوشہ نشینوں اور مسند نشینوں کی عقل میں ایک بنیادی فرق ہے۔مسند نشین ننانوے کو سو کرنے کوکامیابی سمجھتے ہیں۔ گوشہ نشین ایک کی خوشی کے لئے ننانوے قربان کر دیتے ہیں ۔ دُنیا کی نظر میں یہ گھاٹے کا سودا ہے مگرگوشہ نشین گھاٹے کے سودے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔

لینے سے زیادہ دینے کوصوفیا نے احسان کہا ہے۔ میرا دوست حفیظ آرایئں ان گوشہ نشینوں میں سے ایک تھا۔ ایک دن میں نے اُسسے پوچھا حفیظ بھائی سنگت بنانے کا کیا راز ہے۔ یعنی وہ نکتہ جو خواجہ فرید سائیں نے یوں بیان کیا ہےکہ

جے یار فرید قبول کرے سرکار وی توں سلطان وی توں
ناں تاں کمتر کہتر احقر، ادنی ، لا شے لا امکان بھی تُوں

تو حفیظ بھائی نے ایک سادہ جواب دیا” تُم جیتے، ہم ہارے”۔ یہ بہادری، عقل اور احسان ہے۔ نجی کاروبار کی زبان میں یہ نقصان ہے۔اجتماعی معاملات میں یہ منافع ہے۔ جو لوگ حساب کتاب اس طرح سے کرتے ہیں اُن کے بارے میں ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ یہ زمین کانمک ہوتے ہیں۔ یہ معاشروں کو گلنے سڑنے اور ٹوٹ پھُوٹ سے بچاتے ہیں۔ یہ خود نظر نہیں آتے لیکن ان کی محبت ہر جگہ نظر آتیہے۔ جن لوگوں نے مُنافع کا کاروبار کرنا ہو وہ نجی شعبے میں جائیں۔ سویلین، یا فوجی افسر نہ بنیں۔ سیاستدان نہ بنیں۔ سیاست کاحق اُنہیں کو پہنچتا ہے جو گھاٹے کا کاروبار کر سکتے ہیں۔ خود مولا علی کی طرح نان جویں پر زندہ رہ سکتے ہیں اور خلق خُدا کےلئے لنگر جاری کر سکتے ہیں۔ یہ تب ہو سکتا ہے جب ہمارا ووٹر گھاٹے کا سودا کر لے۔ جیتنے والے کو ووٹ نہ دے حق کے حصول کے لئے ذاتی اغراض کی بازی ہارنے والے کو ووٹ دے- طاقتور کا ساتھ نہ دے حق والے کا ساتھ دے۔ نفس کی رضا کے لئے نہیں حق کی رضا کے لئے-
تیری رضا تھی اس لئے سب رہروان شوق
سُود و زیاں سے بے خبر ہارے چلے گئے

ہمیں صرف ایک نکتے پر نیا سماجی معاہدہ کرنا ہے کہ سرکاری منصب یا سیاسی عہدے کو مال کمانے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ جو عوامکی امانت کو مال کمانے کا ذریعہ بنائے اُس کی کم سے کم سزا عہدے سے برطرفی ہونی چاہئے۔ اور جو سرکاری افسر چوری پکڑنےکی پاداش میں برطرف ہو ہمارے نجی شعبے میں اُن کے لئے نوکری حاصل کرنا ممکن ہونا چاہئیے۔ انصاف کی لڑائی تن تنہا جیتنا مُشکل ہے، مل کر جیتنا آسان ہے۔ ویتنام میں امریکہ کی جنگ اس لئے ختم ہوئی کہ ایک با ضمیر سرکاری افسر ڈینئیل ایلز برگ نے ویتنام میں امریکہ کے جنگی جرائم کی کہانی پرمبنی سرکاری دستاویزات میڈیا کے حوالے کر دی تھیں۔ وہ اس وقت نوے سال کے ہیںاور اُسی دبنگ طریقے سے جولین اسانج کا بھر پور دفاع کر رہے ہیں۔ اُنہیں “کافرانہ” امریکی معاشرے نے ایک دن بھی فاقہ کشیکی سزا نہیں دی۔ وہ ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں ۔نہ ہی اُنہیں غدار کا لقب دیا ہے۔ البتہ اُن کی بیباکی نے صدر نکسن کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمارا مُلک منافع میں تب آئیگا جب اس کا راج گھاٹے کا سودا کرنے والوں کے ہاتھ میں آئیگا۔ اُس وقت تک گھاٹے کا کاروبار کرنے والوں کو ڈھونڈیں اور اُن کے کام میں اُن کی مدد کریں۔ یہی اہل دل ہماری فلاحی ریاستیں۔ گھاٹے کا کاروبار صرف درد دل والے ہی کر سکتے ہیں۔

ہم نے مُلک سے چور بازاری ختم کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ “ڈاکخانہ ملائیں “۔ ہمارا جب کوئی ذاتی کام اٹک جاتا ہے، تھانے،کچہری، دفتر، میں تو ہم ڈاکخانہ ملاتے ہیں۔ کوئی واقفیت کوئی پہنچ ڈھونڈتے ہیں ۔ اجتماعی کام کے لئے ایسے نہیں کرتے- ناجائز کامکے لئے ڈاکخانہ ملاتے ہیں جائز کام کے لئے نہیں۔ کُرپشن ہوا میں نہیں ہوتی ہماری گلی ، محلے، گاؤں میں، ہمارے دائیں بائیں ہوتیہے۔ اسے کوئ حکمران ختم نہیں کر سکتا۔ جو حکمران یہ کہے وہ جھوُٹ بولتا ہے۔یہ ایسے ہے جیسے کوئی بھیڑیا کہے میں حکومتمیں آکر گھاس کھانا شروع کر دوں گا اور باقی عمر یاد الہی میں گزاروں گا۔سچ یہ ہے جیسے پنجاب کے صوفی شاعر شاہ حسین نے کہا تھا
کالے پٹ نہ چڑھے سفیدی، کاگ نہ تھیندے بھی

رشوت صرف عوام ختم کر سکتے ہیں۔ دو قدم اُٹھا کر۔ پہلا یہ کہ آپس میں اکٹھے ہوں، چاہے دو، چار، پانچ ہوں۔ دوسرا یہ کہ سرکاری ادروں میں ڈاکخانہ ملائیں۔ سرکار میں اپنے ہمدرد، ایماندار، اور درد مند لوگوں سے رابطہ کریں۔ وہ آپ کو چوری کا حال بھی بتائیںگے اور چور کو پکڑنے کا طریقہ بھی بتائیں گے۔ یہ آپ کے سب سے قیمتی اثاثے ہیں۔ اُن کی حفاظت کریں -اپنی لڑائی خود لڑیں۔اپنی حکومت کے مالک بنیں۔ شعبدہ بازوں کے پیچھے مت بھاگیں۔

close