حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، ہم کیا کریں ؟

ہماری لڑائی ریاست کی قوت سے نہیں ہے اپنے خوف سے ہے۔خوف کا توڑ علم میں ہے۔ جنگ کے معاملات کے ماہر سُن زُو کا قول ہے کہ اگر تم اپنے آپ کو جانتے ہو اور اپنے حریف کو جانتے ہو تو تُم جنگ کئے بغیر فتح حاصل کر سکتے ہو۔ پاکستان کے لوگوں کا اصل معرکہ ریاست کے اداروں کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرنے کا معرکہ ہے۔ ریاست عوام کے بغیر کُچھ نہیں کر سکتی اور عوام حکومت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ریاستی اداروں میں بد انتظامی اور چور بازاری اس لئے ہوتی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے چوری ہوتے دیکھتے ہیں اور آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ہمیں اپنی قوت کا پتہ نہیں ہے۔ہم اپنی ریاست کے مالک نہیں بن رہے۔

ہماری ریاست ایک ادھوری ریاست ہے اور ہمارے ریاستی ادارے انار کی میں کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنی اہلیت اور وسائل سے کم کاردکرگی دکھا رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہمارے کسی بھی شہر کی حکومت کے پاس اپنے شہر کا مکمل نقشہ تک موجود نہیں ہے۔ کوئی بھی ترقیاتی کام نقشے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ اُنہیں کرنے کے قابل نہیں ہے۔ نقشے نہ ہونے سے ہی چور بازاری کا راستہ نکلتا ہے-نقشے کی بُنیاد پر ہر ترقیاتی منصوبے کا بجٹ بنتا ہے۔ نقشہ نہ ہو تو بجٹ بڑھا چڑھا کر بنایا جاتا ہے اور پیسہ کھایا جا سکتا ہے- شہریوں کے پاس نقشہ ہو، اور سرکاری بلیو بُک اور ریٹ لسٹ ہو تو وہ بجٹ اور پروکیورمنٹ کی چوری پکڑ سکتے اور سرکاری محکموں کو مکالمے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ یہ کام نعروں ، جلسے جلوسوں اور سوشل میڈیا سے نہیں ہو سکتا۔
پروین رحمان نے بتایا ہے کہ جب غیر ملکی ماہرین آ کر پروجیکٹ بناتے ہیں تو اُنہیں لوگوں کے بنائے ہوئے انفراسٹرکچر کا علم ہی نہیں ہوتا۔ غریب بستیوں میں لوگوں نے 80 فیصد انفراسٹرکچر خود بنایا ہوتا ہے۔ اُس کی قیمت پروجیکٹ میں لگانے سے پروجیکٹ کی لاگت میں کروڑوں روپوں کا فرق پڑ جاتا ہے۔ شہریوں کے اداروں کو نقشے اور دیگر حقائق معلوم ہوں تو وہ حکومت سے مکالمہ کر سکتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں اسی طرح کے حقائق کی مدد سے ایشین ڈویلپمینٹ کا 100 ملین ڈالر کا قرضہ منسوخ کروایا تھا- اس مہم کی رُوح رواں پروین رحمان تھیں۔اس لئے مذاکرات اور مکالمے سے حکومت سے کام لیا جا سکتا۔ ہمارے ریاستی ادارے ہمارے دُشمن نہیں نا اہل ہیں- اس لئے ان سے لڑ کر نہیں میز پر بیٹھ کر بازی جیتی جا سکتی ہے۔

ہمارے سرکاری محکمے ٹیکس لگانے اور وصول کرنے میں نا اہل ہیں ۔ ٹیکس کی آمدنی کم ہونے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کم ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت معیشت کی قلمبندی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت ناقص اعداد و شمار کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے بناتی ہے۔ حکومت لوگوں سے مکالمہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔اُن تمام ناکامیوں پر شہریوں کی مدد کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا-حکومت اس لئے اُلٹے راستے پرچل رہی ہے کہ ہم سر جھکا کر اس کے غلط صحیح احکامات مانتے رہتے ہیں۔ حکومت کے اندر ایماندار اور دردمند لوگوں کا ساتھ نہیں دیتے ۔ آپس میں ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے۔ نا جائز کاموں پر تعاون کرنے سے انکار نہیں کرتے اور چائے پانی کے علاوہ حکومت سے تعاون کرنے کا کوئی اور طریقہ ماننے اور سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ چائے پانی کیوں؟ ایک افسر، یا اہلکار سے بات منوانا آسان ہے۔ سب سیاستدانوں سے غریبوں کے حق میں متفقہ قانون بنوانا مشکل ہے۔ ہماری اشرافیہ نے سرکاری اور سیاسی عُہدوں کو عوام کی خدمت کرنے کی بجائے نجی کاروبار کرنے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اس لئے وہ آسانی سے دلیل اور تعاون کے ذریعے عوامی مفاد میں قانون بنانے اور اُس پر عمل کرنے پر متفق نہیں ہوتی ، لیکن بھتہ لے کر اپنے دائرہ اختیار میں نرمی کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ عوام کی دی ہوئی اقتدار کی امانت غصب کرنے کا توڑ کیا ہے ۔ اس کا نہایت خوبصورت جواب امریکی کھلاڑی آرتھر ایش۔ نے اس طرح دیا ہے۔ جہاں ہو وہاں سے کام شروع کرو۔ جو وسائل ہیں اُنہیں کام میں لاؤ اور جو کر سکتے ہو وہ کرو۔ پروین رحمان نے اُس کی عملی شکل بتائی ہے۔ نقشہ بنائیں، سنگت بنائیں، لوگوں سے پُوچھیں وہ کیا چاہتے ہیں اور جمع تفریق کریں۔ یہی لڑائی کا طریقہ ہے۔ لڑائی جہالت اور نا اہلی سے ہے اپنی ریاست سے نہیں۔ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا طریقہ سیکھیں۔۔۔۔

close