کینیڈا میں قومی ہیرو کے طور پر جانے اور پہچانے جانے والے، ڈاکٹر ثاقب شہاب پاکستان سے کیوں گئے؟

نوائے وقت اسلام آباد سے وابستگی کے دوران ہر دوسرے ماہ میری رپورٹنگ کا شعبہ بدل دیا جاتا تھا۔ پہلے کرائم رپورٹر کی فرمائش پر اکنامک رپورٹنگ کا شعبہ مجرمانہ سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنے والے صاحب کو سونپا گیا اور پھر ایک کے بعد دوسری اور تیسری وزارت و محکمہ سے ہوتا ہوا وزارت صحت تک جا

پہنچا۔ اسی دوران وزارت صحت کے افسر تعلقات عامہ چودھری اکرام کی وساطت سے ڈاکٹر ثاقب شہاب سے ملاقات ہوئی۔ جو ان دنوں ہیلتھ سروسز اکیڈیمی آف پاکستان میں تعینات تھے۔ میں اس نوجوان ڈاکٹر کو بس اتنا ہی جانتا تھا کہ وہ اردگرد کے حاسدانہ و سازشی ماحول سے بے فکر نت نئے خیالات رکھتا ہے۔ جو پاکستان کے صحت عامہ کے شعبہ میں وسائل کو خاطر میں لائے بغیر تبدیلی کے بے پناہ آئیڈیاز رکھتا تھا۔ اکیڈیمی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمجید راجپوت اس نوجوان کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب کو کام کے لئے فری ہینڈ فراہم کرتے تھے۔ ۔۔ایک روز ڈاکٹر راجپوت سے ملاقات ہوئی تو انہیں خلاف معمول پریشان پایا۔ معلوم کرنے پر ڈاکٹر راجپوت نے ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھری اور افسردہ لہجہ میں بولے کہ ہم ایک باصلاحیت نوجوان کو کھو بیٹھیں گے۔ چودھری اکرام صاحب بھی وہاں موجود تھے ، جنہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر ثاقب شہاب اعلیٰ تعلیم کے لئے کینیڈا جانا چاہتے ہیں۔ ان کا سکالرشپ بھی منظور ہوچکا ہے مگر وزارت صحت سے چھٹی نہیں مل رہی۔ میں نے دونوں صاحبان کو حیرت سے دیکھا اور چودھری صاحب سے استفسار کیا کہ آپ تو وزیرصحت کے ساتھ ڈیوٹی کرتے ہیں ، پھر چھٹی میں کیا رکاوٹ ہے؟ چودھری صاحب نے حسب عادت اپنی سادگی میں اندر کی بات بتا دی اور کہا کہ دو روز بعد وزیرصحت اکیڈیمی کی ایک تقریب میں آ رہے ہیں۔ آپ صحافی ہیں اور بہتر جانتے ہیں کہ یہ معاملہ کیسے وزیر صاحب کے نوٹس میں لانا ہے۔۔۔اسی روز ڈاکٹر شہاب سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو وہ بھی کافی مایوس دکھائی دیتے تھے۔ وہ بیرون ملک جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر واپس اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس وقت کے وفاقی سیکرٹری صحت کے روپہ کی وجہ سے دلی طور پر دکھی تھے۔ میں نے ڈاکٹر شہاب سے وعدہ کیا کہ ان کی چھٹی کے لئے ہرممکن کوشش کروں گا۔ وہ مجھے روکتے رہے کہ کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں، ان کا محکمہ اور حکام معاملہ دیکھ رہے ہیں، چھٹی مل گئی تو ٹھیک، نہ ملی تو وہ ملازمت سے مستعفی ہوکر کینیڈا چلے جائیں گے۔ اس جملے کے بعد کمرے میں ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ ڈاکٹر شہاب کے چہرہ پر افسردگی اور تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ ۔۔دو روز بعد ہیلتھ سروسز اکیڈیمی میں وفاقی وزیرصحت ڈاکٹر عبدالمالک کاسی تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ وفاقی سیکرٹری صحت اعجاز رحیم بھی تھے، موقع ملتے ہی ہم صحافیوں نے انہیں گھیر لیا۔ میں نے ڈاکٹر کاسی کو ڈاکٹر شہاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نوجوان قدرت اللہ شہاب کا فرزند ہے۔ بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہے، ملک و قوم کی خدمت کو ایمان کا درجہ دیتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے کینیڈا جانا چاہتا ہے مگر چھٹی کی منظوری راستے میں حائل ہے اور وزارت کے حکام کے رویہ سے دل برداشتہ ہے۔ آپ خصوصی توجہ دیں اور چھٹی دلوادیں، اگر ایسا نہ ہوا تو یہ نوجوان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کینیڈا منتقل ہوجائے گا۔ ڈاکٹر کاسی نے ڈاکٹر ثاقب سے پرتپاک مصافحہ کیا اور سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ چھٹی کیوں نہیں دی جا رہی۔ انہیں چھٹی دے دیں۔ ۔۔اکیڈیمی کے سربراہ ڈاکٹر راجپوت ، وزیرصحت کے افسر تعلقات عامہ اکرام چودھری اور ڈاکٹر ثاقب شہاب کے چہرے پر طمانیت کا اظہار ہورہا تھا۔ مجھے بھی خوشی ہوئی کہ اب ڈاکٹر ثاقب کو چھٹی مل جائے گی اور وہ ایک روز پھر وطن واپس آکر اپنی خدمات اس ملک و قوم کو پیش کریں گے۔ کچھ روز بعد دوبارہ ہیلتھ سروسز اکیڈیمی جانا ہوا اور ڈاکٹر ثاقب کے دفتر گیا تو پتہ چلا کہ وہ استعفی دے گئے ہیں۔ آج ڈاکٹر ثاقب شہاب کو کینیڈا میں قومی ہیرو کے طور پر جانا پہچانا جا رہا ہے۔ وہ شعبہ صحت میں گرانقدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آج جب یہ خبر دیکھی تو اعجاز رحیم یاد آ گئے۔ اگر ثاقب شہاب کی چھٹی منظور کرلی جاتی تو شاید آج وہ پاکستان میں قومی ہیرو ہوتے۔ مگر منہ زور اور انا پرست بیوروکریسی کیسے کیسے ہیروں کو ضائع کرتی ہے ، یہ ستم ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ۔۔۔

close