حق نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، ہم کسی سازش کا نہیں فریب نظر کا شکار ہیں

پاکستان کے اقتصادی نظام نے پچھلے پچھتر سال میں ایک کام تسلسل سے کیا ہے۔ اس نے خسارے کو مُنافع اور منُافع کو خسارےکے کاروبار میں تبدیل کیا ہے اور نہایت کامیابی سے ہمیں اس فریب نظر میں مُبتلا رکھا ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔یہ چور بازاری کاکام ریاست کی قوت اور قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقوں سے ہوا ہے۔ غیر قانونی کام کو نظریہ ضرورت کے نام پر اخلاقی قبولیت کی سند اور قانونی حیثیت عطا کی گئی ہے۔ میرے اُستاد اختر حمید خان کہا کرتے تھے کہ پاکستان کا مسئلہ اقتصادی نہیں اخلاقیہے۔ یہ چوری اور کام چوری کا مسئلہ ہے۔

چوری کا مسئلہ سادہ طریقے سے تین بڑی چوریوں کا ہے۔ٹیکس چوری، زمین کی چوری اور قیمتوں میں رد و بدل کر کے مُنافع کی چوری۔ پچھلے پچھتر سال میں ہمارا ٹیکس قومی آمدنی کے 10-11 فیصد کے قریب رہا ہے۔ ریاست کی انتظامی، سماجی اور فلاحیذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے یہ کم سے کم 20 فیصد ہونا چاہئے۔ اس 10 فیصد میں 7 فیصد بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا بوجھفراخدل غریبوں پر پڑتا ہے اور صرف 3 فیصد ہمارے “مفلس” حکمران ادا کرتے ہیں۔ ہمارے عوام ٹیکس کے علاوہ، صدقات، خیرات اورعطیات کی شکل میں سول سوسائٹی کو اور بھتے کی شکل میں سرکار اور ان سول سوسائٹی کو وسائل مُہیا کرتے ہیں۔وہ حکومت پرایک پیسے کابھی اعتبار نہیں کرتے۔ عوام اپنے حصے سے زیادہ دے رہے ہیں مگر حکومت اُن سے قانونی طریقے سے ٹیکس لینے کےقابل نہیں ہے۔

زمینوں پر قبضہ کرنا اور کوڑیوں کے بھاؤ قیمتی زمین بیچنے یا تحفے میں زمین کے قطعات حکمران طبقات اور اداروں کے لوگوں کو دےدینا چوری کی دوسری قانونی شکل ہے۔ درآمدات اور برآمدات اور تجارتی اشیأ اور زرمبادلہ کی قیمتوں میں موڑ توڑ کرنا چوری کاتیسرا ذریعہ ہے۔ 1971 سے پہلے پٹ سن زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اُس وقت ایک امریکی ڈالر کی قیمت کھلی مارکیٹ میں دس روپے کے لگ بھگ تھی۔ پٹ سن برآمد کرنے والے بنگالی کسان کو حکومت 10 روپے کی بجائے 5 روپے ادا کرتی تھیاور مغربی پاکستان کے صنعتکار کو یہی ڈالر 10 روپے کی بجائے 5 روپے میں مہیا کرتی تھی۔ بنگالیوں کی جیب کاٹنے کے باوجود ہماُنہیں بھُوکے بنگالی کہتے تھے اور جب اُنہوں نے حکومت میں اپنا جائز حصہ مانگا تو ہم نے اُن پر زرعی اور اقتصادی اصلاحات کےڈر سے غداری کا الزام لگایا، خون بہایا اور اُنہیں الگ کردیا۔ مغربی پاکستان میں “ امپورٹ سبسٹیٹیوشن “ یعنی بیرونی صنعتوں کےپیدا کئے ہوئے مال کا مقامی متبادل پیدا کرنے کے نام پر صنعتکاروں کو سستا خام مال، مشینیں، اور کاروباری قرضے دے کر اُن کےمال کو مصنوعی طور پر سستا کیا گیا اور بیرونی مال کی بجائے دستکار طبقے کا صفایا کیا گیا اور بیس گھرانے وجود میں آئے- صنعتکاروں کو رعایتیں دینے کیلئے غیر مُلکی قرضے لے کر مُلکی خزانے پر کمی توڑ بوجھ لاد دیا گیا۔

دستکاروں، کاشتکاروں اور سرکاری خزانے کی جیب خالی کر کے جو کاروباری طبقہ قائم کیا گیا ہے۔ وہ مُنافع کا کاروبار کرنا نہیںجانتے۔ اپنی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس نہیں دیتے اور حکومت سے قرضے اور مراعات حاصل کرنے کے کاروبار میں مہارت رکھتےہیں۔ حکومت وقت ہمیشہ اُن کا مائی باپ رہی ہے۔اسی لئے وہ ایک ہی سیاسی پارٹی سے مُنسلک رہتے ہیں، حکومتی پارٹی ۔ وہپارٹیاں تبدیل نہیں کرتے۔ پارٹیاں حکومت سے باہر ہو جاتی ہیں، اپنی جگہ تبدیل کر لیتی ہیں۔پُرانے زمانے میں جسونت سنگھ کے بقولاُنہیں شرفا کہتے تھے آج کل ناراضگی سے اُنہیں لوٹے کہتے ہیں۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے قانون تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔نئی قانون سازی اس لئے نہیں ہو سکی کیونکہ اشرافیہ کے مُختلف دھڑے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے اور ایک دوسرے سے تعاوننہیں کرتے۔ ہمارا بنیادی بُحران اعتماد کا بُحران ہے اور اس کی بنیاد یہ اخلاقی بااصول ہے کہ تمہارا مال بھی میرا مال ہے اور میرامال بھی میرا مال ہے۔اس کا علاج ٹیکس، زمین، مراعات، قرضوں اور بجٹ کے بارے میں قانُون سازی کرنا ہے۔اور حکومتی اداروں کیکارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔

قانُون سازی اور سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کا کام حکومت اور حکومتی نظام تنہا نہیں کر سکتے۔ یہ کام سولسوسائٹی کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ پاکستان میں جہاں بھی کوئی مثبت تبدیلی آئی ہےوہ زیادہ ترسول سوسائٹی کی مدد سے آئی ہے۔ جمہوریت صرف انتخاب کرنے کا نام نہیں ہے۔برابری کی بنیاد پر مُلکی معاملات چلانےکا نام ہے۔ ہمارے مُلک میں تعلیم ، صحت ، روزگار، رہائش کی فراہمی اور چھوٹے کاروبار چلانے کیلئے قرضہ دینے کا نظام سول سوسائٹی کی مدد سے چل رہا ہے۔ ہماری سول سوسائٹی تحقیق، تعاون اور مکالمے کے ذریعے سے حکومت کے ساتھ مل کر کام نہ کرےتو حکومت کُچھ بھی نہیں کر سکتی۔ہماری ریاست کی طاقت، ریاست کا نظریہ اور سیاسی نعرے بازیاں صرف فریب نظرپر قائم ہیں۔ہیں۔ ہم اس فریب نظر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے گُتھم گُتھا ہیں۔ہمیں اپنی قوت، اپنی ذمہ داریوں اور حُسن کارکار دگی کی صلاحیت کی پوری خبر نہیں۔ ہمارے پاس جو کُچھ ہے اُسے دیکھنے کی بجائے ہم کرشماتی شخصیتوں کی تلاش میںرہتے ہیں۔ہمیں پلٹ کر اپنے گھر کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نوجوانو مُلک بچانا ہے واپس آ جاؤ تُمہیں کُچھ نہیں کہاجائے گا۔۔۔۔

close