یہ دل ٹوٹنے کا وقت ہے، ممتاز دانشور فیاض باقر کی خصوصی تحریر

ٹوٹے ہوئے دل کے بارے میں حضرت بُلھے شاہ نے کہا تھا ٹوٹے ہوا دل رب کی آماجگاہ ہے۔ رومی نے زخمی دل کے بارے میں کہا تھا کہ زخم روشنی کی سُرنگ ہے۔جو سچائی تک لے کے جاتی ہے۔ میرے وطن میں جو کُچھ ہو رہا ہے۔ اُس نے دل توڑ دیا ہے۔ اب بولنے کی ہمت نہیں رہی- آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔ ان آوازوں کا وقت، موقع اور مخاطب مجھے معلوم نہیں۔ ایک آواز ایک شاعر کی ہے جس کا نام مُجھے معلوم نہیں۔ یہ آواز کہ رہی ہے-
عذاب دے کہ نہ مارو ہمیں خُدا دارو
ہم اک نگاہ مُحبت سے مرنے والے ہیں۔
پتہ نہیں یہ آواز اُن تک پہنچے گی یا نہیں جن کو مُخاطب کیا گیا ہے۔اک دوسری آواز بھی ہے جو ابن انشا کی ہے۔یہ کُچھ اور لوگوں کے لئے ہے۔
فرض کیا ہم اہل وفا ہوں فرض کیا دیوانے ہوں
فرض کیا یہ دونوں باتیں جھُوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کیا یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سُنائی ہو
فرض کیا ابھی اور ہو باقی آدھی ہم نے چھُپائی ہو
فرض کیا یہ نین تمہارے سچ مُچ کے میخانے ہوں
فرض کیا تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
دیکھنے والی دیکھ کے چلنا تُم سب جھوٹا سچا ہُو
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچا ہو

راوی لکھتا ہے کچے گھڑے پہ تیرنے والے سینکڑوں ڈوب چُکے ہیں۔گھڑا پکا ہونے سے پہلے دریا میں اُترنے سے ایسے ہی ہوتا ہے۔یا جیسے کسی نے کہا تھا
اور دریا میں اُتر پاؤں سے پتھر باندھ کر
اسی لئے شاہ حُسین لاہوری نے کہا تھا۔
کیتی اس وچ ڈُبدے ویکھے کیتی لنگھے پار
یہ کونسا رن ہے کونسا معرکہ ہے۔ اُسی لڑائی میں سب ہار ہی کیوں رہے ہیں سب سُرخرو کیوں نہیں ہو رہے۔ شاید اس لئے کہ جیتنا یا ہارنا سب نے ساتھ ہی ہے۔

یہ بات سب کو سمجھ کیوں نہیں آرہی۔اس کی طرف بھی شاہ حُسین نے ہی اشارہ کیا تھا۔
اس ویہڑے دے نوں دروازے دسویں قُفل چڑھائے
اُس دروازے دے محرم ناہیں جس شوہ آئے جائے
لفظوں اور آوازوں کے تبادلے کا دروازہ کھُلا ہے۔ اور دلوں کے دروازے بند ہیں۔ الیکشن، پارلیمنٹ، جیل، عدالت کوئی بھی یہ دروازہ کھول نہیں سکتی۔ یہ تالہ اندر سے کھُل سکتا ہے۔ باہر سے نہیں۔ اندر دستک دو۔ کوئی ہے؟

close