حق نا حق ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر اختر حمید خان۔ کومیلا اکیڈیمی

ہمارے مُلک میں کُچھ عرصے بعد انتخابات ہو جائیں گے۔ نئی مرکزی اور صوبائی حکومتیں آ جائینگی۔ شاید کُچھ ایسی بنیادیتبدیلیاں آ جائیں کہ ہماری معاشی حالت بہتر ہو جائے۔ مہنگائی کم ہو جائے۔ لیکن لوگوں کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں لوگوں کیبنائی ہوئی تنظیموں سے ہی آئینگی۔ پُرانے زمانے میں اُنہیں وقف، سماجی بہبُود کی تنظیم یا کار خیر کہتے تھے آج کل اُنہیں این جیاو یا سول سوسائٹی کہتے ہیں۔ حکومتی نظام میں مقامی حکومت یہ کام بہت عمدہ طریقے سے کر سکتی ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہماری “عوامی” قیادتیں مقامی حکومت سے خوف محسوس کرتی ہیں۔ اُنہیں انتظامی، اور مالی اختیارات ابھی تک نہیں دئے گئے اورمقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ لوگوں کی مقامی تنظیموں اور مقامی حکومت کے اداروں کومل کر کس طرح کام کرنا چاہئے اس کا بہترین نمونہ اختر حمید خان نے سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے شہرکومیلا میں قائم کیا تھا۔اُن کا طریقہ کار تحقیق اور مشاورت سے کام کرنے کا تھا افسری اور بابُو گیری کا نہیں تھا۔ اس لئے اُسےجاننا ضروری ہے۔

کومیلا اکیڈیمی میں جب اختر حمید خان نے کام شروع کیا تو اُن کے سامنے دیہی غربت ختم کرنے کا چیلنج تھا۔ پہلا مسئلہ تھا کہغربت کی وجوہات کو سمجھنا، دوسرا اُس کا حل تلاش کرنا اور تیسرا حکومت اور دیہی آبادیوں کی رضامندی اور تعاون حاصل کرنا- اکیڈیمی کا پورا نام پاکستان اکیڈیمی فار رُورل ڈویلپمینٹ کومیلا تھا۔ غربت کی وجوہات تلاش کرنا شرُوع کیں تو پتہ چلا ایک وسیععلاقے میں کھیتوں کو سیراب کرنے والے نالے مٹی سے اٹے ہوئے تھے اور مُناسب مقدار میں پانی نہ ملنے سے فصلیں متاثر ہو رہیتھیں- اُن نالوں کی صفائی اور مُرمت کا کام بڑے ہندُو زمیندار کیا کرتے تھے۔ پاکستان بنا تو وہ نقل مکانی کر کے مغربی بنگال چلےگئے۔ اُن زمینداروں کے مزار عین اُن کے حُکمُ پر نالوں میں پانی چلنے کا نظام قائم رکھتے تھے اُن کے لئے اختر حمید خان نے سوشلانفرا سٹرکچر کا لفظ استعمال کیا۔ اُن کی پہلی دریافت یہ تھی کہ غُربت کی بڑی وجہ سوشل انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے۔ جو سوشلانفراسٹرکچر پہلے سے موجود تھا وہ ٹُوٹ پھُوٹ چُکا تھا۔ نیا سوشل انفرا سٹرکچر اُنہوں نےکسان مردوں اور عورتوں کی تنظیمیں بناکر قائم کیا۔

غُربت کی دوسری وجہ پیداوار میں کمی تھی۔پیداوار میں اضافے کے لئے اُنہیں نئے بیج ، کاشتکار کے نئے طریقوں کی تربیت اورچھوٹے قرضوں کی ضرورت تھی۔ جو سرکاری محکمے یہ سہولتیں دے سکتے تھے وہ ضلع کی سطح پر قائم تھے۔ ضلع سے نیچےصرف ایک محکمہ تھا جس کی ہر گاؤں اور ہر گھر تک پہنچ تھی اور یہ محکمہ تھانہ تھا۔ لوگوں کی امداد کرنے کیلئے قائم کئے گئے اداروں کو تھانے کی سطح پر لا کر کاشتکاروں اور دیہی غریبوں کی مدد کی جا سکتی تھی۔ان سرکاری محکموں کو عام زبان میں لائن ڈیپارٹمنٹ کہا جاتا ہے۔ اختر حمید خان نے اسے ایڈمنسٹریٹو انفرا سٹرکچر کا نام دیا- اختر حمید خان نے صوبائی حکومت کیمنظوری سے تمام لائن ڈیپارٹمنٹ تھانے کی سطح پر لا کر اُنہیں تھانہ ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ سنٹر کا نام دیا اور نیا ایڈمنسٹریٹو انفراسٹرکچر قائم کیا- پھر صُوبے کے سرکاری افسران کی تربیت شرُوع کی تاکہ اُنہیں سکھایا جائے کہ لوگوں کی مدد کیسے کرنی ہے۔بنیادی تربیت یہ تھی کہ لوگوں سے سیکھنا کیسے ہے کہ غُربت کیسے دور کی جائے۔اُس کا ایک اہم حصہ یہ تھا کہ وہ زیر تربیتافسران کو اکیڈیمی سے پانچ دس میل دور چھوڑ دیتے تھے اور اُنہیں کہتے تھے کہ پیدل واپس آؤ۔ گاؤں کے لوگوں سے اُن کے مسائل اور اُن کے حل کے بارے میں پوچھو اور اپنی رپورٹ تیار کرو۔

غربت کی تیسری وجہ یہ تھی کہ مقامی طور پر منتخب حکومت موجود نہیں تھی۔ اور لوگ اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنے مطالبات حکومتی محکموں تک نہیں پہنچا سکتے تھے- لیکن دوسرے دو انفراسٹرکچر قائم ہونے سے مقامی حکومت کی ذمہ داریاں پوری کرنےکا کسی حد تک انتظام ہو گیا۔ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام قائم کیا تھا۔ لیکن اس نظام میں مقامی حکومت کے پاس کوئیمالی اور انتظامی اختیارات نہیں تھے اور منتخب کونسلروں کی اہم ذمہ داری صدر مملکت کا انتخاب تھی۔ایک موثر مقامی حکومتقائم کرنا ابھی تک باقی ہے۔

اختر حمید خان کا طریق کار مقامی آبادیوں سے مُکالمہ کر کے اُن کے مسائل جاننے اور اُن کے حل نکالنے کا تھا۔ اس طریقے سے کامکرنے کو وہ ڈائگنوسٹک ڈائیلاگ یا تشخیصی مُکالمہ کہتے تھے۔ اُس میں اہم بات یہ تھی کہ وہ گاؤوں کی تنظیم سے تین چیزیں پُوچھتے تھے۔ 1.کیا تم غُربت ختم کرنا چاہتے ہو ؟ 2. غربت ختم کرنے کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟ 3. کونسی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے یہ رُکاوٹ ختم ہو سکتی ہے؟ یہ مکالمہ کئی نشستوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اور حکومتی ماہرین گاؤں کے لوگوں سے مل کر ترقیاتی منصوبے بناتے تھے۔10 سال کے عرصے میں اختر حمید خان نے مشرقی پاکستان کے 50 فیصد تھانوں کی کایا پلٹ دی۔ یہ کامسرکاری یا غیر سرکاری اداروں کو یہاں بھی کرنا پڑے گا۔ صرف نئی حکومت بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔۔۔۔

close