حق نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، اکیکو، جماعت خان اور ہندُو کُش

آج سے پینتیس سال پہلے خوابوں کی سرزمین چترال میں ایک خواب دیکھنے والی جوان جاپانی عورت اکیکو وادہ کا آنا ہوا۔ وہ شایدفوٹو گرافر تھی، صحافی تھی یا سیاح تھی ۔ پتہ نہیں ۔ اُس کی شخصیت دھُند میں لپٹی ہوئی تھی ۔ چترال میں اُس زمانے میں دُنیابھر سے سیاح آتے تھے۔ کُچھ بڑے قدموں والی غیبی مخلوق ییٹی کی تلاش میں آتے اور ہندُو کُش کے پہاڑوں میں اُس کے قدم تلاشکرتے پھرتے تھے۔ کُچھ “کافر ستان “ میں مقیم کالاش لوگوں کی پُر اسرار زندگی کے راز جاننے کے متمنی ہوتے تھے۔ کُچھ چترال کےپہاڑوں، چشموں، اور دلفریب وادیوں کو دریافت کرنا چاہتے تھے۔ کُچھ لوگ “چترالی ویڈ “ کا دم لگانے کے شوق میں پہنچ جاتے۔ایکامریکی سینیٹر جن کی افغان جنگ میں گہری دلچسپی کی کہانی چارلی ولسنز وار کی شکل میں ہالی ووڈ کی ایک فلم کا موضوع بنیبھی اعلی نسل کے امریکی گھوڑے مُجاہدین کے لئے لے کر یہاں آئے۔ اُن دنوں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کا بھی آغاز ہوا تھا۔ اسلئے اس پروگرام کی حیران کُن کارکردگی کو دیکھنے کے لئے بھی مغربی مُلکوں کے صحافی، سیاستدان، ترقی کے کاموں کے ماہرین،ترقیاتی امداد دینے والے اداروں کے ماہرین، شہزادے اور شہزادیاں بھی یہاں آتے رہے۔اُن میں شہزادی ڈیانا بھی شامل تھیں۔ ان دنوںچترال میں افغان مہاجرین بھی آنا شرُوع ہوئے۔

اکیکو کی کہانی ان تمام مہمانوں سے مُختلف تھی۔ اُس نے اپنے آنے کے بعد ایک مقامی ہوٹل میں رہنے کا ٹھکانہ ڈھونڈا۔ ہوٹل کاخوش شکل اور جوان منیجر شلوار کے اوپر ٹی شرٹ پہنتا تھا۔ اور ٹی شرٹ میں غالبا سواحلی زبان کے دو لفظ انگریزی میں لکھےہوتے تھے۔ ہکُونا مٹاٹا۔جس کا مفہوم بنتا تھا سب خیر ہے۔ بعد کے دنوں میں یہ الفاظ بچوں کے لئے بننے والی کارٹون فلم لائن کنگ میںبھی بہت بار آئے اور پوری دُنیا میں زبان زد عام ہو گئے۔ اکیکو بھی چترال میں چند دنوں یا ہفتوں کے لئے ہکُونا مٹاٹا کے سائے میںرہنا چاہتی تھی۔ ہوٹل میں قیام کے درمیان اُس کا دو خواتین سے ملنا ہوا جنہیں چترال بھر کی عورتیں دو بہنوں کے نام سے جانتیتھیں۔ دونوں بہنوں کے دلوں میں اُن کے آبائی علاقے کی طرح مہمان خواتین کے لئے محبت کی تپش موجود تھی۔ اُنہوں نے اکیکو کواپنے ایک کمرے کے گھر میں رہنے کی دعوت دی اور اکیکو وہاں منتقل ہو گئی۔

اکیکو جب چترال میں آئی تو اٹھارہ گھنٹے کام کرتی تھی اور چھ گھنٹے سوتی تھی۔ جب دو بہنیں سو رہی ہوتی تھیں تو وہ اُن کےٹائلٹ میں بتی جلا کر پڑھنے لکھنے کا کام کرتی تھی۔ وہ ہر وقت تیزی سے کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی تھی۔ فارغ نہیں بیٹھسکتی تھی۔ بہت زمانے بعد اُس نے بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی بظاہر چھ گھنٹے کام کرنا اور اٹھارہ گھنٹے سونا شرُوع کر دیا۔شاید یہ جھُوٹ ہو۔ کیونکہ بعد کے ایک واقعے سے اس کی تردید کی خبر بھی ملی ہے۔ چترال آنے کے کُچھ عرصہ بعد اکیکو کو کالاشوادی جانے کا شوق ہوا اور وہ ایک جیپ میں پانچ چھ دوسرے مسافروں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے سفر پر روانہ ہو گئی ۔ راستے میں ایکچڑھائی سے گذرتے ہوئے جیپ پھسلنا شرُوع ہوئی اور ڈرائیور کے لئے اُسے روکنا مشکل ہو گیا۔ جیپ کے کھائی میں گرنے سے تماممسافروں کی جان جانے کا خطرہ تھا۔ اُس وقت کہیں آس پاس ایک کالاش نوجوان جماعت خان بھی موجود تھا۔ جماعت خان نے چھلانگ لگائی اور جیپ کے پھسلتے ہوئے پچھلے ٹائروں کے نیچے لیٹ گیا۔ جیپ رُک گئی لیکن جماعت خان کی دو تین پسلیاں ٹوٹگئیں۔ مسافر بچ گئے ۔ اکیکو نے یہ منظر دیکھا تو ہو ہکا بکا رہ گئی۔

اکیکو کو یقین نہیں آیا کہ کوئی شخص دوسروں کی زندگی بچانے کے لئے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دے گا۔ اور ایک لمحہ بھی رُککر یہ نہیں سوچے گا کہ میں یہ کام کروں یا نہ کرُوں ۔ جماعت خان نے اکیکو کی رُوح کے نہاں خانے میں اپنی جگہ بنا لی۔ جماعتخان تین مہینے ہسپتال میں زیر علاج رہا اور اکیکو اُس کی پائنتی سے بندھی اُس کی تیمارداری کرتی رہی- جماعت خان کی سادگی ،ہمت اور ایثار کا اکیکو پر گہرا اثر ہوا اور اُس نے جماعت خان سے شادی کر کے کالاش وادی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب کالاشعورتوں سے اکیکو کا قریبی تعلق بنا تو اُسے پتہ چلا کہ مہینے کے مخصوص دنوں اور زچگی کے دنوں میں اُنہیں آبادی سے دور جنگلمیں اندھیرے اور الگ تھلگ بے آرام سے ہال میں جسے بشلینی کہا جاتا تھا بھیج دیا جاتا تھا۔ اکیکو نے اُس ہال کو آرام دہ بنانے کےلئے کام کیا۔ کالاش وادی میں بجلی نہیں تھی ۔ اُس نے جاپانی سفیر سے گرانٹ لے کر ایک بجلی گھر لگوایا ۔ اور اپنی زندگی کالاشیوں کے لئے رفاہی کاموں کے لئے وقف کر دی۔

اکیکو کالاش وادی میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح آباد ہو گئی۔ اُس نے بہت سی چیزوں کو تبدیل کیا لیکن جماعت خان اور اُس کےطرز زندگی میں اتنا فاصلہ موجود تھا جتنا جاپان اور چترال کے درمیان ہے۔ اکیکو اٹھارہ گھنٹے کام کرتی تھی۔ جماعت خان ڈاؤ کےتصور کے مطابق چیزوں کے ہو جانے کا قائل تھا۔ کرنا نہیں ہونے دینا اُس کا جیون وچار تھا۔ اکیکو اُس کو ایک دوسرا جیون رنگدکھانے کے لئے جاپان لے گئی۔ جماعت خان کے اندر کی دُنیا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ جاپان میں ہوتے ہوئے بھی وادی کالاشسے باہر نہیں آسکا۔ اکیکو واپس آئی تو جماعت خان سے الگ ہو گئی لیکن کالاش وادی کے سحر سے باہر نہیں آئی اور بقیہ عُمر یہیںگُزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ باہر کی دُنیا کیسے بدلتی ہے۔ لیکن شاید ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ اندر کی دُنیا کیسےبدلتی ہے۔

close