حق نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، ہیٹ والے صاحب کا بختاور مائی سے مُکالمہ

سندھ میں دیہی ترقی کے لئے عورتوں کی تنظیم کاری کا کام شروع ہوا تو ہیٹ والے صاحب کے ساتھ مُجھے سندھ کےایک گاؤں میںعورتوں کی ایک تنظیم سے ایک مُکالمے میں شرکت کا موقعہ ملا۔ ہیٹ والے صاحب نے جنُوبی ایشیا کے ہزاروں گاؤں میں اسی طرح کےمکالمے کئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا غربت ختم کرنے کیلئے دو شرطیں پوری ہونا ضروری ہے لوگ غربت ختم کرنا چاہتے ہو اور اس کے لئےمنظم ہونے کو تیار ہوں ۔ یہ دو باتیں معلُوم کرنے کے لئے مکالمہ کرنا پڑتا ہے ۔ اب کی بار گاؤں کے ایک چھوٹے سے احاطے میں خواتینموجود تھیں۔ اُن کے سامنے ہیٹ والے صاحب اور اُن کے رفقائے کار بیٹھ گئے۔ تعارفی کلمات کے بعد علاقے کی خواتین کی غُربت کےبارے میں بات شُروع ہوئی۔ عورتوں کی اگلی صف میں پچاس برس کی ایک خُوبصورت، باوقار اور پُر اعتماد خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔جب سب حاضرین کا تعارف ہوا تو پتہ چلا اُس کا نام بختاور ہے۔ اس میٹنگ سے پہلے ہم تمام لوگوں نے ہیٹ والے صاحب کے ساتھگاؤں کا چکر لگایا اور گاؤں کی عورتوں کے گھروں اور کام کاج کے بارے میں اُن سے بات کی۔ ایک کھر جس کی آدھی چھت گر چُکیتھی اور آدھی کا سایہ باقی تھا بختاور مائی کا گھر تھا۔ باقی گھروں کی حالت بھی اس سے ملتی جُلتی تھی۔

مکالمہ شروع ہوا۔ مکالمہ اتنا طاقتور ہتھیار ہے کہ اس کی مدد سے ہیٹ والے صاحب نے لاکھوں غریب خاندانوں کو غربت سے نکلنےمیں مدد دی۔ ترقیاتی ماہرین کے لئے سب سے مُشکل کام غریب لوگوں سے مکالمہ کرنا اور ایسی راہ ڈھونڈنا ہے کہ جس سے وہ اپنیآمدنی خود بڑھا سکیں۔ اس لئے مُجھے تجسس تھا کہ یہ دیکھوں مکالمے کے کام میں کیا جادُو ہے۔اور اس کے نتیجے میں کیسےتبدیلی آتی ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مکالمے میں ہیٹ والے صاحب، اُن کی ٹیم اور گاؤں کی عورتیں سب زمین پر ایک دوسرے کےآمنے سامنے بیٹھے تھے۔ کسی کے لئے کُرسی نہیں رکھی گئی تھی، ہار نہیں تھے۔ نہ کسی کے لئے سپاسنامہ پڑھا گیا۔ نہدرخواستیں وصول کی گئیں۔ جب سب لوگ بیٹھ گئے اور تعارف ہو گیا تو ہیٹ والے صاحب نے پوچھا آپ لوگوں نے اپنے گاؤں سے غربتختم کرنے کے بارے میں کیا سوچاہے؟ یہاں غربت ختم کیوں نہیں ہو سکتی؟بختاور مائی نے سوچا صاحب نوٹ تقسیم کرنے آئے ہیں۔ صاحب کے دل پر اثر کرنے کیلئےبختاور مائی نے ایک پُرجوش تقریر کی اور اپنے چند مطالبات پیش کئے۔ ہیٹ والے صاحب نے کہا۔غُربت میں نے ختم نہیں کرنی، آپ نے ختم کرنی ہے۔ بختاور مائی نے حیران ہو کر ادھر اُدھر بیٹھی عورتوں کو دیکھا اور پُوچھا ہمکیسے غُربت ختم کریں گے؟ ہیٹ صاحب نے کہا اس کے لئے مقامی تنظیم بنانی پڑتی ہے۔ غربت اکیلے ختم نہیں ہو سکتی مل کر ختم ہوسکتی ہے۔ آپ لوگوں نفے اپنے گوٹھ میں عورتوں کے لئے تنظیم بنائی ہے؟ بختاور مائی نے پھر دائیں بائیں دیکھا تو ساتھ بیٹھینوجوان لڑکیوں نے اُس کے کان میں کہا ہاں بنائی ہے۔ تنظیم کا صدر کون ہے؟ لڑکیوں نے اُس کے کان میں کہا تُم ہو۔ تو بختاور نے بڑےاعتماد سے کہا میں ہوں- اب بختاور کو سمجھ آیا کہ میں نے مطالبے نہیں کرنے میں نے ہی غریبی ختم کرنے کا کام کرنا ہے۔جب باتتھوڑی سی واضح ہوئی کہ مقامی تنظیم نے غریبی ختم کرنے کا کام کرنا ہے تو مکالمے کا اگلا مرحلہ شرُوع ہوا۔ اب یہ بات سامنے آگئی تھی کہ گاؤں کی عورتوں کے پاس وسائل بھی ہیں یعنی افرادی قوت، اُن کا ہُنر اور ایک مضبوط تنظیم-

ہیٹ والے صاحب نے پوچھا آپ لوگ اس وقت روزی کمانے کے لئے کیا کام کرتے ہیں۔ سب عورتوں نے جواب دیا کہ ہم دستکاری کرتےہیں۔ ہم کپڑوں پر کڑھائی کرتے ہیں ۔اپنا مال کہاں پر بیچتے ہیں؟ ساتھ والے شہر میں کوئی پندرہ میل کے فاصلے پر بیوپاریوں کوبیچتے ہیں۔ اُس سے آمدنی کم کیوں ہوتی ہے؟ بیوپاری دام کم لگاتے ہیں۔وہ ہمیں سامان خریدنے کے لئے قرضہ دیتے ہیں اور مالاُٹھانے کی قیمت پہلے سے طے کر لیتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہوا مال کی قیمت بڑھانے میں رُکاوٹ دکاندار سے ملنے والا قرضہ ہے۔ اگرکسی اور ادارے کی طرف سے قرض مل جائے تو اچھی قیمت لگ سکتی ہے- اور دوسری رُکاوٹ یہ ہے کہ مال شہر میں جا کر بیچناہوتا ہے۔ وہاں کئی دُکانداروں سے مُلاقات کر کے قیمت کی سودا بازی کی جا سکتی ہے-یہ کام کوئی کنٹریکٹر کر سکتا ہے۔ اسکنٹریکٹر کی تنخواہ آپ مل کر دیں تو آپ کا منافع آپ کے اخراجات سے کئی گُنا زیادہ ہو گا۔ آپ بتائیں آپ کو قرضہ ملا تو آپ واپسکریں گی؟ بختاور مائی نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔ یہ فیصلہ اگلی میٹنگ میں ہو گا۔ مُکالمہ ختم ہو گیا۔ گوٹھ کی عورتوں کو سمجھآگئی کہ قرضہ ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو دو جمع دو پانچ ہو سکتے ہیں۔ لیکن قرضہ لینے کا فیصلہ تنظیم کرے گی لیڈر نہیںکرے گا۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ دلدار گوٹھ کے گدھا گاڑی چلانے والے ہوں، تونسہ بیراج کے مُہانڑیں ہوں، سندھ کے گوٹھوں کی غریب عورتیںہوں وہ تو قرضہ لے کر واپس کر سکتے ہیں، خوشحال ہو سکتے ہیں، لیکن ہماری حکومت قرضے لے کر واپس نہیں کر سکتی۔ حکومتچلانے والے قرضے لے کر امیر ہو جاتے ہیں، مُلک مقروض ہو جاتا ہے، اور قرضے واپس کرنے کیلئے قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ہمارے عوام کے پاس کونسا علم ہے جو ہمارے پڑھے لکھے طبقات کے پاس نہیں ہے؟ اس علم کو کہتے ہیں سماجی اخلاقیات۔ پُرانےزمانے میں اس کہا جاتا تھا “پہلے آپ”۔ ہیٹ والے صاحب کے مُطابق اس کی کامیابی کا دارومدار دو باتوں پر ہے، لوگ غربت ختم کرناچاہتے ہوں اور اُس کے لئے منظم ہونے کو تیار ہوں۔ اُن کی مدد کرنے والے اداروں کی دو ذمہ داریاں ہیں ٹیکنیکل گائیڈنس اور قرضےکی فراہمی۔ باقی سب کُچھ کھیل تماشا ہے۔

close