ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب “میرا لہو” سے دوسری قسط

۔۔پاکستان میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے لیے امریکہ نے اپنے مہرے تیار کیے۔
۔۔امریکہ نے کس کے ذریعے پاکستان میں گندم کا جعلی بحران پیدا کر کے گندم کی امداد کا اعلان کیا؟
۔۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے کس کے اشارے پر ماسکو کا دورہ منسوخ کیا؟

۔۔پاکستان امریکہ کی جھولی میں کب اور کیسے گرا؟ زمہ دار کون ہے؟ حیرت انگیز انکشافات پر مبنی تفصیلات
۔۔ذوالفقار علی بھٹو کی کہانی “میرا لہو” سے دوسری قسط، فرخ سہیل گوئندی کے قلم سے

امریکی سرپرستی کا آغاز
اکتوبر 1917ء کے سابق سوویت یونین انقلاب نے سرمایہ دار ممالک کے عالمی کردار کو بہت حد تک واضح کردیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں روایتی اِمپیریل ازم آخری سانس لینے پر مجبور ہوگیا اور اس کی جگہ نیا سامراجی ڈھانچہ دنیا پر مسلط کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ ایک طرف مشرقی یورپ میں جنگِ عظیم دوم کے بعد سابق سوویت یونین کو اثرورسوخ حاصل ہوگیا اور دوسری طرف ایشیا اور افریقہ میں نیشنلزم کی بنیاد پر آزادی کی تحریکوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور نوآبادیاتی نظام سے علٰیحدہ ہوکر پسماندہ قوموں نے آزادی حاصل کرکے عالمی سیاست کے نئے دور کا آغاز کیا۔

چین کے اندر مائوزے تنگ نے کسانوں کی مدد سے سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے جہاں ایک طرف عالمی سرمایہ داروں کو شکست سے دوچار کیا وہاں اس انقلاب نے روایتی مارکسسٹوں کے اس فلسفے کو رد کردیا کہ صرف مزدور طبقہ ہی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ جنگِ عظیم دوم نے دنیا کے سیاسی، معاشی، اقتصادی اور عسکری اپروچ کے نئے زاویئے طے کیے۔ دنیا بھر میں نیشنلزم اور سوشلزم کی بنیاد پر محکوم قومیں قومی و معاشی آزادی کے علم بلند کیے ہوئے سامراج کو پیچھے دھکیلنے میں مصروف تھیں۔ ایسے میں جدید سامراج نے بھی اپنی ’’کوتاہیوں‘‘ کو دور کرکے نئے طریقِ کار

اپنائے۔ ایک طرف اس نے مغربی یورپ کے لیے مارشل پلان کا اعلان کیا تاکہ یورپ کے اندر سرمایہ دار اتحادی قوتوں کو زندہ رکھا جا سکے تو دوسری طرف امریکیوں نے عالمی سطح پر یورپ، ایشیا، افریقہ، مشرقِ بعید اور لاطینی امریکہ کے اندر مختلف عسکری معاہدات کیے جو ’’کمیونزم کے بھوت‘‘ کے خوف کے نتیجے میں قائم کیے گئے۔کمیونزم کو روکنے کے لیے امریکیوں نے جہاں عسکری معاہدات کرکے پسماندہ اقوام کو اپنی جدید استحصالی زنجیر میں جکڑا وہاں امریکیوں نے ترقی پذیر ممالک میں فوجی بغاوتیں برپا کرکے اپنی مرضی کی حکومتیں بھی تشکیل دیں تاکہ استحصال

زدہ ممالک پر کنٹرول مضبوط رہے۔ اس کے لیے امریکیوں نے سی آئی اے جیسے اداروںکو مضبوط ہتھیار کے طورپر استعمال کیا۔ پاکستان ان بدنصیب ممالک میں سے ایک ملک ہے جہاں امریکہ نے شروع سے مداخلت اور پاکستان کی اشرافیہ کے ساتھ اتحاد کرکے اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ امریکہ جو دنیا بھر میں جمہوریت کا علمبردار ہے لیکن اگر ترقی پذیر ممالک میں اس کا کردار دیکھیں تو وہ عوام دشمن اور غیرجمہوری ہے۔ پاکستان میں بھی امریکہ نے اپنے عالمی اور اقتصادی مفادات کی خاطر غیرجمہوری قوتوں کی سرپرستی کرکے عوام کو ان کے سیاسی و سماجی حقوق سے محروم

رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا۔ پاکستان میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے لیے امریکیوں نے باقاعدہ حکمتِ عملی کے تحت اپنے مہرے تیار کیے جن کو بعد میں مناسب وقت پر استعمال کیا گیا۔ امریکیوں نے 1951ء سے پاکستانی معاملات میں دلچسپی بڑھانی شروع کردی۔ اس کی علاقائی اور عالمی وجوہات تھیں جن میں نہرو کے امریکہ مخالف نظریات سمیت ایران کے اندر ڈاکٹر مصدق کی قیادت میں نئی سوچ ابھری جو امریکی مفادات کے سراسر خلاف تھی۔ ایسے میں پاکستان کا علاقائی کردار امریکیوں کی جھولی میں جا گرا۔ 1953ء میں امریکی ’’ماہرین‘‘ کی وساطت سے گندم کا جعلی بحران پیدا

کرکے اور پھر گندم کی امداد کا اعلان کرکے پاکستانی عوام میں بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی حمایت کو توڑنے کی ترکیب استعمال کی گئی لیکن یہ گندم ایک سال بعد پہنچی جس سے امریکیوں کی نام نہاد دوستی کا پول شروع ہی میں کھل گیا۔ وزیرِاعظم پاکستان لیاقت علی خان کی طرف سے ماسکو کے دورے کی دعوت کو ٹھکرانے کے بعد اوپری سطح پر متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ فروری 1954ء میں جی ایچ کیو راولپنڈی میں ایک خصوصی شعبہ قائم کیا گیا جہاں سے امریکیوں نے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں براہِ راست رسائی حاصل کرلی۔ اس شعبے کا نام یو ایس ایم اے اے جی

(United States Military Assistance Advisory Group) رکھا۔ یہ فوج کے اندر امریکیوں کی طرف سے اثرورسوخ حاصل کرنے کی ابتداتھی۔ ستمبر 1953ء میں پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا جہاں اعلیٰ امریکی پالیسی سازوں نے اپنے ’’پاکستانی مہمان‘‘ کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں۔ ایوب خان نے امریکہ کی فوجی تنصیبات کا معائنہ بھی کیا اور اس دوران ایوب خان نے امریکی وزیرِ دفاع چالس ای ولسن، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے ایڈمرل راڈ فورڈ، محکمۂ خارجہ کے انڈرسیکرٹری والٹر بیڈل سمتھ، لیفٹیننٹ جنرل انتھونی میک اولف

اور سی آئی اے کے بدنامِ زمانہ سربراہ ایلن ڈلس سے بھی ملاقات کی جبکہ نہرو اس دوران غیروابستہ تحریک کی بنیاد ڈال رہے تھے جوکہ سامراج کے خلاف ترقی پذیر ممالک کی غیروابستگی کے لیے ایک کوشش تھی۔ ایوب خان کے اس دورے کے بعد امریکیوں کو پاکستان میں فضائی اڈے استعمال کرنے کی خفیہ اجازت بھی مل گئی۔ 2 اپریل 1954ء کو امریکہ کے ساتھ ’’دوستی‘‘ کا ایک قدم اور بڑھایا گیا۔ کراچی میں ترکی اور پاکستان نے ایک فوجی معاہدے پر دستخط کیے جو درحقیقت امریکی خواہشات اور مفادات کی تکمیل کے لیے سابق سوویت یونین کی سرحدوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے

کا ایک قدم تھا۔ اس کے ایک مہینہ بعد 19 مئی کو امریکہ اور پاکستان نے ایک باہمی سکیورٹی اور مدد کا معاہدہ کیا یعنی یہ کہ برطانیہ کے متبادل کے طور پر امریکہ نے پاکستانی فوج کی طرف ’’دوستی کا ہاتھ‘‘ بڑھایا۔ دوستی میں ترقی کا یہ عمل بتدریج بڑھتا رہا۔ ستمبر 1954ء کوSEATO معرضِ وجود میں آیا۔ یہ عسکری معاہدہ چینی کمیونزم کے عفریت کو روکنے کے لیے کیا گیا۔ اس معاہدے کے شریکِ کار امریکہ، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، پاکستان اور تھائی لینڈ تھے۔ پاکستان جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ دونوں خطوں میں امریکہ سے دوستی نبھانے میں مصروف تھا۔

جنوب مشرقی ایشیا اگر چینی انقلاب کی تاثیر کے ساتھ سر اٹھا رہا تھا تو مشرقِ وسطیٰ میں جمال عبدالناصر جیسے ترقی پسند، قوم پرست راہنما سر اٹھا رہے تھے جو امریکی اور مغربی سامراجی مفادات کے لیے ایک بڑی مزاحمت کا سبب بن رہے تھے لہٰذا SEATO معاہدے کے ایک سال بعد، بغداد پیکٹ کے نام سے ایک اورمعاہدہ کیا گیا جس میں برطانیہ، ایران، عراق، ترکی اور پاکستان شامل تھے۔ یوں سامراج ایک عالمی اور علاقائی سامراجی نیٹ ورک قائم کر رہا تھا لیکن بغداد پیکٹ کے چند ماہ بعد ہی ایک سامراج دشمن بغاوت کے نتیجے میں عراق سے بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ ریڈیکل

انقلاب مغربی استعماریت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا لہٰذا برطانوی محکمۂ خارجہ نے اس معاہدے کو ایک نئی شکل دی جس کو سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (CENTO) کا نام دیا گیا۔ کتنا دلچسپ پہلو ہے کہ جب جمال عبدالناصر نے مغرب اور اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف آواز بلند کی تو پاکستان مغربی ممالک کے اتحادی کے طور پر مغرب کی حمایت کررہا تھا جبکہ پڑوسی ملک بھارت عرب نیشنلزم کے بھرپور حمایتی کے طور پر جمال عبدالناصر کی حمایت کا اعلان کررہا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کے حکمرانوں کو مکمل طور پر اپنی سرپرستی سے نواز کر اپنے ’’مفادات کا تحفظ‘‘ اور

خطرات سے نمٹنے کا انتظام کرلیا تھا اور اگر سماج میں سیاسی حقوق کے حصول یا امریکہ مخالف آواز اٹھتی تو اس کو قابو کرنے کی تیاری بھی کر لی گئی تھی یعنی امریکہ نے پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے نیوکلونیل نظام کا ڈھانچہ کھڑا کیا جو عوام کے مفادات کی تکمیل کے بجائے امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے قائم ہوا۔ مندرجہ بالا عسکری اور دفاعی معاہدات کسی طرح بھی پاکستان کی سلامتی کے لیے نہیں تھے بلکہ ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ امریکہ یا پاکستانی حکمرانوں کو ہوا جو سامراجی آشیرباد کے تحت پاکستان کے اقتدار پر مسلط رہے ہیں۔ (باقی آئندہ ہفتے تیسری قسط میں)

close