منی لانڈرنگ کیس، وزیر اعظم شہباز شریف ،وزیر اعلیٰ حمزہ شہبازکو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا

لاہور( پی این آئی)سپیشل جج سنٹرل نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں21مئی تک توسیع کر دی ۔سماعت کے دوران وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی گئی جسے منظور کر لیا گیا۔شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل میڈیکل چیک اپ کے لیے بیرون ملک ہیں، انہیں کمر درد کا مسئلہ درپیش ہے

، ہائیکورٹ نے پہلے بھی میڈیکل چیک اپ کے لیے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی اورشہباز شریف پہلے بھی علاج کے لیے بیرونِ ملک جاتے رہے ہیں۔شہباز شریف کینسر کے مریض،کافی عرصے سے طبی معائنہ بھی نہیں ہوا ،شہباز شریف نے 13مئی کو واپس آنا تھا تاہم کنسلٹنٹ نے میڈیکل چیک اپ کے لئے ہفتہ کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے کا وقت دیا ، اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے صدر کے انتقال پر تعزیت کے لئے ابو ظہبی بھی جانا ہے اس لئے تمام

شیڈول بدلنا پڑا، استدعا ہے ایک روز کیلئے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ آج پھر کارروائی آگے نہیں بڑھ سکے گی، شیڈول کی تاریخ اوپر نیچے کر دیتے ہیں آج معمول کی تاریخ نہیں تھی۔ایف آئی اے کے وکیل فاروق باجوہ نے کہا کہ میڈیکل گرائونڈ پر شہباز شریف کی حاضری معافی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ، لیکن مقدمے کی کارروائی کے لیے تمام ملزمان کا عدالت موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایف آئی اے کے وکیل نے

عدالت کو آگاہ کیا کہ میری عدالت میں پہلی پیشی ہے جس پر جج نے ریمارکس دئیے کہ میری عدالت کا ریکارڈ ہے ایک دن میں چالان کی کاپی فراہم ہوتی ہے اس کے بعد فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔وزیر اعظم کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں جن کمپنیز کا ذکر کیا گیا وہ ساری ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔شہباز شریف ان کمپنیوں کے کبھی ڈائریکٹر یا شیئرہولڈر نہیں رہے ان کے ذاتی اکائونٹ میں ایک بھی روپیہ موصول نہیں ہوا،

سابق دور حکومت میں بغیر تفتیش کے یہ مقدمہ درج کیا گیا۔جن گواہوں نے بیانات دئیے ان میں سے کسی نے جرم کے ارتکاب کے حوالے سے نہیں کہا ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ نے اپنے سامنے بیٹھ کر گواہوں کے بیانات لکھوائے۔جب گواہان کے بیان ریکارڈ کیے گئے اس وقت شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں تھے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی آر میں کیش بوائے کا ذکر ہے اس کو دیکھیں، جس پر شہباز شریف کے وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آر میں 25 ارب روپے کی

بات کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔اس دور حکومت جس میں وزیر داخلہ اس کیس کی فائل سامنے رکھ کر پریس کانفرنس کرتے تھے شہباز شریف کے خلاف ایسی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں آئی جس سے کیس ثابت ہونے کا امکان بھی ہو۔ایف آئی اے کے ریکارڈ اور چالان میں حقائق نہیں لیکن خواہشات ضرور ہیں، سابق حکومت کے کہنے پر ایف آئی اے نے بے بنیاد اور جھوٹا کیس بنایا،

یہ کیس سیاسی انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا۔شہباز شریف کے وکیل نے دعوی کیا کہ ایف آئی اے نے بدنیتی کی بنیاد پر کیس بنا کر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔معاملے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا میڈیا ٹرائل کیا گیا، ملازمین اور کمپنیوں کے اکائونٹس سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں ، مسرور انور ایک ملازم تھا جو کیش نکلواتا تھا لیکن پاکستان کے کس قانون کے تحت کیش نکلوانا جرم ہے ؟۔وکیل نے کہا کہ نیب بھی اسی معاملے پر تفصیلی تحقیقات کر کے

ریفرنس دائر کر چکا ہے، مقصود چپڑاسی کی بات کریں تو ایک ملزم ایک الزام میں کتنی بار جیل جائے گا، مقصود چپڑاسی کا نام نیب کی ریمانڈ کی درخواست میں لکھا گیا تھا۔امجد پرویز نے مزید کہا کہ نیب نے چھان بین کے باوجود کہیں نہیں کہا کہ مسرور انور نے رقم نکلوا کر شہباز شریف کو دی ،مقصود چپڑاسی اور مسرور انور کا نام تو جسمانی ریمانڈ کی دستاویزات میں بھی تھا۔قبل ازیں ایف آئی اے نے بینکنگ کورٹ میں ایف آئی اے نے چالان پیش نہیں کیاجب خطرہ ہوا کہ

عدالت کارروای کرے گی تو عبوری چالان جمع کروا دیا گیا اس سے قبل وفاقی ادارے کی جانب سے سات ماہ تک کوئی چالان جمع نہیں کروایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے پاس معاملے سے متعلق کوئی شہادت موجود نہیں تھی اسی وجہ سے وہ تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔یہ مقدمہ صرف میڈیا ٹرائل کیلئے تھا تاکہ وزرا ء ٹی وی پر بیٹھ کر میڈیا ٹرائل کرتے تھے۔سابق حکومت کا ایک ہی مقصد تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایک ہی مقدمہ میں مختلف عدالتوں میں پیش ہوں

اور ایف آئی آر کردار کشی اور سیاسی بیانیے پر کاٹی گئیں۔وکیل نے مزید کہا کہ سلمان شہباز بزنس کرتے تھے اور پاکستان کے کسی قانون کے تحت بزنس کرنا جرم نہیں ۔جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ سلمان شہباز جو اشتہاری ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ سلمان شہباز کو کس نے اشتہاری قرار دیا اس عدالت نے تو اشتہاری ڈکلیئر نہیں کیا ہے۔وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بے نامی ترسیلات پاکستان کے کسی قانون کی

جرم نہیں لکھا گیا،2017 میں بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ سامنے آیا تھا اس سے پہلے بے نامی ترسیلات جرم نہیں تھا۔جج نے استفسار کیا کہ ایک کلرک کیا تجارت کرتا ہے؟ وہ چینی کا کاروبار کھول کر بیٹھا ہے اس کی کیا وضاحت ہے، کلرک یہ کہہ کر بینک اکائونٹ کھلوائے کہ اس کا چینی کا کاروبار ہے اس کی کیا وضاحت ہے۔گنے کا کاروبار کرنے والے بھی اکائونٹ کھلواتے ہوئے یہی کہتے ہیں یہ کوئی جرم نہیں ،ایف آئی اے والے جعلی اکائونٹس کی بات کرتے ہیں۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالتی استفسار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جعلی اکائونٹس کی بات ہے تو یہ کیس ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، ایک ہی کیس میں ایک ہی الزام میں دو بار گرفتاری نہیں ہو سکتی۔عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم کی کارروائی موخرکرتے ہوئے شہباز شریف کے وکیل کو کیس سے متعلق بحث مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔دریں اثناء ایف آئی اے کے وکیل نے کیس کی تیاری کے لیے عدالت سے مہلت طلب کرلی

جس پر عدالت نے ایف آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیس کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے یا چل رہی ہے۔عدالتی استفسار پر ایف آئی اے کے وکیل نے کا کہنا تھا کہ مجھے کیس کے فیکٹس کے بارے میں ابھی مکمل نہیں معلومات ہے۔خصوصی عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 21 مئی تک توسیع کر دی۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف کی آشیانہ ہائوسنگ کیس میں بھی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی گئی جسے منظور کر تے ہوئے سماعت 21مئی تک ملتوی کردی گئی ۔

close