نواز شریف، عمران خان اور پرویز مشرف کا مؤقف ایک ہو گیا، سینئر صحافی انصار عباسی نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا

اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ نگار انصار عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا معاملہ درپیش ہوا ہے جس میں نوازشریف، عمرانخان ، پرویزمشرف ایک پیج پر جمع ہو گئے ہیں۔ انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ریاستِ مدینہ کا نام لینے والی عمران خان کی حکومت نے سود ختم کرنے کے کیس میں فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے یہ درخواست کی ہے کہ اس کیس کو نہ سنا جائے اور سود کے خاتمے کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ اس سے پہلے اس معاملے پر یہی مؤقف نواز شریف اور اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اختیار کیا تھا۔ انصار عباسی کا کہنا ہے کہاس سے پہلے عمران خان کی حکومت نے فیڈرل شریعت کورٹ کا یہ کیس سننے کا دائرہ کار چیلنج کیا تھا۔ یعنی حکومت نہیں چاہتی کہ سودی نظام کا خاتمہ ہو، یعنی حکومت نہیں چاہتی کہ فیڈرل شریعت کورٹ اس کیس کا فیصلہ کرے۔ فیڈرل شریعت کورٹ پہلے ہی اس اہم ترین معاملے کو گزشتہ دو دہائیوں سے لٹکائے ہوئے ہے اور اب موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ عدالت اس معاملے کو سنے ہی نہ۔ شریعت کورٹ میں اس دوران کئی جج آئے، چلے گئے، چیف جسٹس آئے، ریٹائر ہو گئے لیکن یہ اہم ترین کیس لٹکتا ہی رہا باوجود اس کے کہ سود کی ممانعت کے بارے میں اسلام کے سخت ترین احکامات موجود ہیں اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر گلہ نواز شریف سے ہے کہ اُنہوں نے 1992میں شریعت کورٹ کے سود کے فوری خاتمہ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اُسے چیلنج کر کے بڑا گناہ کیا تو یہی گناہ جنرل مشرف نے کیا اور اس فیصلے پر عمل درآمد کی بجائے سپریم کورٹ کے ذریعے اسے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ کو2001-02 میں ریمانڈ کر دیا کہ دوبارہ سے کیس سنا جائے۔ بجائے اس کے کہ شریعت کورٹ اس کیس کا فوری فیصلہ کرتی اُس نے اس کیس کو سننے کا ایسا طریقہ اپنایا کہ اٹھارہ انیس سال بیت گئے، کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور جو حالات لگ رہے ہیں اور جس انداز میں کیس چلایا گیا ہے، شاید اس کیس کے فیصلے میں بیس، تیس سال اور گزر جائیں باوجود اس کے کہ سود اور سودی نظام کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں پاکستانی اس گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی گزشتہ حکومتوں نے بھی اس کیس کا فیصلہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ سودی قرضوں کے اجراء کے فیصلے کیے۔ نواز شریف جب 2013میں الیکشن جیت کر وزیراعظم منتخب ہوئے تو اُن کے پاس موقع تھا کہ اپنے 1992کے فیصلے کے گناہ کا کفارہ ادا کرتے لیکن وہ اس دور میں لبرل اور پروگریسو بننے کے جنون میں کسی اور سمت نکل گئے۔عمران خان نے تو ریاستِ مدینہ کو اپنا رول ماڈل قرار دے کر پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا اور آج بھی اُن کی کوئی تقریر ریاستِ مدینہ کے حوالہ کے بغیر پوری نہیں ہوتی لیکن عمل دیکھیں تو پھر وہ سود اور سودی نظام کا اُسی طرح تحفظ کر رہے ہیں جس طرح اس غیراسلامی نظامِ معیشت کا تحفظ نواز شریف نے کیا تھا۔ عمران خان نے غریب اور متوسط طبقہ کے لئے بینک سے سودی قرضہ لے گھر بنانے کی اسکیم شروع کی جو پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اس گناہ کی دلدل میں مزید دھنسانے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے اسلام کو پڑھا اور اُس کا بار بار ذکر بھی کرتے ہیں لیکن اگر اس کے باوجود وہ سود کے گناہ کی شدت کو نہیں سمجھ سکے تو مجھے اس پر بڑی حیرانی ہے۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں