سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکی چہ معنی دارد ! سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم، بشکریہ روزنامہ 92

حال ہی میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پاکستان کو خبردار کیا کہ اگر بھارتی سرحدوں کی خلاف ورزی ہوئی تو وہ مزید سرجیکل سٹرائیکس کریں گے۔ دوٹوک الفاظ میں انہوں نے کہا :مذاکرات کا کوئی وقت نہیں، صرف جوابی کارروائی کی جائے گی۔ یہ بیان اس وقت آیا جب کنٹرول لائن کے قریب پونچھ میں بھارتی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین کئی دونوں تک مسلسل جھڑپیں جاری رہیں۔ سری نگر شہراور اس کے نوع میں کئی ایک شہری ہلاکتیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ گنجان آباد علاقوں جیسے شوپیاں اور ترال میں بھی مسلح تصادم ہوا۔

گزشتہ دو ہفتوں میں 31 افراد ہلاک ہوئے جن میں سات بھارتی فوجی اور تیرہ عسکریت پسند شامل ہیں۔ ردعمل میں بھارتی افواج نے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کردیا جس میں 700 سے زائد شہریوں کو چند افراد کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کا بدلا لینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا ۔ حراست میں لیے گئے افراد میں تین سوسے زائد نوجوان ہیں۔جنہیں یقینا تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ حالیہ جھڑپوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور خاص طور پر سری نگر شہر تشدد سے پاک علاقہ نہیں جیسا کہ بھارتی حکام فخر یہ دعوی کیا کرتے تھے۔ کچھ حملے سری نگر شہر کے وسط میں ہوئے،جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن کے قیام کا ڈھنڈورا محض بیان بازی تھاجس کا اب بھرم ٹوٹ گیا ہے۔پانچ اگست کی آئینی تبدیلیوں کے بعد کشمیر پر ایک پراسرار خاموشی طاری تھی جو اب ہوا ہوچکی ہے۔پاکستان کے برعکس بھارتی میڈیا میں کشمیر ایک بار پھرموضوع گفتگو ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری پرتشدد واقعات سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ رواں سال فروری میں جنگ بندی کے بعد بیک چینل رابطوں کے باوجودپاکستان اور بھارت سفارتی تعلقات بحال کرنے اور کشمیر کے دیرینہ مسئلے پر بات چیت کا عمل شروع کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں ۔ دوست ممالک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خاموش سفارتکاری دونوں کے مابین کشیدگی،بداعتمادی اور سردمہری کی برف پگھلا نہ سکی۔بی جے پی حکومت ان پرتشدد واقعات کو داخلی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اسے ہندو مسلم تنازع کا رنگ دیتی ہے کیونکہ حالیہ حملوں میں چند ایک ہندو اور ایک سکھ بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہی۔ یہ حقیقت بری طرح نظرانداز کی جاتی ہے کہ اس سال 28 عام شہری مارے گئے جن میں سے 21 مسلمان تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثریتی برادری کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا لیکن بھارتی میڈیا اور سیاستدان بھول کر بھی عام کشمیریوں، خاص طور پر مسلمانوں کے جانی نقصان پر ہمدردی کا اظہار نہیں کرتے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انسانی سانحات کو مذہبی عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔کشمیر میں رفتہ رفتہ ہندو اور مسلمان کے نقطہ نظر سے سیاست کو دیکھنے کا چلن عام ہورہاہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے 16 اگست 2019 کو بی جے پی کی سیاسی فکر کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا: ”کشمیر کا بحران کسی خطہ زمین سے متعلق نہیں ۔یہ اسلام پر ہندوؤں کی فتح کے معاملہ ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلم اکثریتی ریاست کو ہندو طاقت کے مظاہرے کے طور پر استعمال کیا‘‘۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں ہندو مسلم خلیج نہ صرف تیزی سے گہری ہو رہی ہے بلکہ آہستہ آہستہ دونوں کمیونٹیز مختلف اور متحارب راستے پر چلنا شروع ہوچکی ہیں۔عالم یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے حال ہی میں لوگوں کو مشورہ دیا کہ تمام مسلمان ووٹر جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں۔فروری کی جنگ بندی نے سفارتی اور تجارتی تعلقات دوبارہ شروع کرنے کا ایک تاریخی موقع فراہم کیا تھا لیکن بھارت نے تنازعہ کے حل کے بجائے کشمیر میں طاقت کے استعمال کے ذریعے شہریوں کی آواز کو دبایا۔مودی حکومت نے ان وعدوں کا پاس نہیں کیا جو کسی تیسرے فریق کے ذریعے یا بیک چینل میں کیے گئے تھے۔مثال کے طور پر جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی، آبادی کا تناسب بگاڑنے کی کوششیں بند کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنا شامل ہیں۔ وعدوں کے برعکس جنگ بندی کے بعد کی پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ بھارت نے زندگی کے تمام شعبوں میں انتظامی اور قانونی تبدیلیاں کرنے میں مزید سرعت دکھائی۔ اسی طرح فوجی کارروائیوں کو بھی تیز کیا ۔حتیٰ کہ گزشتہ چند مہینوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میںکمی کے بجائے تیزی آئی۔ سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی جیلوں میں ہے جن میں یاسین ملک، شبیر شاہ اور 76 سالہ میاں عبدالقیوم ایڈووکیٹ شامل بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن ان کی رہائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔یہ حقیقت اب عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی ہے کہ کشمیر ی آزادی کے ساتھ اپنی رائے تک کا بھی اظہار نہیں کرسکتے۔ریاستی جبر کے خوف سے سوشل میڈیا پر اپنے روز مرہ کے مسائل کا اظہارکرنا آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔کہاجاتاہے کہ تقریبا 10ہزارشہریوں کی نقل وحرکت کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔اسرائیل نے بھارت کو ایسے آلات دیئے ہیں جو موبائل فون ہی نہیں بلکہ واٹس ایپ تک بھی سرکارکی رسائی کو ممکن بناتے ہیں۔بھارت کے معروف نیوز میگزین فرنٹ لائن نے 22 اکتوبر 2021 کی اشاعت میں کشمیر کی صورتحال کوبڑے درست انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھا :سیاسی خلا پیدا کر کے نئی دہلی نے نوجوان کشمیریوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ ان کے پاس اپنی شکایات بیان کرنے یا اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت جموں و کشمیر پر بندوق کی نوک اور کئی سخت اقدامات کے ذریعے حکمرانی کرتی ہے۔ کشمیر پر بھارتی پالیسیوں سے اندازہ ہوتاہے کہ بیک چینل گفتگو یا تیسرے فریق کی ثالثی کی کوششیں بی جے پی حکومت کو کشمیر کے بارے میں اپنے نظریاتی ایجنڈے پر عمل کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کشیدگی اور پاک بھارت تناؤ کا ایک بڑا ٹھیٹرکشمیر ہوگا۔ یہ سوچنا بے وقوفی ہے کہ کشمیر کا باب بند ہوچکا ہے۔ اگر یہ مسئلہ طویل عرصے تک حل نہ ہوا تو یہ ایک خطرناک موڑ لے سکتا ہے۔یہ خالصتاً مذہبی مسئلہ بن سکتاہے۔ اور اسے حل کرنا اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

close