سلیم صافی نے ن لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت بڑوں بڑوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا

اسلام آباد (پی این آئی) سینئر صحافی سلیم صافی کا صبر بھی جواب دے گیا اور سب سیاسی پارٹیوں کے ’کارنامے‘ بیان کردیئے۔ اپنے کالم میں سلیم صافی نے لکھا کہ ’عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو یہ ورد کرتے رہے کہ ملک معاشی طور پر ان کی توقع سے زیادہ تباہ ہے۔

شہبازشریف کی قیادت میں زرداری، مولانا، خالد مقبول، اختر مینگل اور دیگر نے مل کر حکومت سنبھالی تو یہی دہائی دیتے رہے کہ ملک کو پی ٹی آئی نے جس طرح تباہ کررکھا ہے، وہ ان کے خدشات سے کئی گنا بڑھ کر ہے ۔ ذرا ملاحظہ کیجئے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنا جو ”سسٹم“ بنا رکھا ہے یہ کیا معمولی اذہان کا کام ہے؟ ”سسٹم“ بنانے کی بجائے اگر وہ یہ صلاحیت اور قابلیت سندھ کے عوام کی بہتری کیلئے استعمال کرتے تو کیا آج سندھ جنت نہ ہوتا؟۔ جو بڑے سیدھے سادے اور پاک بنے پھرتے تھے، وہ عمران خان کتنے چالاک نکلے۔ کتنی لابیوں سے ملے ہوئے تھے۔ کس اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے ۔ کس طرح جھوٹے بیانئے گھڑتے اور لوگوں کے اذہان میں بٹھاتے رہے ۔کس طرح اپنے ایک ایک محسن کو لتاڑا اور کس طرح ایک ایک مافیا کو نوازا ۔ مغربی طاقتوں کی اس طرح خدمت کی کہ اپنے عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو ان کا مخالف بناکے رکھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو دیکھ لیجئے۔ ڈیڑھ سال حکومت کی ۔ اپنے کیسز ختم کرائے۔ حکومت سے رخصت ہوتے ہوئے بھی بیوروکریسی کو قابو میں رکھنے کیلئے نگران سیٹ اپ اور بیورکریسی میں اپنے بندے چھوڑے کہ وہ بعد میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں۔ محترم مولانا صاحب کو دیکھ لیجئے ۔ مرکز میں اپنے لئے استحقاق سے زیادہ لیا۔

خیبر پختونخوا پر نگران کے نام پر سوا سال حکومت کی اور حقیقت یہ ہے کہ سوا سال میں پانچ سال کا کام نکال ڈالا۔ باہر بڑے انقلابی اور جمہوریت پسند بنے پھرتے ہیں لیکن اندر سے گزشتہ چار سال (مسلم لیگ، پی پی پی ، جے یو آئی اور پی ٹی آئی) کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا بننے کا مقابلہ جاری رہا۔ عمران خان نے دو قدم آگے بڑھ کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ سپورٹ کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل بھی کیا لیکن ہدف سویلین بالادستی نہیں بلکہ یہی تھا کہ مجھے ماضی کی طرح دوبارہ گود لے کر اقتدار دلوادے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جے یوآئی کے درمیان بھی یہ میچ زوروں پر رہا کہ کون زیادہ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے ۔ بظاہرانقلابی نظرآنے والے قوم پرست بھی کچھ کم نہیں لیکن درپردہ ان کا کردار باپ پارٹی جیسا ہوتا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے چینل سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہ کر چہیتا بننے کی کوشش کرتا ہے تاہم عوام کے سامنے یا میڈیا میں ایسا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے سویلین بالادستی کے اصل چیمپئن وہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ذمہ داری کا تعین کیا جائے تو ملک کو معاشی اور معاشرتی حوالوں سے تباہ کرنے میں جرنیلوں اور ڈکٹیٹروں کا حصہ سیاستدانوں سے زیادہ ہے جبکہ ملک کو حالیہ تباہی سے دوچار کرنے والی سونامی کا پروجیکٹ بھی جرنیلوں نے شروع کیا تھا ، جس کی ملک کے ساتھ ساتھ اب خود ان جرنیلوں کے وارث بھی بھاری قیمت چکارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی رہنما بھی رہنما کہلانے کے حقدار نہیں رہے۔

سب نے اپنی اپنی باری گزار دی اور اب عوام کو بھاری بجلی بلوں، مہنگائی، دہشت گردی اور نگران حکومت کے سپرد کرکے ہر ایک اگلی مرتبہ اپنی باری کو یقینی بنانے میں لگ گیا ہے۔ بلکہ اگلی باری کی تیاری کیلئے چھٹیوں پر چلے گئے ہیں۔ ادھر بجلی کے اور مہنگائی کی وجہ سے عوام سڑکوں پر ہیں۔ادھر نگران حکمران سرجوڑ کے بیٹھے ہیں کہ کریں تو کیا کریں لیکن کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی منصوبہ عمل اور نہ اس کی فکر ہے۔ اس لئے آرمی چیف بڑے سیٹھوں سے ملاقاتیں کرکے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ یہی سیٹھ ہر سیاسی اور فوجی حکمران کو اپنے دام میں لاکر اپنی معیشت کو مضبوط اور ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرچکے ہیں اور اب بھی ہمہ وقت ہر حکمران اور بیوروکریٹ کو گمراہ کرنے اورکرپٹ بنانے میں مگن رہتے ہیں‘۔

close