غروراورتکبر سے بھرے اسرائیل کو روکنے کا وقت آگیا ہے، شاہ محمود قریشی

نیویارک(آن لائن)وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ غرور اور تکبر سے بھرا اسرائیل ایک ہفتے سے فلسطینیوں پر حملے کررہا ہے،اب اسرائیل کو روکنے کا وقت آگیا ہے ،اسرائیل نے معصوم فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا کررکھی ہے،آج اقوام عالم ایک اہم نقطے پر کھڑی ہیں،غزہ میں ہنگامی بنیادوں پر امدادی اشیا بھجوانے کا انتظام کیا جائے،آج ہم انسانی ہمدردی کے ناطے کچھ کرتے ہیں یا نہیں کرتے تاریخ کا حصہ ہوگا،اسرائیل اور فلسطینیوں کا کوئی مقابلہ نہیں ،سلامتی کونسل کی جانب سے ذمہ داریوں میں غفلت کا ارتکاب قابل افسوس ہے،اسرائیلی بربریت کی وجہ سے درجنوں فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے، آج ہم کچھ کرتے ہیں یا نہیں تاریخ میں لکھا جائے گا،اسرائیلی جارحیت کے باعث غزہ میں اشیائے خوردنوش کی شدید قلت ہے،اسرائیلی حملوں کی وجہ سے 50ہزار فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔ان خیالات کاا ظہارانہوں نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ قوموں کی زندگی میں ایسے مرحلے آتے ہیں جب ان کے فیصلے آنے والی نسلیں یاد رکھتی ہیں،آج ایک ایسا ہی موقع اور مرحلہ ہمیں درپیش ہے۔ آج ہم جوکرتے ہیں یا نہیں کرتے، سب تاریخ میں لکھا جائے گا،اسرائیل اپنے غرور اور تکبراور قانونی کارروائی سے استثنی کی بنائ￿ فلسطین کے محصور اور مقید لوگوں پر لامتناہی حملوں کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہے۔ آج اس وقت جب ہم یہاں اظہار خیال کررہے ہیں، فلسطین میں بچوں اور خواتین کو شہید کیاجارہا ہے اور اس کی وجہ بننے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرائیلی حملوں میں ایک ہفتے کے دوران 250 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ وزیرخارجہ نے کہاکہ غزہ کے ہر گھر میں اس وقت صف ماتم بچھی ہے اور ہر طرف موت کا سایہ ہے۔ اسرائیلی فضائی حملے ابوحاطب کے خاندان کے ہر فرد کی موت کے ذمہ دارہیں۔ اس خاندان کے شہدائ￿ میں دو خواتین اور آٹھ بچے شامل ہیں۔ یک لمحے کے لئے اس صورتحال کاتصور کیجئے۔ غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں ہر گھنٹے میں ایسے بہیمانہ سانحات رونما ہورہے ہیں اور ایسے ہزاروں واقعات ہوچکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اب تک 10 ہزار فلسطینی غزہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ پینے کے پانی، خوراک، حفظان صحت اور صحت کی سہولیات تک انہیں محدود نوعیت کی رسائی میسر ہے۔ ہسپتال اور فراہمی آب کے علاوہ نکاسی کی خدمات کا تمام تر انحصار بجلی کی فراہمی پر ہے اور اس ضمن میں ایندھن تقریبا ختم ہوچکا ہے۔غزہ ہر لحاظ سے اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ واحد روشنی ان دھماکوں سے ہورہی ہے جو اسرائیل ان پربموں کی صورت برسارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ہے فلسطین جہاں اسرائیل پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے بے گناہ فلسطینیوں کو شہید و دہشت زدہ اور میڈیا کی زبان بندی کرنے کے لئے فضائی حملوں میں عمارات کو زمین بوس کررہا ہے۔ اس ظلم سے اب جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔ فلسطینی عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی انہیں خاموش کرایا جاسکتا ہے۔ ہم اسلامی دنیا کے نمائندے یہاں ان کے حق کی بات کرنے آئے ہیں، آج ہم ان کے لئے بول رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یہ خوفناک امر ہے کہ سلامتی کونسل عالمی امن وسلامتی کے قیام کی اپنی بنیادی ذمہ داری انجام دینے کے قابل نہیں۔ سلامتی کونسل جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ کونسل کو اس کے کام سے روکنے والوں پر بھاری ذمہ د اری عائد ہوتی ہے۔ ان حالات میں جنرل اسمبلی کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس نازک مرحلے پر ہمیں فلسطینی عوام کو مایوس نہیں کرنا۔ہماری پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ اسرائیل اپنی جارحیت روکے۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم گھڑی سلامتی کونسل اسرائیل کواپنے حملے روکنے کے لئے کہے گی۔ اگر سلامتی کونسل یہ کام نہیں کرتی تو جنرل اسمبلی کو پوری عالمی برادری کی جانب سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے۔ ہمیں واضح پیغام دینا ہے۔ محصور اور مقید فلسطینیوں کا اسرائیلی جنگی مشین کے مقابلے میں کوئی اخلاقی یا فوجی مقابلہ یا موازنہ نہیں۔ دونوں میں کوئی برابری نہیں۔ فلسطین کے پاس نہ کوئی بری فوج ہے، نہ بحریہ ہے اور نہ ہی کوئی فضائیہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے جو دنیا کی طاقور ترین فوجی قوت کا حامل ہے۔ یہ جنگ قابض فوج اورمقبوضہ عوام کے درمیان ہے۔ یہ غیرقانونی قبضے اور استصواب رائے کی جائز جدوجہد کے درمیان لڑائی ہے۔ اس تناظر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نومبر 1970 میں جنرل اسمبلی کی قرارداد 2649 میں اسی ایوان نے ’’نوآبادیاتی اور غیرملکی جبروتسلط میں رہنے والے عوام کے استصواب رائے کے حق اور اس کی بحالی کی جدوجہد میں ہر دستیاب ذریعہ بروئے کار لانے کے جائزہونے کو تسلیم کیا‘‘ اور اس کی تائید کی ہے،دوم، ہمیں ہرممکنہ طورپر تمام انسانی امداد غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی تباہ حال فلسطینی آبادی کے لئے فوری روانہ کرنی چاہئے۔انہوں نے کہاکہ مزیدبرآں جنرل سیکریٹری ’یو۔این۔آر۔ڈبلیو۔اے ہنگامی امداد کی اپیل کریں تاکہ فلسطینیوں کے لئے خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طبی ٹیموں، ادویات اور دیگر سامان بھجوانے کی ضرورت ہے۔ ہم غزہ تک راستے کی فراہمی کے مصر کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اسرائیل غزہ کے تمام راستے کھولے تاکہ عالمی امداد کی فوری اور بروقت فراہمی ممکن ہوسکے۔ سوم، جنرل اسمبلی کو فلسطینیوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمیں ایک عالمی محافظ فوج تعینات کرنی چاہئے جیساکہ جنرل اسمبلی کی قرارداد ’ای۔ایس۔10 / 20 اور 18 مئی 2018 کو اسلامی سربراہی کانفرنس نے مطالبہ کیا تھا۔ اگر سلامتی کونسل محافظ فوج بھجوانے سے اتفاق نہیں کرتی تو اس تجویز سے ’’اتفاق کرنے والوں کا اتحاد‘ قائم کیاجاسکتا ہے جو کم ازکم حملوں اور کارروائیوں کی سویلین مبصرین کے ذریعے نگرانی کرے اور فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کی سرپرستی کرے۔ چہارم، جنرل اسمبلی کو اسرائیلی زورزبردستی اورجبر کے ذریعے یروشلم کے ضلع الجراح سمیت فلسطینیوں سے ان کے گھروں کو خالی کرانے اور جاری یہودی آباد کاری کے غیرقانونی اقدامات، رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کے قبلہ اول الحرم الشریف اور مسجد اقصی میں فلسطینی نمازیوں پر حملوں، اسرائیل کی غزہ پر بمباری، بلاامتیاز اورحشیانہ حملوں کی مذمت کرنی چاہئے۔ پنجم، ہمیں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ سے واگزار کروانے ، غیرقانونی آبادکاری کو مسمارکرنے اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی حکومت کی نافذ کردہ نسلی امتیاز وتعصب کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی بحالی کرنا ہوگی۔ جنرل اسمبلی نومبر1967 کی قرارداد 242 پر غیرمشروط عمل درآمد یقینی بنایا جائے جس میں ’’جنگ کے ذریعے علاقے کو اپنے قبضے میں لینا ناقابل قبول‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا گیاکہ 1967 کی جنگ میں قبضہ کردہ علاقوں سے اپنی مسلح افواج کا انخلائ￿ کرے۔ لہذا یہ امر نہایت ناگزیرہے کہ القدس الشریف دارالحکومت کی حامل ایک قابل عمل، خودمختار اور متحد وجود رکھنے والی فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ پاکستان (فلسطینی) صدر محمود عباس کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہے کہ (مسئلہ کے) پرامن حل کے لئے عالمی کانفرنس بلائی جائے۔ قبل ازیں وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے وزرائے خارجہ کے اعزاز میں نیویارک میں عشائیے کا اہتمام بھی کیا تھا۔وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی جانب سے وزرائے خارجہ کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام پاکستانی سفارت خانے میں کیا گیا جس میں جنرل اسمبلی کے صدر والکربوزکر نے بھی شرکت کی۔عشائیے میں ترکی، فلسطین، تیونس کے وزرائے خارجہ کے علاوہ او آئی سی ممالک کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوبین نے بھی شرکت کی۔#/s#

close