حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، روٹی۔ کھیتوں میں بھُوک نہیں اُگنی چاہیئے

انگریز کے آنے کے بعد ہمارے مُلک میں دُنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم ہوا۔ 1885 سے 1925 کے درمیان لاکھوں ایکڑ رقبہ آباد ہوا۔ گندم اور کپاس کی افراط ہو گئی ۔ لیکن زرعی زمینوں کا بڑا رقبہ غیر حاضر زمینداروں کے پاس تھا۔ اُنہیں منافع بخش طریقے سے کاروبار کرنا نہیں آتا تھا۔ 1947 میں آزادی کے بعد گندم مہنگی اور بھُوک سستی ہونا شروع ہوگئی ۔ ایشیا کے باقی مُلکوں میں بھی یہی حالت تھی اس لئے ایشیا کے طول و عرض میں انقلاب کے طبل بجنے لگے۔ اور امریکہ کے وزیر خارجہ اور ورلڈ بنک کے صدر کے عہدے پر خدمات انجام دینے والے رہنما رابرٹ میکنا مارا نے کہا کہ بھوک ایشیا میں کمیونسٹوں کی سب سے بڑی اتحادی ہے۔ اس کے توڑ کے لئے سبز انقلاب کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی تاکہ روٹی سستی ہو اور انقلاب کا بھُوت مات کیا جا سکے۔

لیکن سبز انقلاب کے آنے سے پہلے پاکستان کے حالات بگڑ گئے ۔ جب چار آنے کی روٹی ہوئی اور بیس روپے من آٹا ہوا تو حبیب جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم صدر ایوب زندہ باد میں لکھا
بیس روپے من ہے آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر سہگل ، آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
مُلک کے دُشمن کہلاتے ہیں
جو ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زندہ باد

اس نظم نے مُلک کے طول و عرض میں آگ لگا دی۔ اور سبز انقلاب سے پہلے ایوب خان کے جرنیلی انقلاب کا بستر گول ہو گیا۔ایوب خان کے جانے کے بعد جب 1970 کے انتخابات میں روٹی بہت بڑا نعرہ بنا گیا اور پاکستان کے روایتی سیاستدانوں میں روٹی کا مطالبہ سُن کر گھبراہٹ کی لہر دوڑ گئی۔ اُنہوں نے کہنا شروع کیا کہ روٹی کا مطالبہ تو روحانیت سے دوری ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم نے ایک جلسے میں کہا کہ روٹی تو بیل بھی کھا لیتا ہے۔ بھُوک کو پاکستان میں بھی کمیونزم کا ساتھی سمجھا گیا اور روٹی کے مُطالبے کو اُن کی ناپاک سازش ۔ اسی لئے اسلامی جمعیت طلبہ نے انتخابی معرکوں کے درمیان نعرے لگائے

جاگو جاگو مُسلم جاگو ، بھاگو بھاگو کمیونسٹ بھاگو

یہ ایک المیہ ہے کہ گیارہویں صدی میں تصوف کو اس خطے میں متعارف کرانے والے بزُرگ بابا فرید شکر گنج تو روٹی کو ایمان کا چھٹا رُکن بتا رہے تھے اور بیسویں صدی کے مسلمان نظریہ دان اسے روحانیت کے لئے خطرہ قرار دے رہے تھے۔انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے شہروں میں روٹی پلانٹ لگائے اور کم آمدنی والے لوگوں کو راشن کارڈ جاری کئے تاکہ وہ سستا آٹا سرکاری ڈپو سے خرید سکیں ۔ یہ سلسلہ بعد میں ختم ہوا لیکن غریبی ختم کرنے کی مُہم جاری رہے۔ 1982 میں غیر سرکاری شُعبے میں دو ایسے پروگرام شروع ہوئے جنہوں نے غربت ختم کرنے کا پائیدار راستہ دکھایا۔ اُن میں شمالی علاقہ جات میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اور کراچی کا اورنگی پائلٹ پروجیکٹ شامل ہیں۔ یہ نعروں اور احتجاجوں کے بغیر اور شہریوں کی قوت سے کام لے کر اُن کی زندگی بدلنے کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔

آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (اے کے آر ایس پی) کا طریقہ اتنا سادہ اور پُر اثر تھا کہ ہندوستان نے بھی اسی طریقے کی بنیاد پر وسیع پیمانے پر غُربت کے خاتمے کا پروگرام شرُوع کیا۔پروگرام کی ٹیم ہر گاؤں کے لوگوں سے پوچھتی تھی کہ وہ ایک ایسا منصوبہ بتائیں جس کی تکمیل سے گاؤں کی بڑی آبادی کی غُربت ختم ہو جائیگی۔ جو منصوبہ لوگ بتاتے اُسی پر کام کیا جاتا۔ لوگوں کی تربیت کی جاتی کہ وہ خود منصوبہ مکمل کریں اور خود اس کا انتظام سنبھال لیں۔ اس سے پیسے کھانے پینے کا راستہ خود ہی بند ہو جاتا تھا۔ دس سال کے عرصے میں اس کام کے ذریعے سے دشوار ترین پہاڑی علاقوں کے گاؤں کے ایک لاکھ گھرانوں کی آمدنی دُگنی ہو گئی۔ اب یہ پروگرام پاکستان کے 130 سے زیادہ اضلاع میں کام کر رہا ہے۔

کراچی میں 1982 میں سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی میں ڈاکٹر اختمر حمید خان سے کہا گیا کہ وہ غربت کے خاتمے کے لئے کام میں مدد کریں۔ یہاں بھی اُنہوں نے لوگوں کی مدد سے غریبی ختم کرنے کا راستہ تلاش کیا۔ اُنہوں نے چھ ماہ تک اورنگی کے گلی کُوچوں کا چکر لگایا اور اُنہیں معلوم ہُوا کہ بیماریوں کے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات غُربت کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہ سب بیماریاں نا صاف پانی پینے سے ہوتی ہیں۔اور پینے کا پانی اس لئے آلودہ ہوتا ہے کہ گھروں کا استعمال شدہ آلودہ پانی گھروں کے باہر گڑھوں میں جمع رہتا ہے اور بے شُمار بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔اگر ہر گلی میں سیوریج لائن ڈال دی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہر گھر جتنی رقم علاج پر خرچ کرتا ہے اُس سے آدھے سے بھی کم خرچ کر کے وہ پوری گلی میں سیوریج لائن ڈال لیں گے۔ یہ منطق سمجھانے میں چھ مہینے اور لگے۔ پھر لوگوں نے یہ کم اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور 7000 گلیوں میں سیوریج لائنیں ڈال دیں۔

آپ سوچیں گے یہ کام تو بڑے اداروں کے کرنے کے ہیں – کوئی اکیلا انسان کیا کر سکتا ہے۔ تو سُنیے چُناری کی ایک نوجوان سوشل ورکر نے اپنے علاقے میں یہ کام شروع کیا۔ ایک بوڑھی عورت کے گھر گئیں۔ اُنہوں نے کہا میرا جوان بیٹا فوت ہو گیا۔ بہو بچوں کا خیال کرتی ہے گھر سے باہر نکل کر کام نہیں کر سکتی۔ میں بُوڑھی ہوں۔ میری مدد کرو۔ سوشل ورکر نے کہا۔ آپ کے گھر میں تین بکریاں باندھ دیں۔ دودھ دوہ لیں گی، چارہ ڈال لیں گی، – پانچ مُرغیاں دے دیں۔ اُن کے چوزے اور انڈے بیچ لیں گی۔کیاریاں بنا کر اُن میں سبزیوں کے بیج بو دیں گے۔ اور ہر مہینے ہمیں قسط میں قرضہ واپس کر سکتی ہیں۔ اماں نے کہاں۔ ہم گھروں میں آسودگی کی فصل اُگا سکتے ہیں۔ یہاں بھُوک نہیں اُگنی چاہئے۔

close