حق نا حق ، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر ، اختر حمید خان کے کومیلا میں تجربات اور موجودہ بحران

اختر حمید خان نے 1936 میں برطانوی راج میں ہندُستان کی سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔دوسری عالمی جنگ کے آخریسالوں میں وہ مشرقی بنگال کے ضلع کومیلا میں اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ یہ وہ سال تھے جب بنگال میں صدی کا بد ترین قحط آیا اوردس لاکھ کے قریب لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ قحط کسی قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں آیا تھا یہ برطانوی حکومت کیبے حس پالیسی سے پیدا کیا ہوا قحط تھا۔ برطانوی حکومت کو بنگال کی سرحد کے پار برما کے محاذ پر جاپانیوں کے حملے کا خدشہتھا۔ اس حملے کی صورت میں وہ اپنے فوجی دستوں کے لئے بڑی مقدار میں چاول کا ذخیرہ محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ اس ذخیرہاندوزی نے قحط برپا کر دیا۔تمام ضلعوں کے منتظم سرکاری افسروں کو حکم ملا کہ چاول سرکاری گوداموں میں جمع کر لیں۔ لوگچاول کے ایک ایک دانے کو ترسنے لگے۔ کومیلا وہ واحد ضلع تھا جہاں قحط سے کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔ اختر حمید خان نے چاولکی ذخیرہ اندوزی سے انکار کر دیا اور لوگوں کو خوراک کی کمی نہیں آنے دی۔

اختر حمید خان کی اس حکم عدولی پر باز پُرس ہوئی۔ اُنہوں نے کہا مُجھے لکھ کر کوئی حُکم نہیں دیا گیا کہ میں چاول کی فروخت پرپابندی لگاؤں۔ اُن کے افسران بالا نے کہا آپ کو زبانی حُکم تو دیا گیا تھا۔ اس پر اختر حمید خان نے کہا ہمیں تربیت دی گئی ہے کہ ہمزبانی حُکم کی تعمیل نہ کریں۔ اختر حمید خان کی برطانوی سول سروس میں شمولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ برطانوی نظام کیاعلا کاردگی سے سیکھنا چاہتے تھے۔ بنگال کے قحط میں برطانوی حکومت کہ نامعقول پالیسی سے اُنہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اببرطانوی حکومت کا زوال شروع ہو گیا ہے۔ اور اُس کی بنیادی وجہ اُس کا اخلاقی زوال ہے۔ اُن کے پاس سکھانے کو مزید کُچھ نہیںہے۔ اختر حمید خان کی بیگم صاحبہ علامہ مشرقی کی صاحبزادی تھیں۔ اس وجہ سے اس زمانے میں اُن کا علامہ مشرقی سے قریبیتعلق تھا۔لیکن خاکسار پارٹی نے جس بد نظمی سے بنگال کے قحط زدہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی اُس کے نتیجے میں وہخاکسار پارٹی سے بھی مایوس ہو گئے ۔اختر حمید خان کے چھوٹے بھائی اختر حامد خان نے اپنے ناول گنگا جمنی میدان میں تفصیلسے یہ روداد بیان کی ہے۔ برطانوی راج اور خاکسار پارٹی سے مایوس ہونے کے بعد خان صاحب کو اپنی آخری اُمید ہندوستان کےمحنت کشوں میں نظر آئی۔ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ محنت کش بن کر رہیں گے اور محنت کشوں کے طرز زندگی کو سمجھنے کیکوشش کریں گے۔

کومیلا چھوڑنے کے بعد اختر حمید خان علی گڑھ منتقل ہو گئے اور تالے بنانے والے مزدور بن گئے۔لگ بھگ دو سال یہ کام کیا۔ اسدوران پاکستان بن گیا ۔ ڈاکٹر ذاکر حُسین نے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے اُنہی دنوں جامعہ ملیہ دلی قائم کی اور اختر حمیدخان کو اُستاد بننے کی دعوت دی۔ خان صاحب 1954 تک وہاں بطور لکچرر پڑھاتے رہے اور اُسی سال ہجرت کر کے واپس کومیلامنتقل ہو گئے اور وہاں وکٹوریہ کالج کے پرنسپل کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ وکٹوریہ کالج میں چند سال گُزرے تو مشرقی پاکستان کیحکومت نے فورڈ فاؤنڈیشن کی مدد سے دیہی ترقی کا پروگرام شرُوع کرنے کا فیصلہ کیا۔مشرقی پاکستان کے چیف سکرٹری نےبرطانوی دور میں اُن کے ساتھ کام کیا تھا۔ اُنہوں نے خان صاحب سے رابطہ کیا اور اُنہیں اس پروگرام کی قیادت اس دلیل کی بنیاد پرکرنے کو کہا کہ “ تُم بیوقوف ہو مگر اچھے بیوقوف ہو”۔

اختر حمید خان نے دو شرطوں پر یہ ذمہ داری لینے کی حامی بھری۔ ایک یہ کہ پروگرام کا مرکز کومیلا میں ہو گا جہاں وہ سی ایسپی افسروں کی تربیت کریں گے کہ ترقیاتی کام کیسے کرنا ہے اور دوسرے یہ کہ افسران بالا اُن کے کام میں دخل نہیں دیں گے وہصرف سہ ماہی رپورٹ پیش کریں گے۔ یہ شرائط مان لی گئیں۔ اُس کے بعد اختر حمید خان نے جو کُچھ کیا وہ غیر سیاسی طریقےسے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے سے کم نہیں تھا۔ 60 سال پہلے جو راستہ اختر حمید خان نے اختیار کیا وہ آج بھی اُتناہی با معنی ہے۔ یہ کام اُنہوں نے کومیلا اکیڈیمی فار رُورل ڈویلپمینٹ کے ذریعے کیا۔ اسی طرح کے منفرد کاموں کا ایک سلسلہ اُنہوںنے تا دم آخر جاری رکھا۔ داؤد زئی، گلگت اور اورنگی میں۔ اقتدار حاصل کئے بغیر لوگوں کو اپنی زندگیاں بہتر بنانے کا کام اہم ،آسان اور ضروری ہے۔ ہم سب یہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ اسے حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ آئندہ کالموں میںمیں اختر حمید خان کے ہر منفرد کام کے بارے میں لکھوں گا۔ موجودہ بحران کا یہی حل ہے کہ حکومت کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں اوراپنی قسمتوں کے فیصلے خود کریں۔۔۔۔

close