ڈاکٹر عتیق الرحمن شیخ کی خصوصی تحریر

‏یہ سب کیا تھا؟

‏دوسروں سے بات چیت کرنا، اپنے خیالات کا اظہار کرنا، طاقت ور گروپ، خاندان کا حصہ بن کے رھنا انسانی فطرت کا حصہ ہے- انسان اپنی طرح کے ہم خیال لوگوں میں بہت پر سکون اور محفوظ محسوس کرتا ہے –

‏انٹر نیٹ نے اس phenomenon کو بہت تقویت بخشی ہے- ایسے گروپ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں اور اکثر اوقات خطرناک شکل اختیار کر لیتے ہیں-

‏ ان گروپوں کے لیڈر اپنے بارے میں افسانہ نما کہانیاں بنا کر میدان میں پھینک دیتے ہیں انسان اپنی شخصی کمزوریوں پر اپنی شوخیوں اور بھبھبکیوں سے پردہ ڈالتا ہے- یہ کہانیاں نوجوانوں کو persuade کرتی ہیں- یہ سچ کو اپنے پیروکاروں تک نہیں پہنچنے دیتے- یہ نفرت کے بھیج بو کر اپنی طاقت کو بڑھاتے ہیں- عوام کو سیاسی حالات کی ایک ایسی شکل دکھاتے ھیں کہ اصل قصوروار مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا جاتا ھے اور ظالم کو مظلوم ظاھر کر کے پیش کیا جاتا ھے۔ کبھی بھی اصل وجوھات کی طرف عوام کی توجہ نھیں جانے دی جاتی ۔ایسا دیوتا جو کچھ دکھاتا ھے اور سناتا ھے عوام وھی سوچتی ھے۔ بلکہ دیوتا تو یہ بھی بتاتارھا ہے کہ سوچنا کیسے ھے- ۲۰۱۱، ۲۰۱۲، ۲۰۱۴ میں بتایا کہ کہ ساستدان مسئلہ ہیں- ۲۰۲۲ میں فوج کے خلاف نعرہ بلند کر دیا- ۲۰۲۳ میں فوج پر حملہ آور ہو گئے۔

‏ہمارے دیوتا نے سچ کو جھوٹ کی تہہ در تہہ پرتوں نے نیچے چھپا دیا – پراپیگنڈہ مشینری اس تیزی سے چیزوں کو سپن دیتی رہی کہ چند ہی لمحوں میں حقائق پردہ سکرین سے غائب ہو نے لگے – سیاسی افراتفری اور معاشی گھن چکر میں عوام کو اپنے ہاتھوں سے دھکا دیا اور الزام دوسروں پر لگا کر بھنبھیری کو گھما دیا-ایسا گھمایا کہ ریاست میں فساد برپا ھو گیا-

‏ایسا لگتا ہے جیسے بے ھنگم شور اب آخری دموں پر ھے- لیکن طوفانوں کی تباہ کاریاں کی تعمیر نو کے لئے بہت وقت درکار ہو گا- نقصان تو ہوا ہے- سیاسی اقدار اور آئندہ آنے والی حکمرانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچنا ہے- لیکن شاید ، اس سارے قصے کا منطقی انجام یہی تھا- یہی ہوتا تو ریاست اور باقی سیاست بچنی تھی- اب آنے والوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کینسر کا یہی علاج تھا- کیموتھراپی اکیلی کام نہیں کر رھی تھی، اس لئے سرجری بھی کرنی پڑی – پچھلی ایک دھائی سے دھرنا، لانگ مارچ، دھرنا پھر لانگ مارچ، ٹویٹر ٹرینڈ، گالم گلوچ، عدالتی گُن چکر، چل رھا تھا- ملک پہلے جمود کا شکار ہوا، پھر تباھی کے دھانے تک پہنچ گیا- ابھی بھی فوری اڑان کی توقع تو نہیں- کم ازکم ملک کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی امید تو ہے- بارودی سرنگوں کو صاف کرنا کوئی آسان کام نہیں -اتنے بڑے طوفان پر قابو پانے والوں کی ھمت کو سلام- عوام سادہ ہوتی ہے اور فورا بدگمان ہو جاتی ہے- قوم کی بد گمانی کو دور کر کے یکجا کرنا ایک اھم مرحلہ ہے- اگر دلجمعی سے لگے رھے تو ناممکن نہیں –
‏⁦‪#ProgressingPakistan‬⁩ ⁦‪#PakistanArmy

close