ڈینگی وبا نے سر اٹھا لیا، ’پینا ڈول‘ مارکیٹ میں نایاب ہو گئی

اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان میں ڈینگی بخار کی وبا سر اٹھا رہی ہے اور محمکہ صحت پنجاب کے مطابق صرف لاہور میں سو سے زائد مریض روزانہ کی بنیاد پر ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔ چونکہ ڈینگی بخار کا کوئی مخصوص علاج نہیں اور بخار کی شدت کم کرنے کے لئے پیراسٹامول ہی ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔ پیراسٹامول میں سب سے مشہور برانڈ پیناڈول ہی عمومی طور پر لی جاتی ہے۔

ڈینگی وبا کے زور پکڑتے ہی پیناڈول دوائی کی مارکیٹ میں قلت پیدا ہو گئی ہے۔ جبکہ اسی برانڈ کی پیناڈول ایکسڑا مارکیٹ میں موجود ہی نہیں۔ لاہور کے علاقے مسلم ٹاون میں میڈیکل سٹورز کی ایک بڑی تعداد آنے والے گاہکوں کو پیناڈول کا صرف ایک پتا ہی دے رہے ہیں۔ میڈیکل سٹورز کی اسی قطار میں موجود پنجاب فارمیسی پر کام کرنے والے اہلکار نے بتایا ’پیناڈول کافی دنوں سے شارٹ ہے جبکہ پیناڈول ایکسڑا تو دسمبر سے پہلے دستیاب ہی نہیں ہو گی۔ سٹاک کم ہونے کی وجہ سے ہمیں مالکان نے کہا ہوا ہے کہ کسی کو ایک پتے سے زیادہ پیناڈول نہیں دینی۔ لوگ ضد کرتے ہیں کہ ان کے مریض زیادہ ہیں، ان کو زیادہ دوائی چاہیے لیکن ہم ان سے معذرت کر لیتے ہیں۔‘

اسی طرح فیصل ٹاون میں موجود محمود فارمیسی کے سٹاف نے بھی کچھ اس طرح کی صورت حال بتائی۔ فارمیسیز کی چینز جن میں کلینکس، فضل دین فارما سب میڈیکل سٹورز پر پیناڈول محدود پیمانے پر گاہکوں کو دی جا رہی ہے۔ محمود فارمیسی کے عملے نے بتایا ’پینا ڈول ایکسڑا کا تو پتا نہیں لیکن نارمل پیناڈول کی قیمت بھی دو روپے بڑھ گئی ہے۔‘ خیال رہے کہ پیناڈول کا پتا عام طور پر 15 روپے کی قیمت میں دستیاب ہے لیکن اس وقت 18 روپے سے 22 روپے تک یہ مخلتف فارمیسیز مل رہا ہے۔کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن لاہور کے نو منتخب صدر نثار چوہدری نے بتایا کہ یہ قلت ڈیمانڈ اور سپلائی کی وجہ سے ہے۔

’دوسری سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ پیناڈول اصل میں ایک برانڈ کام نام ہے، ہوتی اس میں پیراسٹامول ہے۔ لیکن لوگ کسی اور نام سے پیراسٹامول خریدتے نہیں ہیں۔ اگر آپ پیراسٹامول کی شارٹیج کی بات کر رہے ہیں تو اس کی قلت نہیں ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں تین سے زائد ایسی فارماسوٹیکل کمپنیاں ہیں جو کسی نہ کسی نام سے پیراسٹامول بنا رہی ہیں۔ کچھ تو ہیں جو جینریک نام سے بھی بنا رہی ہیں۔ لیکن لوگ اس طرح سے خریدتے نہیں نہ ہی ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ یہ شعور کی کمی ہے جس کی وجہ سے عارضی طور پر نہ صرف دوائی کی قلت ہو رہی ہے بلکہ قیمت بھی بڑھ رہی ہے۔

نثار چوہدری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ وقت ہے کہ حکومت سامنے آئے اور بھرپور کمپین چلائی جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ پیراسٹامول کا کوئی بھی برانڈ وہ استعمال کر سکتے ہیں، آئندہ دنوں میں ڈینگی کا سیزن زور پکڑ سکتا ہے تو اس وقت دانش مندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘ پاکستان میں دوائیوں کے لیے بنائی گئی ریگولیٹری اتھارٹی ڈریپ کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ مصنوعی قلت صرف ڈیمانڈ اور سپلائی کی وجہ سے ہے۔

اور جیسے ہی لوگ رجحان بدلیں گے تو صورت حال بہتر ہو جائے۔ مارکیٹ کی نگرانی کی جارہی ہے اور کوشش ہے کہ پیراسٹامول کے کسی بھی برانڈ کی قیمت اوپر نہ جائے۔ یاد رہے کہ ڈریپ کے ریکارڈ کے مطابق پیراسٹامول کا خام مال پاکستان میں بھی بنایا جاتا ہے اور امپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔ چار ادویہ ساز کمپنیاں جن میں زینت لیبارٹریز، سٹی لیبارٹریز، فارما جم اور ساکھ لیبارٹریز شامل ہیں پیراسٹامول کا خام مال تیار کر رہی ہیں۔

close