حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، ایک کروڑ لوگوں کو گھر کیسے ملا؟

میرے اُستاد اختر حمید خان کہا کرتے تھے جب ترقی غریب کے پاس نہیں پہنچتی تو غریب ترقی کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی پچھلے پچھتر سالوں میں یہی ہوا ہے۔ پاکستان بنا تو 75 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی تھی۔ پر دیہات کے لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار اور دوسری سہولتیں مہیا نہیں تھیں۔ اُنہوں نے شہروں کا رُخ کیا اور کروڑوں کی تعداد میں شہروں میں آگئے۔ اس وقت پاکستان میں 50 فیصد آبادی شہروں میں ہے۔ صرف کراچی میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ اسی لئے کراچی کو غریب کی ماں کہا جاتا ہے۔ شہری غریبوں کی بڑی تعداد کچی آبادیوں میں رہتی ہے۔ اُنہیں کچی آبادی اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہاں رہنے والے خاندانوں کے پاس ملکیت کے پکے کاغذات نہیں ہوتے۔ اُنہوں نے زمین اور مکان کی قیمت ادا کی ہوتی ہے۔ مکان اُن کی ملکیت ہوتا ہے۔ لیکن اُن کے پاس ملکیت کے سرکاری کاغذات نہیں ہوتے۔

محنت کش لوگوں کو یہ گھر کیسے ملتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ غریبوں کو انصاف، تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی اسی طرح ملتی ہیں۔ کراچی میں جب صنعتیں لگنا شروع ہوئیں تو مُلک کے دور دراز علاقوں سے روزگار کی تلاش میں لوگ یہاں آنا ہوئے۔ نوکریاں تو تھیں پر گھر نہیں تھے۔ خالی زمینیں تھیں۔ جہاں لوگ جھونپڑی لگا لیتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دستور میں رہائش کا حق ملا۔ مزدوروں کے لئے رہائشی بستیاں بنانے کے ادارے بنے، قانون بنے، منصوبے بنے۔ لیکن مزدوروں کو رہنے کو گھر نہیں ملے۔ مزدوروں کی حالت کُچھ ایسے تھی۔

رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

سرکاری منصوبوں میں زمین خریدنے کے ضابطے اتنے پیچیدہ تھے اور قیمتیں اتنی زیادہ تھی کہ سرکاری سکیمیں خالی پڑی رہیں اور مزدوروں نے کچی بستیوں میں گھر بسانے شروع کر دئے۔ بیدخل ہونے کے خطرے کے باوجود۔ کلیہ سادہ تھا۔ زمین کے ایک ٹکڑے پر ایک قبضہ گیر قبضہ کرتا تھا۔ اُسے پلاٹوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اور بستی کا اعلان کر دیتا تھا۔ مکان بنانے کے لئے قرضے کا انتظام کرتا تھا۔ تھلے داروں کے ذریعے تعمیر ی سامان اور مستریوں کا انتظام کرتا تھا۔ زمین خریدنے والوں سے آسان قسطوں میں قیمت وصول کرتا تھا۔ سرکار کے کاغذات میں انتقال تو نہیں چڑھا سکتا تھا۔ لیکن سرکاری اہلکاروں کی مُٹھی گرم کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ اتنے زیادہ مکان بنا لیتے تھے کہ اُنہیں بیدخل کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔

قبضہ گیروں میں وہ تمام صلاحیتیں تھیں جو ایک عمدہ معیار کی ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ہونی چاہئیں۔ وہ سرکار کو زمین کی رقم بھی دیتے تھے جو سرکاری خزانے میں نہیں سرکاری افسروں کی جیب میں جاتی تھی۔ بستی کے رہائشیوں کے لئے وہ ٹرانسپورٹ اور پانی کا انتظام بھی کرتے تھے۔ پھر وہ چالاکی سے بجلی اور دوسری سہولتوں کا بھی انتظام کرتے تھے۔ رہائش کے یہ منصوبے کامیاب تھے لیکن قانونی نہیں تھے۔ قانونی منصوبے کامیاب نہیں تھے۔ اور صرف کاغذوں پر موجود تھے۔ اس کی دو وجوہات ہیں ۔سرکار غریبوں پر اعتماد نہیں کرتی اور امیروں سے ٹیکس وصول نہیں کر سکتی۔ ٹیکس زیادہ ہو تو سرکاری اہلکاروں کو اتنی تنخواہ مل سکے گی کو بھتہ وصول نہ کریں۔ غریب پر اعتماد کریں تو اپنے طریق کار کو سادہ اور آسان کر دیں۔ اور قبضہ گیروں کو قانونی طور پر منتظم بنا دیں۔ 1990 کی دہائی میں سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل تسنیم صدیقی صاحب کو یہ سمجھ آگئی کہ اُن بستیوں کے رہائشیوں نے زمین کی قیمت ادا کی ہے۔اور اُن بستیوں سے بہتر اُن کی رہائش کا انتظام نہیں ہو سکتا۔اُنہوں نے سرکاری طور پر کچی بستیوں کے رہائشیوں کو قانونی حقوق دینے کا کام شرُوع کیا۔ نقشے بنوائے۔ کاغذات بنوائے اور ملکیت کا حق اُنہیں منتقل کرنا۔ شروع کیا۔ یہ کام مُحبت اور اعتماد کا ہے۔ جلسے جلوسوں اور اعلانات کا نہیں ہے۔ اس طرح کے بے شمار کام بہت سے گمنام لوگوں نے کئے ہیں جو اس مُلک کے اصل ہیرو ہیں۔

جا اُنہیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر

close