کثیرالجہت شخصیت صفدر ھمدانی کی ادب کہانی، تحریر و تحقیق: ظفر معین بلے جعفری

کہتے ہیں کہ ہرمرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہم محترم صفدر ہمدانی کی کامرانی کودیکھیں تو اس حقیقت کوتسلیم کئے بغیرکوئی چارہ نہیں کہ ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے پیچھے محض ان کی جیون ساتھی کاہاتھ نہیں بلکہ وہ سرتاپا کارفرمانظرآتی ہیں۔ اور ہمارے محترم صفدر ہمدانی صاحب کسی جھجھک کے بغیر برسر محفل اس حقیقت کے معترف بھی دکھائی دیتے ہیں ۔

محترم صفدر ہمدانی ایک زندہ دل ادبی شخصیت ہی نہیں ، ایک جیتی جاگتی محفل اور متحرک ادارہ بھی ہیں۔ ادب ، ثقافت ، صحافت ، براڈ کاسٹنگ ، صداکاری ، تحقیق ، مرثیہ خوانی ، ریڈیو اکیڈمی کے استاد اورسفر نامہ نگاری کی دنیا میں انہوں نے جونام، مقام اور احترام کمایا ہے ، وہ ہماری تاریخ کاایک تابناک باب ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ادب ، ابلاغیات اور براڈ کاسٹنگ کے جن جن شعبوں میں محترم صفدر ہمدانی صاحب نے قدم رکھا، وہاں ایسے نقوش ثبت کئے ہیں، جو ان شعبوں میں نئے آنے والوں کو نئی راہیں سُجھارہے ہیں ۔مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ محترم صفدر ہمدانی کا نام اورکام ایسا ہے ، جس کے ذکر ِ خیر کے بغیر ہماری ابلاغیات ، نشریات اور منقبت نگاری کی تاریخ مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔

دنیائے ادب و نشریات میں محترم صفدر ہمدانی اور محترمہ مہ پارہ صفدرکی جوڑی مشہور بھی ہے اور معروف و مقبول بھی۔ جیون بندھن میں بندھنے سے پہلے یہ مہ پارہ زیدی تھیں اور پی ٹی وی پر اسی نام سے انہوں نے نیوز کاسٹر کی حیثیت سے شہرت سمیٹی ۔دونوں نے 1979میں ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر اورشانے سے شانہ ملاکر اکٹھے سفر شروع کیاتو مہ پارہ زیدی مہ پارہ صفدر بن گئیں اور اب انہیں دنیااسی نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔یہ ان دونوں کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں جیون ساتھی بھی انہی کی دنیاکا ملا۔اس ادبی جوڑے کی خصوصیات اور پس منظر میں بھی بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔ دونوں کابُرج یعنی عقرب ایک ہی ہے۔ یہ دونوں نومبر کے مہینے میں لاہور میں پیداہوئے۔دونوں کو ادبی ذوق و شوق ورثے میں ملا ۔ صفدر ہمدانی صاحب کاذکرہوگا بعد میں ۔پہلے بات ہوجائےمحترمہ مہ پارہ صفدراور ان کےحسب نسب کی۔ ان کے والد محترم سید حسن عباس زیدی شاعر، ادیب اوراستاد تھے ۔جبکہ ان کی والدہ ماجدہ سیدہ شمس الزھرہ نے سوزخوانی میں نام اور مقام کمایا۔میڈم مہ پارہ صفدر نے انگریزی ادبیات میں ایم اے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ اوراسی دوران ریڈیو پاکستان پر یونیورسٹی پروگرامز میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔حوصلہ افزائی پرریڈیو پاکستان لاہور میں متعدد شعبوں میں پروگرام کیئے اور یہیں سے پاکستان ٹی وی لاہور مرکز پر نیوز کاسٹنگ کے لیئے منتخب ہو گئیں اور اس شعبے میں ابصار عبدالعلی اور عزیز الرحمٰن نے انکی رہنمائی کی ۔بعدازاں لاہور کے بعد وہ پی ٹی وی کی قومی نشریاتی اسکرین پر نیوز کاسٹر کی حیثیت سے جلوہ گرہوئیں ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں کوئی پرائیویٹ ٹی وی چینل متعارف نہیں ہواتھا ،لہذاملک بھر میں جلد ہی ان کاایک نام اور مقام بن گیا۔عالمی سطح پر اپنے پیشہ ورانہ جوہردکھانےکیلئے یہ جوڑا برطانیہ چلاگیا، جہاں یہ دونوں میاں بیوی بی بی سی اردو سروس سے منسلک ہوگئے۔ صفدر ھمدانی ٨٩ میں چار سال کے لیئے ماہر لسان کے طور پر ریڈیو جاپان گئے تو ٩٠ جنوری میں ماہ پارہ بی بی سی لندن کی اردو سروس سے وابستہ ہو گئیں جہاں نشریاتی ادارے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ مہ پارہ صفدر نے لندن یونیورسٹی سےوویمن اسٹڈیز میں ماسٹرکی ڈگری بھی لے لی ۔ جاپان سے ٩٢ میں صفدر ھمدانی جاپان سے لندن آکر بی بی سی سے وابستہ ہو گئے اوریہ جوڑا آگاہی کے اجالے پھیلاتا رہا۔اس نامور جوڑے کا شعبہ ایک ہونے اور ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئیں ۔

صفدر ھمدانی نے جاپان کی وزارت خارجہ میں افسران کو ارود پڑھانے کا کام کیا اور اسی طرح برطانیہ کے سرکاری حکام کو بھی اردو پڑھاتے رہے

محترم صفدر ہمدانی صاحب ایک قدآور ادبی شخصیت ہیں ۔ان کےقدو قامت کو دیکھنے کیلئے مجھے دونوں ہاتھوں سے اپنی ٹوپی سنبھالنی پڑتی ہے۔میں ان کے کام اورکلام سے فیض یاب تو ہوتارہاہوں لیکن اس کاناقدانہ جائزہ لینا میرا منصب نہیں۔انہوں نے جوکام کیا ہے ،وہ کوئی شخصیت تن ِتنہا کرہی نہیں سکتی۔حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ایک شخص بیک وقت کامیابی کےساتھ بہت سے راستوں پر سفر کیسے کرسکتا ہے؟اور انہوں نے یہ ہمیں کرکے دکھایاہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی شعبے میں کسی نےاہم کارنامے انجام دئیے ہوں اور دنیااُسے برگدکاپیڑ قراردینے پر مجبورہوتوایسی شخصیت کے زیرسایہ پودے پروان نہیں چڑھتے لیکن یہ بات محترم صفدر ہمدانی نے غلط ثابت کردی ہے ۔ وہ ایک ایسے بڑے باپ کے فرزند ِ ارجمند ہیں، جنہوں نےبراڈ کاسٹنگ کی دنیامیں بھی صف ِ اول کی شخصیات کی امامت کااعزاز اپنے نام کیا۔ قیام ِ پاکستان کے بعد ہواکے دوش پر جوپہلی آواز دور دور تک لوگوں تک پہنچی ،وہ ہمارے صفدر ہمدانی صاحب کے والد بزرگوار محترم مصطفیٰ ہمدانی ہی کی تھی ۔13اور14اگست 1947کی درمیانی رات 12بجے انہوں نے ریڈیوپاکستان لاہور سے پاکستان کے قیام اورغلامی سےآزادی کااعلان کیا تھا۔اسی کی بنیاد پر اپنے والد بزرگوار مصطفیٰ ہمدانی کو محترم صفدر ہمدانی نےبڑے خوبصورت انداز میں سلامی دی ہے ۔

ہم مناتے ہیں جو یہ روز سعید
سچ تو یہ آزاد لوگوں کی ہے عید
قبر میں تا حشر صفدر اس کی نور
صبح ِ آزادی کی دی جس نے نوید

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ محترم مصطفی ہمدانی براڈ کاسٹنگ کے دنیا میں برگد کا ایک گھنا اور سایہ دار پیڑ تھے اور ایک ایسا پیڑ تھے ،جس کے نیچے بہت سے تن آور پیڑ پروان چڑھے اور ان میں ایک نام محترم صفدر ہمدانی کابھی ہے۔ وہ اپنے والد بزرگوار کے نقش ِ قدم پر چلےاوربراڈکاسٹنگ کی دنیا میں متعدد شاگرد پیدا کیئے۔ انہوں نے پانچ برس تک ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی میں نشریات کے طلبا کی تربیت کی اور اس دور میں ملک بھر میں ریڈیو پاکستان کے مراکز کے سربراہ انکے شاگرد رہے جن میں سے بڑی تعداد اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں

صفدر ھمدانی نے نشریات و صحافت ہی میں نہیں،گلشن ِ ادب میں بھی رنگ جماتے،خوشبو لٹاتے اورفکروخیال کی روشنی سے اذہان و قلوب کو جھلملاتے نظرآرہے ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توانائیوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان کاسفر تیز تر ہوگیا ہے ۔ بات ہورہی ہے محترم صفدر ہمدانی کی لیکن ان کامرتبہ جاننے کے لئے محترم مصطفیٰ ہمدانی کا مقام جانے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ادبی تنظیم قافلے کے پڑاو میں معروف ٹی وی کمپئیرطارق عزیز کو میرے والد گرامی سید فخرالدین بلے نے ٹی وی کا مصطفیٰ ہمدانی قراردیا تھا اور ان ریمارکس پر طارق عزیز نے کہا تھا کہ آپ کا یہ کہنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ جیسے ریڈیو پاکستان کی نشریات کےآغاز کا سہرا محترم مصطفیٰ ہمدانی کے سر ہے، بعینہ طارق عزیز نے پاکستان کی ٹی وی نشریات شروع کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا ۔ بلاشبہ محترم صفدر ہمدانی برگد کے چھتنار پیڑ کے زیر سایہ پروان ضرور چڑھے ہیں لیکن اب خود ایک برگد کا چھتناراورتناور پیڑ بنے ہوئے ہیں ۔ ان کے سائے میں ان گنت پودے پلے اور پروان چڑھے ہیں ۔ وہ اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کے قد بڑھتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ باصلاحیت نوجوانوں کی ہمت بندھاتے ہیں۔ ان کی فکری رہنمائی کرتے ہیں۔ انہیں ساتھ لے کر چلتے ہیں اور اپنے عالمی اخبار کے صفحات کو انہوں نے ان مقاصد کیلئے بھی وقف کررکھا ہے ۔ یہ پھل دار پیڑ اور اعلیٰ طرف انسان کی نشانی ہوتی ہےکہ وہ ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔محترم صفدر ہمدانی صاحب کی عاجزی اورانکساری دیکھ کر مجھے اپنے والد بزرگوارسیدفخرالدین بلےکایہ شعر یادآرہاہے۔

پیڑ نعمت بدست و سر خم ہے
ہے تفاخر بھی انکسارکےساتھ

کبھی کبھی مجھے لگتاہے بہت کچھ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا اورادب کا جہان ہوکربھی خود کوایک معمولی انسان اور طالب علم سمجھنابھی ایک ایسا وصف ہے ،جس نےمحترم صفدر ہمدانی صاحب کی عظمت کوچارچاند لگارکھے ہیں۔

محترم صفدر ہمدانی ایک منجھے ہوئے ادیب، دلوں کے تار ہلادینے والے شاعر، مایہ ء ناز اسکالر،حُب ِ اہل ِ بیت ِ اطہار سے سرشار مرثیہ نگار ، باریک بیں محقق ، سحرطراز براڈ کاسٹر ،دیدہ ور کالم نویس ،آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ،دل کےدروازوں پر دستک دینے والے صداکار، کئی دہائیوں سے سمندر پار مقیم رہنے کےباوجود پاکستانیت کےعلم بردار،سیرو سیاحت کے شوقین ، انجمن آرائیوں کے رسیا ،اسلامی اقدار و روایات کےپاسدار ، نشریات اور ابلاغیات کےماہراوربرطانیہ میں مملکت ِ خدادادِ پاکستان کے غیرسرکاری اور غیراعلانیہ سفیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں اتنی دنیاوں کو سمیٹے ہوئے ہیں کہ کسی ایک مختصر سے مضمون میں ان کے شخصی اوصاف ، پیشہ ورانہ مہارت ، فنکارانہ جہتوں اورگراں مایہ خدمات کا احاطہ آسان نہیں ہے۔

محترم صفدر ہمدانی نےبراڈکاسٹنگ،صداکاری، ابلاغیات ،ادب ،تصنیف و تالیف ،مرثیہ نگاری، کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری کی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور انہی کارناموں نے انہیں عالمی سطح پر شہرت و مقبولیت کی نئی رفعتوں سے ہم کنار کیاہے ۔

محترم صفدر ہمدانی کی زندگی کی کہانی داتا کی نگری سے شروع ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کاآفتاب لاہور ہی کے ایک معروف ادبی خانوادے میں 17نومبر1950کو طلوع ہوا۔شعور نے آنکھ کھولی تو فضاوں میں درودو سلام کی گونج سنائی دی۔پنجتن پاک کی محبت و عقیدت ورثے میں ملی تھی۔گھرکے ماحول کی پاکیزگی نےاسے مزید جلابخشی ۔یہ ایک ایسا بیج تھا جوان کی زمین ِ دل میں ان کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا اور ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی بڑھ کر ان کی طرح توانا ہوتا چلاگیا۔تعلیم و تربیت کےتمام مراحل لاہور ہی میں طے کئے۔ ان کےہاں جو والہانہ پن نظرآتاہے ،یہ لاہورکی فضاوں کی دین ہے۔ وہ کل بھی لاہوری تھے اور برسوں لاہورسے دور رہنے کےباوجودآج بھی لاہوری ہیں ۔

صفدر مری لاہور سے نسبت ہے عجب سی
میرے لیئے یہ شہر مدینے کی طرح ہے
ایف سی کالج، لاہور سےگریجویشن کرنے کےبعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سےابلاغیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے والد بزرگوار مصطفیٰ ہمدانی ، خالو فارغ بخاری اور ماموں رضا ھمدانی سے ادب و صحافت کاذوق ورثے میں ملاتھا ۔اسی لئےاسی سلسلے کوروزگار کاوسیلہ بنانے کی ٹھان لی ۔والد بزرگوار نے ریڈیوپاکستان لاہور سے نشریات کاآغاز کیا تھا اور محترم صفدر ہمدانی نے بھی اپنے رجحان اور میلان کے باعث 1974 میں ریڈیو پاکستان ، لاہور ہی سے پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستگی اختیار کرلی اور پنڈی، تراڑکھل اسلام آباد اور ریڈیو اکیڈمی میں خدمات سر انجام دیں ۔ یہ اُس وقت کی بات ہے ،جب ریڈیو ایک نشریاتی ادارہ ہی نہیں تربیتی ادارہ بھی ہوا کرتاتھا۔ بڑی بڑی ادبی شخصیات کی ادبی و علمی سرگرمیوں کامرکز یہی ریڈیو اسٹیشن لاہور تھا۔نامور شخصیات سے ملاقاتوں کا ایک بہانہ بھی ان کے ہاتھ آگیا۔ رفتہ رفتہ یہ پروفیشن جیسے انکی زندگی بن گیا

نشریات کی دنیامیں محترم صفدر ہمدانی نے اپنی آواز کا خوب جادو جگایا ۔اسکرپٹ رائیٹنگ کی بنیاد پر ارباب ِ علم و ادب سے خوب داد سمیٹی ۔لاہور میں رہتے ہوئے بھی ہوا کے دوش پر ان کی آواز دیس دیس میں پہنچی اوریہ علم و عرفان کے دیپ جلاتے اور آگہی کی روشنی گھر گھر پہنچاتے رہے ۔یہ وہ ہستی ہیں، جنہیں کئی ممالک کےنشریاتی اداروں سے وابستگی کااعزاز حاصل ہے۔ ان کے جنوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر انہیں فارغ بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔ سمندر پار بھی ابلاغیات اور نشریات کی دنیا ہی میں اپنے کمالات اور پیشہ ورانہ جوہر دکھاتے رہے۔ریڈیو پالینڈ سے بھی وابستہ رہے ۔قریباً چار سال ریڈیو جاپان میں خدمات انجام دے کر اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ محترم صفدر ہمدانی کے کیا کہنے۔ یہ دودہائیوں تک بی بی سی اردو میں بھی اپنے جوہر دکھاتے رہے ہیں ۔اسی لئے جہاں جہاں اردو بولی، پڑھی ، سنی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں کے رہنے والے ان کے نام، کام اور کلام سے خوب آشنا ہیں اور آشنا ہی نہیں ،بہت سے ملکوں میں ان کے چاہنے والے ان کے گُن گاتے نظرآتے ہیں ۔

انہیں پاکستان سے ترک ِ سکونت کئے 30برس ہوچکے ہیں لیکن آج بھی اپنے وطن ِ عزیز میں گزارا ہوا وقت ان کا گراں قدر اثاثہ ہے ۔آپ پورے مان کے ساتھ انہیں برطانیہ میں پاکستان کاخوبصورت چہرہ قراردے سکتے ہیں۔انہوں نے 1992 میں برطانیہ کواپنا وطن ِ ثانی بنایا تھا اور اب 2022میں یہ دونوں ملکوں کے شہری ہیں لیکن وہاں رہتے ہوئے بھی ان کادل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتاہے ۔یہ مغرب کی چکاچوند روشنیوں میں بھی پاکستان کو نہیں بھولے اور ایسے راستے اپنا ئےکہ پاکستانیوں کی سرگرمیوں سے خود بھی آگاہ رہیں اور دیس دیس کے لوگوں کو ان کی سرگرمیوں کی خبربھی دیتے رہیں ۔ جی ہاں ، آپ درست سمجھے ہیں ۔انہوں نے عالمی اخبار کااجراء اسی لئے کیا تاکہ پاکستان اور پاکستانیوں کی خوبصورتیوں کی جھلک دنیا کو عالمی سطح پر دکھاسکیں ۔2008سے نیٹ پریہ عالمی اخباردستیاب ہے اور مدیراعلیٰ کی حیثیت سے محترم صفدر ہمدانی مستقل مزاجی کے ساتھ اسی ای اخبار کی بنیاد پر ضیافت ِ طبع کااہتمام کررہے ہیں۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے ،جس کے ذریعے ہمارے ادبی ذوق کی تسکین کاسامان بھی بہم پہنچایاجارہا ہے اور مختلف شعبوں میں جو کارہائے نمایاں ہمارے پاکستانی انجام دے رہے ہیں ، انہیں بھی اجاگر کیا جارہا ہے ۔یایوں کہیے کہ ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں دنیا کودکھائی جارہی ہیں ۔اسی لئے یہ عالمی اخبار مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے کاسفر جاری رکھے ہوئے ہے۔اہم بات یہ ہے کہ یہ اخبار اتنے برسوں سے کسی ایک پیسے کے اشتہار کے بغیر شائع بلاناغہ شائع ہوتا ہے

محترم صفدر ہمدانی نے تصنیف ،تخلیق اور تالیف کی دنیامیں بھی بڑے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔انکی غزلوں کا پہلا مجوعہ’ کفن پہ تحریریں’ 1974 میں لاہور میں شائع ہوا تھا اور بعد ازاں مختلف تصانیف کی اشاعت کے بعد 2003 میں انکی کتابیں ‘فرات کے آنسو’…مرثیوں کا مجموعہ….نورِ کربلاعزائی شاعری پہ تحقیق… اور’معجزہ قلم’رباعیات ،قطعات و قصائد کا مجموعہ… فروری 2004 میں شائع ہوا جبکہ انکی تالیف اور تدوین”کلیات حسین” حسن عباس زیدی مرحوم کی شاعری کی کلیات 2005 میں طبع ہوئی۔ اگست 2006 میں انکا پہلا سفر نامہ” تہران اور گرعالمِ مشرق کا جنیوا” شائع ہوا. 2007 میں مرثیے کی دو کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے ایک”زینت ہستی” ماں کے موضوع پر لکھا ہوا مرثیہ ہے جبکہ دوسری ”عطائے رضا” کے نام سے امام رضا علیہ السلام کا مرثیہ ہے۔ ” رو رہا ہے آسماں” مرثیوں کاایک اور مجموعہ اورغزلوں کے مجموعے” بادل۔چاند اور میں ” اور” گونگی آنکھیں” زیر ترتیب ہے۔
جہان نعت کے نام سے نعتوں کا ایک انٹرنیٹ مجموعہ اردو ادب کی عالمی ویب سائٹ ریختہ پر بھی موجود ہے

صفدر ہمدانی کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات بھی لکھے گئے
2012 میں ایجوکیشنل یونیورسٹی لاہور سے ایم اے آر بی ایڈ فائنل کی ایک طالبہ مس مصباح اعظم نے جناب ہمدانی صاحب کی معیاری اور دل سوز ’’ مرثیہ نگاری ‘‘ پر تحقیقی تھیسس لکھ کر کامیابی حاصل کی ہے یہ تھیسس ایک کتاب کی شکل میں چھَپ چکی ہے۔

اسکے بعد سیدہ ثمر جعفری نے سیشن 2016- 2018 میں اپنا ایم فل کا مقالہ بعنوان صفدر ہمدانی کی ادبی خدمات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے مکمل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔

بات دورنکل سکتی ہے، اس لئے میں چاہوں گا کہ آپ محترم صفدر ہمدانی کے مناقب، سلام اور ان کی مرثیہ نگاری کی ایک جھلک دیکھ لیں ، ان کا یہ کلام میں نے ان کی شاہکار کتابوں سے لیا ہے۔

بازار شام روتا تھا بنت بتول کو
سجاد صاف کرتے تھے چہرے کی دھول کو
صفدریہی وہ شام کی ہے سرزمیں جہاں
قیدی بنا کے لائے تھے آل رسول کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہتے ہوئے لہو کی ہے فریاد یا رسول
شہروں کے شہر ہوگئے برباد یا رسول
صفدر قسم خدا کی ہے اس ارض شام پر
انسانیت کی موت ہے امداد یا رسول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاتل کو اپنے تخت سے ہے پیار آج بھی
ظالم حکومتوں کے ہیں سردار آج بھی
صفدر ہیں زندہ ظلم کی ساری گواہیاں
ہے شام میںیزید کا دربار آج بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری ملوکیت کا ازل سے ہے ایک کام
انکے ستم کا صرف ھدف اپنے ہی عوام
صفدر جو پوچھتا تھا کوئی ظلم کا مقام
سجاد رو کے کہتے تھے بس شام شام شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ وفا کا نام ہے زینب کے نام سے
آگاہ اب بھی شام ہے زینب کے نام سے
مجلس کا اہتمام ہے زینب کے نام سے
یہ کربلا دوام ہے زینب کے نام سے

زینب کا ہر بیان ہے تفسیر کربلا
زینب کا امیتاز ہے تشہیرِ کربلا
(صفدر ھمدانی)
……………………
بنت علی تسلسلِ کرب و بلا بنی
انسانیت کے ننگے سروں کی ردا بنی
زینب امیرِ قافلہ ء کربلا بنی
دربارِ شام میں وہ علی کی صدا بنی

دشمن سماعتوں میں زہر گھولتے رہے
زینب کے بازؤں کے رسن بولتے رہے
(صفدر ھمدانی)

آیات میں جوں آیہء تطہیر ھے بلند
ایسے بلند بھائی سے ھمشیر ھے بلند
زینب تری دعا کییہ تاثیر ھے کہ آج
قریہ بہ قریہ پرچم شبیر ھے بلند
(صفدر ھمدانی)

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کہنے کو یزیدوں کے تھی دربار کی ہیبت
تھی اس سے فزوں قافلہ سالار کی ہیبت

سجاد کے خطبے سے تھا ایوان پہ لرزہ
طاری ہوئی دربار پہ بیمار کی ہیبت

سر کاٹ کے دشمن کو سکوں مل نہیں پایا
نیزے پہ تھا سر اور تھی سردار کی ہیبت

سر پیٹتے تھے علقمہ کے دونوں کنارے
کچھ ایسی تھی پانی پہ علمدار کی ہیبت

اکبر کی بھی ہاں تیغ زنی ایسی تھی صفدر
کربل میں تھی جوں حیدر کرار کی ہیبت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوک قلم سے خون بہا جب کہا حسین
بادل برستا ،پھول کی خوشبو، صبا حسین

ہونٹوں پہ تشنگی کی صداؤں کے بین تھے
دل کربلا کی سمت چلا جب لکھا حسین

سنتا تھا ذکر کرب و بلا ماں کے پیٹ میں
ماتم کا شور خوں میں اٹھا جب سُنا حسین

ہر ایک حرف سینہ زنی کر رہا تھا تب
قرطاس پر لہو سے جونہی لکھ دیا حسین

شامل ہے کربلا میں ریاضت رسول کی
معراجِ مصطفیٰ تھی تری ابتدا حسین

لکھا ہوا فلک پہ ہے بابِ شہید پر
ہیں ابتدا علی و حسن، انتہا حسین

تفسیر تیری ذات رہِ مستقیم کی
جنت کا راستہ ہے ترا راستہ حسین

ہوتی نہیں قبول کبھی جب دعا مری
دیتا ہوں میں خدا کو تیرا واسطہ حسین

اس گھر پہ ختم ختمِ نبوت کا سلسلہ
حئی الالفلاح کا ہے سلسلہ حسین

چاروں طرف سے گریہ و ماتم کی تھی صدا
بعد از درود قبر میں جونہی پڑھا حسین

شعروں کو میرے سوزِ سکینہ عطا ہوا
مصرعوں کو تونے لہجہء میثم دیا حسین

سر کو کٹا کے نیزے پہ معراج پا گیا
معلوم بس خدا کو تیرا مرتبہ حسین

گردش میں میرے خون کی شامل علی کا نام
میرے روئیں روئیں میں فقط ہے بسا حسین

تاحشر ہر زمانے کے ہر اک یزید کو
بیعت سے تونے کر دیا نا آشنا حسین

تقلید میںیزید کی ہر بے ضمیر ہے
روشن ضمیر لوگوں کا نعرہ بنا حسین

اُسوقت بھی فرشتوں کی آنکھوں میں اشک تھے
تخلیق کر رہا تھا تجھے جب خدا حسین

ایسا لگا کہ رحمتِ ہزداں میں آ گئے
سر پر ہمارے جب ترا پرچم کھُلا حسین

بے شک یہی ستون ہیں ہر کائنات کے
حیدر، بتول ، شاہ حسن، مصطفیٰ ، حسین

ہر بے ضمیر ایل قلم کے لیئے پیام
تم کو یزید مل گیا مجھکو ملا حسین

صفدر قسم خدا کییہ ایمان ہے میرا
اللہ کا دیا ترے در سے ملا حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائم ہے اپنی آخرت نام حسین پر
صدیوں کییہ مسافرت نام حسین پر
صفدر حسین عشق و محبت کا نام ہے
پھیلاؤ مت منافرت نام حسین پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک غم سے فزوں تر حسین کا غم ہے
ازل سے تا دمِ محشر حسین کا غم ہے

نبی کی آل کے غم پہ ہمارے غم ہیں نثار
ہمارے درد کا محور حسین کا غم ہے

یہ دل کی دھڑکنیں کہتی ہیں ہائے ہائے حسین
یہ آنسوؤں کا سمندر حسین کا غم ہے

اس ایک غم پہ کسی کی اجارہ داری نہیں
ہر ایک روح کے اندر حسین کا غم ہے

شفق پہ یہ جو ہے سرخی غمِ حسین کی ہے
غروب شمس کا منظر حسین کا غم ہے

نبی سے عشق ہو لیکن غم حسین نہ ہو
سنو رضائے پیمبر حسین کا غم ہے

اثاثہ ہے میرے بچوں کا غم یہی صفدر
بمثلِ شجرِتناور حسین کا غم ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خنجر تلے جو اوج عبادت تھا وہ حسین
لُٹوا کے گھر نشان ہدایت تھا وہ حسین

سردار خُلد کا ہے وہ بھائی حسن کے ساتھ
مثل رسول تاج شفاعت تھا وہ حسین

مظلومیت کو جسکی ضرورت ہے آج بھی
پہلے بھی دین حق کی ضرورت تھا وہ حسین

جس نے بدل دیئے ہیں معانی شکست کے
جو کربلا میں رمز مشیعت تھا وہ حسین

علم علی وجود کا اُسکے لباس تھا
اللہ کے نبی کی طبیعت تھا وہ حسین

راہ خدا میں دے دیا اصغر سا شیر خوار
بے شک کمال صبر کی آیت تھا وہ حسین

برچھی نکالی سینے سے کڑیل جوان کے
خیبر شکن علی کی جو طاقت تھا وہ حسین

عباس جیسا بھائی بھی قربان کر دیا
ہر رُخ سے کوہ عزم و صداقت تھا وہ حسین

ٹکڑے اُٹھا کے لائے وہ قاسم کی لاش کے
ہر ایک رُخ سے شان امامت تھا وہ حسین

جس نے یزیدیت کو کُچل ڈالا پاؤں میں
بے شک دلیل ختم نبوت تھا وہ حسین

جس کو رسول نے کہا قلب و نظر کا چین
کرب و بلا میں حفظ شریعت تھا وہ حسین

جس کے گلے پہ دیتے تھے بوسہ رسول پاک
نوک سناں پہ محو تلاوت تھا وہ حسین

نامیزید جس نے مٹا ڈالا حشر تک
صفدر خدا کے دین کی قسمت تھا وہ حسین

صفدر ھمدانی
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جنت میں اضطراب ہے روحِ بتول کو
سجدے میں قتل کردیا نفس رسول کو
لاشِ علی جو قبر میں صفدر اُتار دی
اُمت نے دفن کر دیا حق و اصول کو

صفدر ھمدانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ مختلف سلاموں سے پانچ منتخب اشعار
در شان شہزادہ علی اصغر

چھ ماہ کے شہید کا حملہ عجیب تھا
اصغر نے مسکرا کے یزیدوں کو دی شکست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوکھے لبوں سے وار کیا ہنس کے اس طرح
اصغر نے رکھ دیئے سبھی کس بل نکال کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصغر کے حلق پر جونہی تیر ستم لگا
آئی ندا کہ سورہء کوثر ہوا شہید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب شان کا چھ ماہ کا سپاہی تھا
گلے کی ڈھال سے روکا تھا حُرملہ کا تیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہچکی تڑپ کے لی جونہی بابا کی گود میں
اصغر نے لکھی ہار یزیدوں کی فوج کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہر گھڑی سنو دستِ قضا میں رہتا ہوں
مجھے خوشی ہے کہ اپنوں کے ظلم سہتا ہوں

نہیں طلب کوئی مجھکو تری ستائش کی
میں بحِرِ عشق ہوں اور اپنی سمت بہتا ہوں

کسی کی مانگ کے پہنی نہیں کبھی بھی قبا
میں مطمئن ہوں کہ اپنی قبا پہنتا ہوں

علی کا نام بھی لے اور منافقت بھی کرے
میں ایسے شخص کو قاتل علی کا کہتا ہوں

میں معجزہ ہوں اسی عہدِ کذب کا صفدر
میں آگ کھاتا ہوں اور پانیوں پہ چلتا ہوں

=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=
،،،،،،،،،،،، تیرہ رجب ،،،،،،،،،،،
=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=

یہ دن تیرہ رجب کا ہے تو اسکو کھو نہیں سکتا
جو جاگے آج کی شب عمر بھر وہ سو نہیں سکتا

خدا نے یہ رعایت عاشق شبیر کو دی ہے
گنہ اپنے بجُز وہ عشق حیدر دھو نہیں سکتا

تو دشمن ہے علی کا تو تری نسلوں پہ بھی لعنت
سزا تیرییہ ہے اس جرم پہ تو رو نہیں سکتا

علی کا ماننے والا منافق بھی ہو یہ کیسے
علی کا ماننے والا منافق ہو نہیں سکتا

ضمانت ہے علی کا نام ہی مومن کے شجرے کا
قلندر بیج نفرت کے کبھی بھی بو نہیں سکتا

نبی کی آل سے صفدر عداوت جُرم اکبر ہے
گناہ یہ وہ ہے جسکے بوجھ کو تو ڈھو نہیں سکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک امتحاں ہے آج محبت رسول کی
مہنگی بہت پڑے گی عداوت رسول کی

اولاد دشمنان محمد نے ایک بار
پھر توڑ دی ہے دیکھ لو بیعت رسول کی

زد پر یزیدیوں کے مدینہ رسول کا
مصروف جشن عید ہے اُمت رسول کی

پھر خانہء رسول پہ شعلے ہیں آگ کے
فریاد کر رہی ہے یہ تربت رسول کی

اسوقت سے ذلیل ہیں ہم کائنات میں
جب سے بھلا دی ہم نے قیادت رسول کی

میرا قلم بھی مہکے گا خوشبوئے نعت سے
مل جائے گی اگر جو اجازت رسول کی

صفدر یہ عاشقان محمد سے ہے سوال
کس منہ سے مانگتے ہو شفاعت رسول کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا والے سخی عباس کو احساس لکھتے ہیں
جو لب تشنہ ہیں انکو زندگی کی آس لکھتے ہیں

نظر آتے ہیں دو بازو گرم ریتی پہ خوں میں تر
کنارے علقمہ کے جب کبھی ہم پیاس لکھتے ہیں

ضمانت جب بھی ہو درکار ہم کو پردہ داری کی
ہمیں آتا ہے تیرا نام ہی بس راس لکھتے ہیں

نہیں ہے اور کوئی بھی وفا کے باب میں ایسا
علمدار حسینی کو ہی ہم احساس لکھتے ہیں

کبھی ہم پہ مصیبت پیاس کی اتی ہے جب صفدر
زباں پر انگلیوں سے اپنی ہم عباس لکھتے ہیں

اکیسویں صدی میں محترم صفدر ہمدانی ادبی پچ پر چوکے اور چھکے مارتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ان کا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بیک وقت بہت سے محاذوں پر اپنے قلمی اورفکری جوہر دکھارہے ہیں ۔ ان کی تخلیق اور تحقیق کے رنگ دیدنی ہیں۔کچھ کتابیں ترتیب دے چکے ہیں لیکن ابھی وہ کاغذی پیرہن میں منظرعام پر نہیں آئیں لیکن جو کتابیں ابھی پردہء اخفامیں ہیں ، ان کی بھی ، ابھی سے دھوم مچی ہوئی ہے ۔شاید اس لئے کہ ان کی جھلکیاں اہل ِ ادب نے دیکھ لی ہیں یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے عنوانات دیکھ کران کے مندرجات کا اندازہ لگا لیا گیا ہو۔ اس حوالے سے بعد میں بات ہوگی کیونکہ میں پہلے ان کی سفر نامہ نگاری پر چند سطریں لکھنا چاہتاہوں ۔محترم صفدر ہمدانی صاحب کےاندر ایک دیدہ ور سیاح اور ایک صاحب ِ نظر سفرنامہ نگار بھی چُھپاہواہے ۔وہ انہیں دیس دیس گھومنے پھرنے اوروہاں کی مخفی رعنائیوں کاکھوج لگانے پر اکساتارہتاہے اور یہ اپنے دامان ِ نظر میں تمام خوبصورت مناظر کومحفوظ کرنے کےبعد اپنے قلم کو محسوسات کی روشنائی میں ڈبو کرسپرد ِ قرطاس کرنے کاہنرخوب جانتے ہیں ۔ان کاانوکھازاویہ ء نگاہ اور منفرد اسلوب نگارش سفرنامے کو نئی جہت عطاکرتاہے ۔اب آپ دیکھئے کہ انہوں نے جوپہلاسفرنامہ لکھا اوراسے کتابی شکل دی ،کیااس کےعنوان ہی میں وہ سب کچھ نہیں ہے،جس کی نشان دہی میں نے ان کی سفر نگاری کے حوالے سے مندرجہ بالاسطور میں کی ہے۔” تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا ” ان کا یہ پہلا سفر نامہ اگست 2006 میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر بازار ِ ادب میں آیاتھا ۔اس کتاب میں سفر نامہ نگار کا منفرد زاویہ ء نگاہ دامن ِ نگاہ کو اپنی طرف کھینچتا ہوامحسوس ہوتاہے۔ پاکستانی نژاد محترم صفدر ہمدانی نے ملک ملک کی سیر کی ہے ۔ایران،جاپان، نیدرلینڈ، ہیگ ،ایمسٹرڈیم ،جرمنی ،برلن،فشتہ، سٹٹگارٹ،فرانس،ناروے،سویڈن ، ڈنمارک ،یونان، دبئی، ترکی، بلجیم،امریکہ ،کینڈا ، شام،مصر ، فن لینڈ اور آسٹریلیا آسٹریا ،ویانا اور کویت جاکر سیر و سیاحت کے مزے لوٹتے رہے ہیں ۔ملکوں اور معروف شہروں کی یہ فہرست بڑی لمبی ہے، اسی لئے میں نے کچھ اہم نام بھی حذف کردئیے ہیں ۔جہاں جہاں بھی گئے ، وہاں کے تاریخی ، روحانی اور جغرافیائی پس منظر اور پیش منظر کو بھی اپنی نگارشات میں اجاگر کرتے رہے ۔دیس دیس کے شہرشہر میں مرثیہ خوانی کااعزاز بھی اپنے نام کیا اور وہاں کے مکینوں کے دلوں پر گہرے نقوش چھوڑ کر واپس آئے ۔انہوں نے جوکچھ دیکھا، محسوس کیا،اپنے وطن ِ ثانی واپسی پر سفر نامے لکھ کر ان کی جھلکیاں اخبارات و جرائد کے قارئین ِ کرام کو بھی دکھائیں۔ غیر ملکی دوروں کےدوران مناقب و سلام کاسلسلہ بھی ان کےساتھ ساتھ چلتا رہا ہے ۔گویا ان کے اندر کامرثیہ نگار ہمیشہ بیدار رہا۔کوتاہی ہوگی کہ ان کی مرثیہ نگاری کی بات ہورہی ہے اور ان کے اُن دومجموعوں کاذکر نہ کیاجائے جوان کی عظمت و مرتبت میں اضافے کاباعث بنے ۔ان میں ایک ہے زینت ِ ہستی اور دوسری کتاب کانام ہے عطائے رضا ۔زینت ہستی ایک ایسا مرثیہ ہے جوماں کے موضوع پرلکھا گیااور یہ کتابی صورت میں 2007میں منصہء اشاعت پر جلوہ گرہوا۔جبکہ”عطائے رضا”کاعنوان ہی بتارہاہے کہ یہ مرثیہ امام رضا علیہ السلام کیلئے ہے۔یہ دونوں کتابیں انہوں نے اپنے اشکوں سے لکھی ہیں .۔ الفاظ درد میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ لہجے میں گدازہے ۔قیامت خیز احساسات کوانہوں نےجوپیرایہ ء بیان عطاکیاہے، وہ انہی کاخاصا ہے۔ اور سننے والوں کواپنے دل کےاندراُترتاہوامحسوس ہوتاہے ۔ان کے شاہکار مرثیوں کاایک مجموعہ “رو رہا ہے آسمان “زیرِ ترتیب ہے ۔اس زیرترتیب کتاب کاکچھ کلام بہت سےارباب ِ علم و ادب سُن چکے ہیں ،اسی لئے انہیں اس کی اشاعت کاشدت سے انتظار ہے ۔دیکھنایہ ہے کہ ،وہ رو رہا ہے آسمان سامنے لاکر ہمیں کب رُلاتے ہیں ۔

محترم صفدر ہمدانی نظم اورغزل دونوں کے منجھے ہوئے شاعر ہیں ۔ غزل کہیں تو لگتا ہے کہ یہی ان کا میدان ہے اور نظم نگاری میں اپنے تخلیقی اور فکری جوہر دکھائیں تو محسوس ہوتاہے کہ قدرت نے اسی کام کیلئے انہیں زندگی بخشی ہے ۔ انہوں نے گل و بلبل کی شاعری نہیں کی، تازہ کاری ، سادگی، مضمون آفرینی اور پُرکاری سے اپنی شعری نگارشات کو دلکشی عطا کی ہے ۔ ان کی کتابوں کے عنوانات بھی ان کی ندرت ِ فکری کی خبر دیتے ہیں ۔ان کی غزلوں کے دو مجموعے زیرِ ترتیب ہیں ۔ ایک کا نام ہے ” بادل۔ چاند اور میں ” اور اپنی غزلوں کےدوسرے مجموعے کو انہوں نے ” گونگی آنکھیں “قراردیاہے ۔
محترم صفدر ہمدانی کاادبی سفر جاری ہے ۔اس لئے ان کے کام کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جوکلام ان کی تمام شاہکار کتابوں یازیرترتیب کتابوں میں شامل نہیں ،وہ میری دسترس سے دور ہیں ۔ اسی لئے ان کی دستیاب کتابوں سے میں نے ان کا تھوڑا سا کلام آپ کی ضیافت ِ طبع کیلئے منتخب کیا ہے۔اسے پڑھ کراندازہ ہوگا کہ انہوں نے نظم اور غزل دونوں شعری اصناف میں بڑی خوبصورت شاعری کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے محترم صفدر ہمدانی کا انتخاب ِ کلام ۔

آغاز نئے سال کا تنہا ہی کیا ہے
اس عشق نے سید کو بھی رسوا ہی کیا ہے

میں نے تو ہر اک درد کو پوشیدہ ہی رکھا
اور تم نے ہر اک درد کا چرچا ہی کیا ہے

میں نے جو کیا اسکا نتیجہ تھا لا حاصل
جو کچھ بھی کیا تم نے وہ اچھا ہی کیا ہے

اظہار محبت کے لیئے منتظر موت
ان خون کے رشتوں نے تو ایسا ہی کیا ہے

زندہ تھے جو وہ مر گئے اس عشق کے ہاتھوں
مرنے کے طلبگاروں کو زندہ ہی کیا ہے

دروازہ مقفل ہے کئی برسوں سے لیکن
دستک پہ ہر اک دل ہے کہ تڑپا ہی کیا ہے

صفدر ہے تجارت سے شغف اُسکا پرانا
اٗس نے تو محبت کا بھی سودا ہی کیا ہے

صفدر ھمٰدانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل دوام کب ہے بھلا اب دوام کو
ہم کہ ترستے رہتے ہیں انکے سلام کو

نیلام ہو رہا ہے ادب بھی ادیب بھی
پھیلائیں شہر شہر میں اب اس پیام کو

تلوار کا وجود ہے تلوار زن کے ساتھ
معیار مت بنایئے خالی نیام کو

بے شک یہ بونے غالب دوراں کہیں تمہیں
میں جانتا ہوں خوب تمہارے مقام کو

پہنچی ہے اب ضمیر فروشی عروج پر
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں کلام کو

مفتی ادب کے دین کے مفتی سے کب الگ
کیسے حلال کرنے لگے ہیں حرام کو

عاری جو عدل سے ہو عدالت سے دور ہو
دوزخ رسید کیجئے ایسے امام کو

اعزاز اب ادب کا نہیں چاہیئے مجھے
رکھیئے معاف بہر خدا اس غلام کو

اب نام پر ادب کے تجارت ادب کی ہے
صفدر ہوا نہ دیجئے گا انتقام کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے مجھ میں وہ دیدہ ور زندہ
قلب طوفاں میں جوں بھنور زندہ

زندگی تیری تلخیوں کے طفیل
مر کے بھی زہر کا اثر زندہ

ہے کمال عروج دست ہُنر
مر گیا باہُنر،ہُنر زندہ

مجھ میں تیرے وجود کا اعجاز
شب ہے زندہ مری سحر زندہ

ہو چکا ہے سفر اگرچہ تمام
دل میں ہے خواہش سفر زندہ

عہد امروز کی مثال ہے یہ
مردہ دیوار میں ہے در زندہ

تو مصور ہے تو مجھے بھی کبھی
اپنے اس کینوس پہ کر زندہ

پھر میں مانوں تجھے خدا اپنا
تو کرے مار کر اگر زندہ

نوک نیزہ پہ کر دیا ہے بلند
پھر بھی صفدر مرا ہے سر زندہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل قلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی ہی خواہش سے ہیں منجدھار میں اہل قلم
صاحبو خوش حلقہء سرکار میں اہل قلم

شاعروں نے اس قلم سے امتیں بیدار کیں
سو چکے اب مجمعء بیدار میں اہل قلم

گفتگو سن کر قلم شرمائے جنکی باخدا
ہم نے ایسے دیکھے ہیں گفتار میں اہل قلم

ظلم پہ تُف کے لیئے لکھتے نہیں ہیں ایک لفظ
ظالموں کے ڈھل چکے کردار میں اہل قلم

دوستی کا فخر تھے اور دوستوں کا مان بھی
اب تو خود شامل ہوئے اغیار میں اہل قلم

جو قلم کی عزت و ناموس کو بیچا کریں
ایسے چنوا دے کوئی دیوار میں اہل قلم

اک اشارہ ہی بہت کافی تھا دعوت کے لیئے
سر کے بل آنے لگے دربار میں اہل قلم

کیا کریں گے رہنمائی قوم کی بتلایئے
خود گرفتار بلا منجدھار میں اہل قلم

یہ فقط اس عہد کا ہی مرثیہ صفدر نہیں
بکتے ہیں ہر دور میں بازار میں اہل قلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہانی عشق کی اپنے یہ طے ہے اب سنانی ہے
ہے تازہ آج بھی گر چہ یہ برسوں کی پرانی ہے

یہ سینے پر ہمارے مُہر ہے تیری محبت کی
تمہیں یہ علم ہے ہم نے تمہاری بات مانی ہے

میری جاں ہاتھ اپنا نبض پر میری ذرا رکھو
جو بچپن میں لکھی تھی وہ غزل تم کو سنانی ہے

ہجوم عاشقاں میں سینہ زن روتے ہوئے نکلے
ہواؤں نے ترے عاشق کی اب میت اٹھانی ہے

جہاں فاقہ زدہ درویش کی میت برہنہ تھی
ہمارے شہر والوں نے وہاں مسجد بنانی ہے

فقط دو خط ہیں جن میں آج بھی ہے لمس ہاتھوں کا
ہاں میرے پاس بچپن سے یہی تیری نشانی ہے

اُسے معلوم ہی کب ہے جوانی کس کو کہتے ہیں
کہا جس نے ہے یہ صفدر جوانی آنی جانی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم کچھ اس طرح سے بدلنے لگا ہے اب
پتھر کا دل بھی راز اُگلنے لگا ہے اب
صفدر یہ کیا ہوا ہے کہ بس دو ہی روز میں
ہر جیب سے اقامہ نکلنے لگا ہے اب
صفدر ھمٰدانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بہانہ کوئی درکار ہے چاہت کے لیئے
لوگ اب پیار بھی کرتے ہیں ضرورت کے لیئے

تم ہو مصروف تو پھر کیسے محبت ہو گی
آؤیہ کام بھی رکھ دیتے ہیں فرصت کے لیئے

چاہنے والے مرے اور بہت ہیں لیکن
منتخب تم کو کیا اپنے سے نفرت کے لیئے

زندگی آج تری قہر کی توقیر ہوئی
آج قاتل میرا آیا ہے عیادت کے لیئے

کعبہ ء دل کو بھلا بیٹھے ہیں عابد سارے
ایک مسجد ہی جگہ کب ہے عبادت کے لیئے

اکیہی زندگی سچ بات ہے ناکافی ہے
زندگی اور ہے درکار محبت کے لیئے

عشق والوں کی بھی دنیا میں الگ نسلیں ہیں
لوگ ہوتے ہیں الگ جیسے سیاست کے لیئے

یاد بچپن کی ابھی بات دلائی تھی اُسے
اس نے بھی رخت سفر باندھا مسافت کے لیئے

اور بھی صاحب دستار بہت ہیں صفدر
ایک میں ہی تو نہیں شہر میں ذلت کے لیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کس یقیں سے گمان بدلا ہے
تیر بدلا کمان بدلا ہے

نیند کا توڑنا قیامت تھا
اُس نے وقت اذان بدلا ہے

ہارنے کا نشان ہے وہ ہی
جیتنے کا نشان بدلا ہے

تم کو میری قسم ہے بتلا دو
کس کی خاطر دھیان بدلا ہے

صرف اک شہر کے بدلنے سے
کیوں زمیں آسمان بدلا ہے

اجنبیت کی گرد ہے ہر سو
ہم نے کیا سب جہان بدلا ہے

لہجہ بتلا رہا ہے تمہارا
تم نے پھر ترجمان بدلا ہے

گھر وہی ہے فقیر زادے کا
بس فقط اک مکان بدلا ہے

حق میں جاتا تھا اسکے جو صفدر
اُس نے وہ بھی بیان بدلا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کہ لفظ لفظ میں نوحے کا رنگ ہے
آزادیء عوام پہ یہ عقل دنگ ہے

ذہنوں پہ اک عجیب تعصب کی ہے گرفت
آزاد تو ہیں ذہنی غلامی سے جنگ ہے

تفسیر اہل علم کی کیسے کریں بیاں
وسعت نہیں ہے سوچ میں اور دل بھی تنگ ہے

ابیہ ہے حال قائد اعظم کے مُلک کا
زم زم میں زہر ہے ملا ہر پھول سنگ ہے

صفدر ان حاکموں کو ذرا سی حیا نہیں
ستر برس کے بعد وہی بھوک ننگ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذائقے ہیں زبان میں کس کے
اب بھی رہتا ہوں دھیان میں کس کے

پانیوں میں دھویں کی آمیزش
آگ ہے بادبان میں کس کے

پر تو میرے ہیں جانتا ہوں میں
اُڑتا ہوں آسمان میں کس کے

نام لکھا ہے کس کا تیروں پر
تیر رکھے کمان میں کس کے

کون شامل نماز عشق میں ہے
ذکر ہیںیہ اذان میں کس کے

گھر تو میرا ہے یہ یقیں ہے مجھے
پر مکیں ہوں مکان میں کس کے

شعر جو میں نے کہہ دیا صفدر
شعر ایسا گمان میں کس کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مر جائیں گے جب ہم نوحے لکھیں گے
حاکم موت ہماری دیکھنا بیچیں گے

خُشک آنکھوں کو دیکھ نہ لیں کہیں طالم لوگ
آنکھوں پہ رومال کو رکھ کر روئیں گے

کوئی نہ ہوگا سُننے والا بستی میں
کُتے شہر کے اونچے سُرمیں بھونکیں گے

جو بھی عدالت عدل کرے اس موسم میں
اُسکو آگ لگا کے دور سے دیکھیں گے

حاکم اب سیلاب میں مرنے والوں کا
جے آئی ٹی سے فرصت ہو تو سوچیں گے

اپنے گھر کے لوگ نہیں پہچانیں گے
خوابوں کو ہم جب دفنا کر لوٹیں گے

لوگ تو شاید پانی میں ہی بہہ جائیں
صفدر صاحب سانپ گھروں سے نکلیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاف پڑھ سکتا ہوں چہرے پہ میں لکھا ہوا وقت
خالی آنکھوں میں نمایاں ہوا ٹھہرا ہوا وقت

تجربہ عمر کا بالوں کی ہے چاندی میں نہاں
اور شکنوں میں کھُلے ماتھے کی سمٹا ہوا وقت

شکم مادر سے جو آغوش لحد تک سوچیں
عمر کے کتنے مراحل میں ہے پھیلا ہوا وقت

میری تصویر نے سب میری کہانی کہہ دی
بکھرے بالوں میں نظر آتا ہے بکھرا ہوا وقت

آئینہ غور سے دیکھا ہے تو صفدر یہ کھُلا
خال و خد کیسے بدل دیتا ہے گزرا ہوا وقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قتل بھی وہ ہی مجھکو کرتا ہے
وہ جو مجھ بے ہُنر پہ مرتا ہے

زندگی بھر کا تجربہ ہے یہی
سب سے سستا ضمیر بکتا ہے

نام خط میں نہیں کسی کا مگر
خط مجھے روز کوئی لکھتا ہے

اسکے گھر کے ہزار رستے ہیں
میرے گھر کا بس ایک رستہ ہے

دل ہی مجھ سے سوال کرتا ہے
دل سمندر میں کون بستا ہے

وہ بھی عقرب ہے میں بھی عقرب ہوں
وہ محبت میں بھی تو ڈستا ہے

میں نے صفدر تمام عمر لکھا
اسقدر سچ کہ جھوٹ لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائم لہو کی سرخی مگر چہرہ زرد ہے
سارا بدن سفر میں میرا گرد گرد ہے

وہ جب گلے ملا تو یہ کہنا پڑا مجھے
بے شک ہے ہاتھ گرم مگر لہجہ سرد ہے

فُٹ پاتھ پر پڑی ہوئی اک لاش کا سوال
کیا شہر میں تمہارے کوئی ایک مرد ہے

اک روز بھی تو اسکی کسک کم نہیں ہوئی
سینے میں اس فقیر کے یہ کیسا درد ہے

صفدر جو سر جھکا کے کئی سال تک ملا
وہ بھی منافقوں کے قبیلے کا فرد ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب گر چہ نہیں اُس سے ملاقات مسلسل
برسوں سے تسلسل میں ہے وہ رات مسلسل

حیران ہوں کیوں اتنا مجھے چاہا ہے تم نے
دوہراتی رہی وہ یہی اک بات مسلسل

ہے آج بھی تنہائی مری ذات کا حصہ
اس لمحے تلک ہیں وہی حالات مسلسل

بچھڑے ہوئے اُس شخص کو گزرا ہے زمانہ
اب بھی ہیں مگر اُسکی عنایات مسلسل

وعدہ تھا جُدا ہوتے ہوئے رونا نہیں ہے
رہتی ہے مگر آنکھوں میں برسات مسلسل

کچھ درد ہے کچھ آہیں تو کچھ اشک سُلگتے
ملتی ہے ترے نام پہ سوغات مسلسل

جس ہات کو صفدر کبھی اُس شخص نے چوما
خوشبو سے معطر ہے وہی ہات مسلسل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھکو اکیلا کر کے بھی تنہا نہیں کہا
اپنا سمجھ لیا مگر اپنا نہیں کہا

بے شک بنایا اِس نے ھدف مجھکو رات دن
جیسا مجھے کہا اُسے ویسا نہیں کہا

راہ حیات میں کئی چہرے حسیں ملے
جو کوئی بھی ملا اُسے تم سا نہیں کہا

شُکر خدا کا درس دیا ماں نے اسطرح
حالات بد پہ بھی کبھی نوحہ نہیں کہا

شطرنج کی بساط پہ کھا کر شکست بھی
بس تھا قصوروار پیادہ نہیں کہا

اک پیاس تھی اُگی ہوئی ساحل کی ریت میں
تشنہ لبی کی حد ہے کہ پیاسا نہیں کہا

صفدر یہ میرا ظرف ہے اپنے غنیم کو
دشنام بھی نہ دی اگر اچھا نہیں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں صفدر ھمدانی کا یہ ایک قطعہ بطور خاص کہ یہ دو شعر انکی قلمی،فکری،سماجی،سیاسی اور ادبی زندگی کے غماز ہیں اور ان دونوں اشعار میں انکا مزاج اور فلسفہ صاف صاف نظر آتا ہے

حیات ساری میری عشق میں ہوئی ہے بسر
کٹے گا عشق میں باقی جو رہ گیا ہے سفر
گزر گئے ہیں بہتر برس مرے صفدر
کسی یزید کے آگے نہیں جھکا نہیں ہے یہ سر ۔۔۔۔

close