حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، خاموش انقلاب، پروین رحمان اور خوابیدہ ضمیر کا موسم

اختر حمید خان کے درویشوں کے قافلے نے پاکستان میں ایک خاموش انقلاب برپا کیا۔ چوری اور کام چوری کی اخلاقیات کا توڑانہوں نے ادفع التی ھی بالاحسن – یعنی احسان کی اخلاقیات سے کیا۔ مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں جتنی جنگیں تلوار اور بندوقسے ہاری ہیں وہ علم سے جیتی ہیں ۔ مغلوں کی تلوار جو جنگ ہار گئی محمد علی جناح کے علم نے وہ جنگ جیت لی ۔ پاکستان کےاندر بھی ترقی ، انصاف اور وقار کی جنگ جیتنے میں جو کامیابی بندوق کو حاصل نہیں ہوئی وہ علم کے ذریعے حاصل ہوئی ہے –

لیکن ہمارے چائے خانوں کے باسیوں تک یہ کہانیاں ابھی تک نہیں پہنچیں کیونکہ یہ ڈرامائی طریقے سے نہیں، صبر ، مشقت،انکساری اور گمنامی کے پردے میں واقع ہوئی ہیں۔ پاکستان کے خاموش انقلابیوں کا طریقہ خانقاہی طریقہ تھا اور اُنہوں نے اپنےماتھے پر شعلہ انگیز انقلابیت کا لیبل نہیں چپکایا تھا۔ اس انقلاب کی کہانی علامہ اقبال کے محاورے میں غریب و سادہ و رنگیں ہے۔

علم اور جستجو کے اس سفر میں پروین رحمان نے ایک سادہ اور لاجواب معرکے کا آغاز کیا۔ پروین کا خیال تھا کہ نا انصافی کےمعمے کی گُتھیاں سلجھانی ہیں تو نقشہ بنائیں۔ یہ ایک نہایت ہی غیر انقلابی، غیر دانشورانہ اور غیر ولولہ انگیز قسم کا خیالدکھائی دیتا ہے۔ نہ آستینیں چڑھانے کی بات ہے، نہ مُنہ سے جھاگ نکلتی ہے۔ نہ گروہ باطل پر عذاب بھرے کلمات کی یلغار ہوتی ہے۔یہ تو بہت معمولی، بے ضرر ، ڈھیلا ڈھالا سا کام ہے جو “انقلابیوں” کے شان شایان نہیں۔ لیکن یہ وہ ہتھیار تھا جس سے ماؤزے تُنگکی زبان میں “ بیوقوف بوڑھے نے پہاڑ گرا دیے”۔ ذرا توجہ کی زحمت فرمائیے۔ سادہ زبان میں پروین کا پیغام یہ تھا کہ “انقلاب” لاناہے تو پانی بنیں آگ نہ بنیں ۔ خواجہ فرید سرکار کی زبان میں “ زیر بن ، زبر نہ بن ، متاں پیش آندی ہووی “۔ اختر حمید خان کےقافلے کے درویشوں کی زنبیل میں اسی طرح کے اور اوزار بھی تھے۔

پروین رحمان نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنی تمام زندگی کراچی اور اُس کے گرد و نواح میں نقشے بنانے میں گزاری۔ نوجوانوں کواُنہوں نے ایک خواب بُننے کی دعوت دی۔ “نقشہ بنانے والے ننجا ٹرٹل بن جاؤ”۔ بھلا نقشہ بنانے میں کیا خاص بات تھی۔ سُنئیے لیکنسر نہ دھُنئیے، ننجا ٹرٹل بن جائیے۔ 1982 سے 2013 کے درمیان پروین نے کراچی میں واقع 500 کچی آبادیوں اور 2000 دیہیآبادیوں کے نقشے تیار کروائے۔ اُن نقشوں کی مدد سے اُن بستیوں کے لاکھوں مکینوں کو مالکانہ حقوق ملے اور سرکاری فائلوں میں اُنکی ملکیت کے کاغذات جمع ہو گئے۔ نقشے بننے سے پہلے ان کے مکینوں کا بیان انور راشد کی ایک نظم میں ایسے آیا ہے۔

 

در ہی در ہے ہمارے چاروں طرف

در تو ہے کوئی گھر نہیں ہے

سوچئے تو یہاں پہ سب کُچھ ہے

دیکھنے کو مگر نظر نہیں ہے

قتل ہوتا رہا ہے روز و شب

شہر میں کوئی ڈر نہیں ہے

خوف سے ہو گیا ہوں میں بے خوف

جیب میں کوئی زر نہیں ہے

آپ کہتے ہیں تو نذر کرتا ہوں

پیش کرنے کو سر ہے زر نہیں ہے

 

1992 میں کراچی واٹر اور سیوریج بورڈ نے ایشیائی ترقیاتی بنک سے اورنگی میں سیوریج ٹرنک لائن بچھانے کے لئے 130کروڑ روپےکاقرضہ مانگا۔ پروین نے اپنے نقشوں کی مدد سے اُس کی لاگت کم کر کے 36 کروڑ روپے کروا دی۔ کورنگی واٹر ویسٹ مینیجمنٹپروگرام کی لاگت 10 کروڑ ڈالر سے کم کر کے 3 کروڑ ڈالر کروا دی۔ کراچی واٹر اور سیوریج بورڈ نے کچی آبادیوں کو پانی کیفراہمی کے لئے قرضہ مانگا تو پروین نے پانی کی لائنوں کا نقشہ بنایا اور 272 جگہوں سے پانی کی چوری کی نشاندہی کی۔ اُن میںایک تھانہ بھی تھا۔ اور بتایا کہ اس وقت شہر میں 10,000 سے 12000 ٹینکر روزانہ چوری کا پانی بیچتے ہیں۔اور اس سے سالانہ49.6 ارب روپے کماتے ہیں۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سالانہ 5.3 ارب روپے خرچ کرتا ہے اور اپنی نا اہلی کی وجہ سے 2.5 ارب روپےوصول کرتا ہے۔اور 18.6 ارب روپے کے قرضے اس نے ادا کرنے ہیں۔اگر پانی قانونی طریقے سے بیچا جائے تو بورڈ کو سالانہ کوسالانہ 44.7 ارب روپے کی بچت ہو گی۔۔پروین نے غریب بستیوں کی پیاس بُجھانے کے لئے جو کام کیا اُس نے واٹر مافیا کے دلوں میںپروین کے خُون کی پیاس پیدا کردی۔ کروڑوں لوگوں کی زندگی میں یہ خاموش انقلاب قلم سے برپا ہوا بندوق ، تقریر ، سوشل میڈیا پرلعن طعن یا جلسوں کی گھن گرج سے نہیں ہوا-

یہ انقلاب بہت سوں کو اس لئے دکھائی نہیں دیا کہ اختر حمید خان کہتے تھے کہ جب بچے کا دُودھ کا دانت گر رہا ہوتا ہے تو نیچےسے ایک دوسرا دانت اُگ رہا ہوتا ہے۔ لوگ اوپر کا دانت دیکھتے ہیں نیچے کا دانت نہیں دیکھتے۔ اختر حمید خان کہتے تھے کہ کراچیغریب کی ماں ہے۔ اور کراچی کی غریب بستیوں نے کہا پروین کراچی کی ماں ہے۔ پروین نے اپنے نقشہ نویس قلم سے لوٹ کھسوٹ کےدروازے بند کئے تو واٹر مافیا نے جوابی کاروائی کی۔کراچی کے واٹر مافیا نے جب پروین کو قتل کیا تو مقدمہ عدالت میں گھسٹ رہاتھا۔ میں نے پورے پاکستان سے 6000 لوگوں کے دستخط لے کر چیف جسٹس کو بھجوائے کہ پروین کے قتل کی تحقیقات کے لئےجوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔ عدالت نے کمال مہربانی سے کمیشن قائم کر دیا۔ پروین کے ہمراہیوں میں کراچی کی بہت سی غیرسرکاری تنظیمیں ، میڈیا، قاضی فائز عیسی جیسے قانون دان اور عوام سے محبت کرنے والے ماہرین تھے ۔

پروین نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال مشرقی پاکستان میں گزارے اور تعلیم کے آخری سال کراچی میں ۔ اپنی ہجرت اور شہادت کےدرمیان کا تمام عرصہ پروین نے بے گھر غریبوں کی خدمت میں گذارا۔ اُس کا گھر بار یہ بے گھر لوگ ہی تھے۔ کراچی سے کشمیر تکجہاں بھی اُسے لوگوں کے گھر اُجڑتے نظر آئے وہ وہاں مدد کے لئے پہنچ گئی ، اپنا مسکراتا چہرہ ، روشن دماغ اور دردمند دل لئے۔اُس نے اپنا گھر نہیں بسایا۔واٹر مافیا کے اشارے پر پہلے پروین کے قتل کا الزام طالبان پر ڈالا گیا-بہت مہینوں بعد اصل مجرم گرفتارہوئے۔ سزا ہوئی۔ وہ پھر باہر دندنا رہے ہیں۔ شاید کراچی کا ضمیر سو گیا ہے اُس عورت کو انصاف دیتے ہوئے جس نے دسیوں لاکھوںکی قسمت جگائی تھی۔ کوئ ہے نقشہ بنانے والا جو کمین گاہ سے قتل گاہ تک کا نقشہ بنا کر عدالت عالیہ تک پہنچا سکے۔ تاکہ انصاف اپنا راستہ تلاش کر سکے۔۔۔۔۔

close