تبصرہ نگار: مشتاق صدیقی ، کتاب کا نام : ارادہ ، مصنف : فیاض باقر، قیمت : تین سو روپیہ، پبلشر : سچیت کتاب گھر، پتہ : ۱۱ شرف مینشن، چوک گنگا رام، بک سٹریٹ – ۱، لہورسال اشاعت : ۲۰۰۹

کئی بار فیاض باقر صاحب کی کتاب ‘ارادہ’ کو اٹھانے اور پڑھنے کا ارادہ کیا لیکن پھرکسی مصروفیت کی وجہ سے مجھے اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔ یوں بات ٹلتی رہی۔ کتاب کی جانب متوجہ ہونے کی دو بڑی وجوہ تھیں۔ ایک تو یہی کہ یہ برادرم فیاض باقر کی کاوش ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب پاکستان کے جن لوگوں سے تعارف کرانے اور ان کی خاموش کاوشوں کو اجاگر کرنے کے لئے لکھی گئی ہے،

ان میں سے اکثر ایسے لوگ ہیں، جن سے میں اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں ملا۔ یعنی یہ کتاب بالکل مجھ جیسے ‘لاعلم’ پاکستانیوں کو یہ بتانے کے لئے لکھی اور شائع کی گئی ہے، جن کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس ملک میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آج بھی انتہائی خاموشی کے ساتھ، کسی صلہ، مالی فائدے یا شہرت و نیک نامی کی خواہش کے بغیر، بابائے قوم، قائد آعظم محمد علی جناح کے لگائے اس پودے کی آبیاری کئے جارہے ہیں، جس کا نام ہے، “پاکستان۔”
ان میں چند لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنکا ذکر میں نے پہلے بھی بار بار سنا ہے۔ اتنی بار کہ میرے دل میں انھیں دیکھنے اور ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوگئی۔ ان کے کام کی تفصیل جاننے کی خواہش تو پہلے سے ہی دل میں موجود تھی۔ مثلا” ، ایسی ایک قد آور شخصیت اختر حمید خان صاحب کی ہے۔ مجھے ان اصحاب میں جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت میں باقر صاحب کی مدد کی، ان میں چند نام ایسے بھی نظر آئے جن سے ملنے، بار بار ملنے، اور تبادلہ خیال کرنے کا اعزازمجھے حاصل رہا ہے۔ جیسے، ظفراللہ خان، توثیق حیدراور نجیب احمد۔

یہ کتاب ان 16 افراد کا تعارف ہے جن کے ساتھ فیاض باقر صاحب کو عوامی بہبود، رفاہ و ترقی اور اجتماعی فلاح کے کام کرنے کا موقع ملا۔ لیکن یہ کتاب پاکستان کے عام لوگوں کے لئے ہمارے شہروں ، قصبوں اور دیہات میں موجود زندگی کے بے شمار مسائل، اور ان مسائل کے متضاد، مخصوص اور اسااسی پہلوں اوران لوگوں کی ضرورتوں کا بھی ایک تعارف ہے۔ اس لئے کہ شہر کے لوگوں کے مسائل تو نظروں کے سامنے ہوتے ہیں، اس لئے سب کو ان کا علم ہوتا ہے ۔ لیکن بالکل ان جیسے، ملتے جلتے لوگ، وہ جو ان شہروں سے زرا ہٹ کے، جھگیوں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں رہتے ہیں، ان کا حال اختر حمید خان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے،
یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں
وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے

میرے نزدیک اس کتاب کے یہ 16 ‘ہیروز’ دراصل جھونپڑیوں میں جلتے ان دیوں کی روشنی کی تلاش میں رہنے والے لوگ ہیں۔ وہ اس روشنی کی تلاش کرتے کرتے آخر کار ان جھونپڑیوں تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ اور ان کے آتے ہی ان دیوں کی لو تیز ہوجاتی ہے اور ان جھونپڑیوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیاں کچھ زیادہ بامعنی بن جاتی ہیں۔
سفید کاغذ کے 352 صفحات پر چھپی یہ کتاب ان لوگوں کے اس کام کی اہمیت و ضرورت کا اعتراف بھی جو وہ خاموشی کے ساتھ، سرجھکائے جانے کب سے کئے جارہے تھے ۔ ۔ ۔ اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ تو ایسے بھی تھے جو اسی طرح کام کرتے کرتے، سرجھکائے، خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے۔
لیکن، میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ اہم کتاب، صرف 16 افراد کا تعارف نہیں ہے — یہ دراصل 17 افراد کی زندگی کی قابل رشک کہانی ہے۔ اس لئے کہ میرا یہ یقین ہے کہ اس کہانی کا 17 واں کردار خود اس کتاب کا مصنف، فیاض باقر ہے۔ اس نے بھی اپنی زندگی میں کیا کیا تجربے نہیں کئے۔ جانے کتنے نشیب و فراز دیکھے۔ لیکن پھرجب تھک ہارکربیٹھا تو وہ خود بھی اختر حمید خان کے قدموں میں جا بیٹھا۔ لیکن باقر کی بات بعد پھر کبھی ہوگی – اس وقت بات اس کتاب کی۔

سرورق تین چوڑی چوڑی پٹیوں سے بٹا ہوا ہے اوریہ تینوں پٹیاں ، تین دھیمے رنگوں سے بنائی گئی ہیں۔ پٹیاں تو صرف دو رنگوں، سیاہ اور سلیٹی رنگوں کی ہیں، لیکن درمیان کی سیاہ پٹی پر ایک بسکٹی رنگ کی چوبی پیڑھی یا سٹول پر ایک لکڑی کا تراشہ انسانی سر ہے جس پر ایک لکڑی کا ہی بنا پرندہ بیٹھا، اپنے سرکو پیچھے موڑے ہوئے کچھ دیکھ رہا ہے۔ اس سیاہ پٹی کے اوپر اور نیچے سلیٹی رنگ کی دو پٹیاں ہی٘ں۔ اوپرکی پٹی پرجلی حروف میں کتاب کا نام، ‘ارادہ’ لکھا ہوا ہے، جبکہ نیچے کی پٹی پر مصنف کا نام، یعنی فیاض باقر تحریر ہے۔
دبیزگتے کی بنی جلد ہے اور کتاب کا ڈیزائین اور اس کی طباعت دونوں ہی بہت عمدہ ہیں۔ فیاض باقر صاحب نے ویسے تواس کتاب میں ان 16 افراد کے بارے میں مضامین، یا ان کے انٹرویوز شامل کئے ہیں جن سے وہ ملے، ان کے کام کو دیکھا اوروہ ان سے بے حد متاثر ہوئے۔ لیکن اس میں دو انتہائی جانی پہچانی اور اہم بڑی شخصیتوںم مسلمان رہنماوں کی تحریراور ان کی تقریرکا متن بھی شامل کیا ہے۔

آغاز میں مصنف کے ایک مختصر سے پیش لفظ ، “حرف آغاز” کے بعد جو پہلا مضمون ہے وہ ایک خط ہے – یا خط کا اردو ترجمہ ہے، جو اس کتاب کے مطابق، سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوئم نے ڈاکٹر زاہد حسین، صدر’عربیہ جمعیت، کراچی’ کو 14 اپریل 1952 کو لکھا تھا۔
تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی سیاسی جماعت “مسلم لیگ” کے پہلے صدر سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کے اس خط کے ایک ایک لفظ سے، اپنے وطن پاکستان سے خاص طور پر، اوربر صغیر بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں سے ان کی غیر مشروط اور بے لوث محبت کا گہرا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ خط کا مضمون اپنے دل میں مسلمانان عالم کے لئے درد رکھنے والے ایک ایسے حساس و باخبر مسلم رہنما کا اظہار خیال ہے، جو ان کے اور بے شمار دوسرے رہنماوں کے خیال میں ایک ایسی حقیقت ہے جس سے رو گردانی نہیں کی جاسکتی۔ یہ “خط” مکمل پڑھنا ہم سب پر فرض ہے۔ ہمیں باقر صاحب کا خاص طور پر شکرگذار ہونا چاہئے کہ انھیں اس کتاب میں اس خط کو شامل کرنے کا خیال آیا۔ اس کا ایک ایک لفظ پچھلی نسل، آج کی نسل اور آنے والی نسل کے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔
لکھتے ہیں، “۔ ۔ ۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ پچھلے دو تین سو سال میں مسلمانوں کا زوال اسلامی اصولوں کوبھلادینے کی وجہ سے واقع ہوا ہے۔ ۔ ۔ میں یقینا” اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ان تین صدیوں میں ہم نے اسلامی اصولوں کو بھلادیا۔ لیکن اس بات کو سمجھنے میں بڑے احتیاط کی ضرورت ہے کہ ہم نے کون سے اسلامی اصول بھلا دیے اورکون سے اسلامی اصول نہیں بھلائے ۔ ۔ ۔ ”

یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔ اس کی تفصیل جاننے اوراسے سمجھنے کے لئے پورا خط پڑھنا ضروری ہے۔
انھوں نے اپنے اس خط میں کسی جھجھک کے بغیر ایک انتہائی اہم سوال اٹھایا ہے، اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان دو تین سوبرسوں میں اسلام کی کچھ ایسی انتہائی اہم اور اساسی نوعیت کی باتیں چھوڑ دی ہیں جس کی وجہ سے – صرف جس کی وجہ سے ہم مسلمان، اجتماعی طور پر، من حیث القوم زوال کا شکار ہوتے چلے گئے ہیں؟
ان کا پورا خط پڑھنا ضروری ہے۔
فیاض باقر جنھوں نے امریکی محکمہ اطلاعات اور ‘یو این ڈی پی ‘ سے لیکر جانے کتنے اور اہم اداروں میں کام کیا ہے۔ اس عرصہ میں انھوں نے ترقیاتی کاموں کو موثر انداز میں پلان کرنے اور مکمل کرنے کی تربیت حاصل کی۔ اس عرصہ میں وہ جانے کتنے بے شمار لوگوں سے ملتے بھی رہے، اس میل جول میں جہاں انھوں نے اپنی پہچان کرائی وہیں انھوں نے لوگوں کو پہچاننے کا فن بھی سیکھ لیا۔ اسی لئے جب وہ اختر حمید خان کے دائرہ اثر میں داخل ہوئے تو جیسے پتھر کے بن کر رہ گئے ہوں۔ خان صاحب بھی جلد ہی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے اور پھر ایک عرصہ تک دوںوں قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے۔
فیاض باقر نے یوں تو اس کتاب کی صورت میں 16 افراد کا صرف تعارف پیش کیا ہے، لیکن انسانی خدمت کے جذبہ سے سرشار ان لوگوں کے سایہ میں ہمیں ہر قدم پر خود باقر صاحب بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں جن 16 افراد کے کام کا تعا رف پیش کیا گیا ہے، ہمیں اسے ضرور پڑھنا چاہئے۔
یہ کتاب صرف ایک فون کال 0092-42-630-8265 اور ایک ای میل [email protected] کی دوری پر ہے۔ مجھے پڑھ کر خوشی ہوئی، آپ کو بھی ضرور پسند آئے گی۔۔۔۔۔

close