ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب “میرا لہو” سے ساتویں قسط، فرخ سہیل گوئندی کے قلم سے

اقتدار سے علیحدگی
1965ء کی17 روزہ پاک بھارت جنگ نے خطے کے دونوں ممالک پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مثلاً یہ کہ بھارت جو یہ تصور کرتا تھا کہ وہ دفاعی طور پر پاکستان کو دبوچ سکتا ہے، غلط ثابت ہوا۔ اس کی عالمی سطح پر ڈپلومیسی میں بالادستی بھی کچھ زیادہ کارگر ثابت نہ ہوئی حالانکہ وہ غیروابستہ ممالک کی تحریک (N.A.M) کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان کو تیسری دنیا اور خصوصاً تیسری دنیا کی اس وقت کی مقبول ترین قیادت چو این لائی، احمد سوئیکارنو، بن بیلا اور جمال عبدالناصر جیسے راہنمائوں کی بھرپور حمایت اور اسی کے ساتھ ایران سمیت مشرقِ وسطیٰ کے تیل سے مالامال عرب ممالک جن کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے وہ بھی پاکستان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے۔

یہ ایک نئی تبدیلی تھی۔ ایک ایسا ملک جو امریکہ کے عسکری معاہدات کے ساتھ جڑا ہوا تھا، اس کی حمایت میں تیسری دنیا کی اعلیٰ قیادت میدانِ عمل میں نکل آئی اس لیے کہ نوجوان وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے نئی عالمی حقیقتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے خارجہ زاویوں کو سامنے رکھ کر پاکستان کی خارجہ پالیسی تشکیل دی تھی۔ کئی رکاوٹوں کے باوجود وہ ایک پروقار، اصول پسند، آزاد اور قوم پرست خارجہ پالیسی تھی جس کے سبب عالمی ترقی پسند تحریکوں اور قیادت کو باور کروایا کہ ہم عالمی استعماریت کے خلاف اور آزادی پسند قوموں کا ساتھ دیتے ہوئے دنیا میں نئے عالمی اقتصادی نظام کے خواہاں ہیں جہاں پر بڑی قومیں چھوٹی قوموں کا استحصال نہ کرپائیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی یہ پالیسی اور حکمتِ عملی 1965ء کی جنگ میں پاکستانی قوم اور ملک کی نئی زندگی کا سبب بھی بنی اور یوں ہم اپنا دفاع کرکے ایک بڑے ہمسایہ ملک کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرپائے۔

اس جنگ کے دوران ذوالفقارعلی بھٹو کی طرف سے ایٹم بم بنانے کا ارادہ بھی ایک سیاسی ادراک تھا کہ طاقت کے توازن کے بغیر امن ناممکن ہے۔ ایک کامیاب وزیرِ خارجہ کا کردار ذوالفقارعلی بھٹو کی عوام میں بے پناہ مقبولیت کا سبب بنالیکن حکومت جو کہ مکمل طور پر جدید نوآبادیاتی ڈھانچے پر مشتمل تھی ایک ایسے شخص کو کیونکر برداشت کرسکتی تھی جو جدید نوآبادیاتی نظام کو ایکسپوز کررہا تھا۔ اس کا آغاز تو سلامتی کونسل میں پاکستان کے نمائندے کی نامزدگی پر ہی ہوگیا تھا جب پہلے یہ طے کیا گیا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی جگہ وزیرِ قانون ایس ایم ظفر کو بھیج دیا جائے۔ جنگ بندی کے ساتھ ہی ملک میں ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف سازشیں عروج پر پہنچ گئیں۔

درحقیقت پاکستان جس شکست سے میدانِ جنگ میں محفوظ رہا اب اس شکست کا انتظام مذاکرات کی میز پر کیا جارہا تھا۔ غیرمشروط جنگ بندی کا دبائو امریکہ کی طرف سے ہندوستان کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی حکومت کو باور کروایا کہ یہ قدم ہماری فتح کو شکست میں بدلنے کے مترادف ہے لیکن ایوب حکومت اب مغرب کے دبائو کا شکار نظر آرہی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان کے وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے آبرومندانہ معاہدے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ امریکہ سے واپسی کے بعد وہ فرانس گئے جہاں انہوں نے فرانسیسی حکام کے ساتھ بات چیت کرکے دورانِ جنگ ان کی مثبت حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امن کا باوقار راستہ تلاش کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ سوویت یونین کے وزیرِ خارجہ آندرے گرومیکو سے ملاقات اوریو این کے سیکرٹری جنرل اوتھان سے ملاقات لیکن یہ کوششیں ساتھ ہی ساتھ سبوتاژ بھی کی جاتی رہیں۔ پاکستان کی حکومت پر امریکی دبائو اس قدر شدید ہوتا جارہا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی ڈپلومیسی کے ذریعے تیسری دنیا کو پاکستان کی حمایت پر آمادہ کرکے اس چیز کو بھی ابھارا کہ سردجنگ کے اس زمانے میں جب سوویت یونین اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف محاذآرائی میں مصروف ہیں دنیا کی نوآزاد قومیں اپنے مفادات کے تحفظ اور خوشحالی کے لیے اتحاد کے ایک نقطے کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

جنگ کے دوران مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک، عرب ممالک، افریقہ کے نوآزاد ممالک اور ایشیا کے چھوٹے ممالک انڈونیشیا، ایران و ترکی وغیرہ نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا وہ اس بات کا اظہار تھا کہ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک، ترقی پذیر ممالک اور سوشلسٹ ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ یہ دور عالمی تعلقات میں ڈپلومیسی کے لحاظ سے ایک Radical دور تھا اور اس سارے عالمی منظرنامے میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کا عکس نظر آنے لگا تھا۔

جنگ کے بعد بھارت نے ڈپلومیسی میں تبدیلی کی۔ وہ یہ تھی کہ اس نے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات کو نئے ار ادوں کے ساتھ مزید مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا اور ان تعلقات کی انتہا پرہند، سوویت دوستی کا معاہدہ معرضِ وجود میں آیا۔ 9 اگست 1971ء کو بھارت اور سوویت یونین نے 20 سالہ ’’معاہدہ برائے امن ،دوستی اور تعاون‘‘ تشکیل دیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سلامتی کونسل سمیت اقوامِ متحدہ کے دیگر اداروں کا سامراجی کردار کھل کر سامنے آیا۔ سلامتی کونسل نے دونوں ممالک کی جنگ بندی کا معاہدہ کروا کر امن کے قیام کے لیے ایسے راستوں کا تعین کیا جس میں پاک بھارت تعلقات میں بنیادی تنازع کشمیر پر کوئی گفتگو یا کسی اہم نکتے کے لیے قدم نہ اٹھایا گیا۔

صدر ایوب خان سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کے بعد جس سرعت سے بھارت کے ساتھ مذاکرات پر جارہے تھے اس سے ایوب خان کی ’’وطن دوستی‘‘ کے دعوے بڑے مضحکہ خیز محسوس ہورہے تھے۔ ان مذاکرات میں کشمیر کے تنازع کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جارہا تھا۔ درحقیقت ایوب خان ایسے اقدامات نہیں اٹھانا چاہتے تھے جن سے امریکہ کو ناراضگی ہو۔ پاکستان کے خودساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا فکری تضاد دیکھئے کہ ستمبر 1959ء میںایوب خان نے بھارت کے وزیرِاعظم نہرو کو امریکی خواہشات کے مطابق تجویز دی کہ دونوں ملک بھارت اور پاکستان بیرونی توسیع پسندی کے خلاف مشترکہ دفاعی معاہدے میں منسلک ہوجائیں۔ ایوب خان کی اس تجویز پر بھارتی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے کہا کہ:
’’مشترکہ دفاع کس کے خلاف۔‘‘در اصل یہ امریکی تجویز تھی۔

جب جنوری 1966ء کو بھارتی وزیرِاعظم لال بہادر شاستری اور پاکستانی صدر ایوب خان سوویت یونین کے وزیرِاعظم الیکسی کوسیگن کی دعوت پر تاشقند میں امن مذاکرات کے لیے روانہ ہوئے تو ایوب خان کی کوشش تھی کہ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو ممکنہ حد تک مذاکرات کے عمل سے دور رکھا جائے اور اس کی جگہ الطاف گوہر کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ بھارت اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان جو معاہدہ وجود میں آیا اس میں یہ طے کیا گیا کہ ’’دونوں ملکوں کی افواج 5 اگست 1965ء سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی جائیں۔‘‘ سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد کے بعد پاکستان بھر میں یہ بات گردش میں تھی کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے سے اپنی توجہ ہٹا چکا ہے اور اقوامِ متحدہ جیسا ادارہ امریکہ کے مفادات کا تحفظ کررہا ہے جو کہ پاکستان کے بجائے بھارت کو ’’شک کا فائدہ‘‘ دینا چاہتا ہے۔ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ناراض رویّے نے ان افواہوں کو حقیقت میں بدل دیا ۔ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت وزیرِ خارجہ پاکستان کے دفاع، سلامتی اور کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگرکرکے پاکستان کی آواز کو نمایاں کر دیا تھا اس لیے ذوالفقار علی بھٹو اب کشمیر کے مسئلے اور مذاکرات پر سند سمجھے جارہے تھے جبکہ ایوب خان اب اپنے وزیرِخارجہ سے قربت کا اظہار کرنے کے بجائے قریب قریب لاتعلقی کا مظاہرہ کررہے تھے۔

10 جنوری 1966ء کو تاشقند کے متنازع اور مشہور معاہدے پر صدر ایوب خان اور وزیرِاعظم شاستری نے دستخط کردیئے۔ پوری قوم کی توجہ تاشقند میں ہونے والے پاک بھارت مذاکرات کی طرف تھی۔ جب معاہدے کی خبر پاکستان پہنچی تو یہاں کے دانشور، سیاسی اور عوامی حلقوں میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ چونکہ پاکستان کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازع کے حل کے بغیر پاک بھارت امن کا قیام محض ایک خواب ہے گو پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے کوئی عسکری فتح تو حاصل نہیں کی تھی لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے سے بڑے ملک (بھارت) کے عسکری عزائم کی تکمیل ناممکن بنا کر بھارتی افواج کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور عوام یہ سمجھتے تھے کہ توسیع پسند بھارت کی عسکری برتری کا غرور توڑنے کے بعد ہم سفارتی میدان میں بہتر نتائج برآمد کرسکتے ہیں لیکن تاشقند معاہدہ پاکستان کے عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا جبکہ پاکستان بھر میں مشکل وقت میں ساتھ چھوڑنے پر امریکہ کے خلاف نفرت بھی ابھری تھی ۔

وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے سلامتی کونسل میں جارحیت کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:’’جموں اور کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہے اور نہ ہی رہ سکتے ہیں۔ جموں اور کشمیر کے لوگ پاکستان کا حصہ ہیں۔ ان کے خون، ان کے رہن سہن، ان کی زندگی، ان کی ثقافت، ان کے جغرافیے اور تاریخ میں پاکستان ہے اور ہم اپنے دفاع کے لیے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔‘‘
یہ الفاظ پاکستان کے عوام کی آواز بن چکے تھے لیکن تاشقند میں ہونے والے معاہدے میں اس آواز کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی جارہی تھی۔ اس معاہدے کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹونے تاشقند ہی میں اپنا استعفیٰ صدر ایوب خان کو پیش کردیا لیکن ایوب خان نے کہا کہ یہاں پر آپ کے استعفیٰ کی خبر قومی مفاد میں نہیں جس کی وجہ سے وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس خبر کو باہر نہ آنے دیا۔ ایوب خان کی کوشش تھی کہ اپنے وزیرِخارجہ کو کسی نہ کسی طرح مطمئن کیا جائے لیکن نئی خارجہ پالیسی کے معمار ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کے کردار پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے نئی سیاست کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ معروف بھارتی صحافی کلدیپ نایر جو وزیرِاعظم شاستری کے ہمراہ تاشقند میں موجود تھے انہوں نے اپنی کتاب ’انڈیا کریٹیکل ٹائمز‘‘ میں لکھا ہے کہ:

’’بھٹو شروع ہی سے کچھ ناراض سے تھے۔ سارے پاکستانی مندوبین نے شاستری کی افتتاحی تقریر پر زور زور سے تالیاں بجائیں مگر مسٹر بھٹو بڑی لاتعلقی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں کو باہم جوڑے چپ چاپ بیٹھے رہے۔ بھارتی وزیرِاعظم جن کو پاکستان کے صدر ایوب خان نے Man of Peace قرار دیا تھا،اس معاہدے پر بے انتہا خوش تھے۔ اس دوران ان کو وہاں تیسرا دل کا دورہ پڑا جو کہ ان کی موت کا سبب بنا۔ شاستری کے سرکاری معالج آر این چھگ جو ان کے ساتھ والے کمرے میں قیام پذیر تھے وہ اپنے مریض شاستری کو بچانے کے لیے کمرے میں گئے لیکن مریض ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنی زندگی کے سانس پورے کرچکا تھا۔ جب وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو سیکرٹری خارجہ نے اطلاع دی:
’’The bastard is dead.‘‘
تو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا:
’’Which one?‘‘
ایوب خان کو معلوم تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے گلی کوچوں میں اب ایک مقبول ترین ہیرو قرار دیئے جا چکے ہیں اس لیے انہوں نے کوششیں جاری رکھیں کہ بھٹو ایوب اختلافات کی چنگاریاں پاکستان کے شہروں اور قصبوں تک نہ پہنچ پائیں لیکن عوام کا شعور ان اختلافات کی حقیقتوں کو محسوس کررہا تھا۔

تاشقند معاہدہ جس کو صدر ایوب خان ایک آبرومندانہ امن سمجھوتہ قرار دے رہے تھے،کو عوام نے مسترد کردیا اور ملک کے بڑے شہروں میں اس معاہدے کے خلاف مظاہرے برپا ہوئے۔ مغربی پاکستان میں معاہدۂ تاشقند کے خلاف شدید ردِعمل صرف عوامی حلقوں میں بلکہ فوجی افسروں نے بھی معاہدۂ تاشقند اچھی نگاہ سے نہ دیکھا۔ پاکستان واپس آنے کے بعد ردعمل وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو اپنے آبائی شہر لاڑکانہ چلے گئے جہاں انہوں نے مستقبل میں اپنے سیاسی کردار کا تعین کرنا تھا۔ 15 جنوری کو انہوں نے ایک اخباری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ:
’’ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ ہم تاشقند میں مسئلہ کا فوری حل تلاش نہیں کرسکے۔ اعلانِ تاشقند بذاتِ خود کوئی منزل نہیں اور نہ ہی بھارت سے ہمارے تعلقات میں تبدیلی کی ضمانت دے سکتا ہے کیونکہ مسئلۂ کشمیر کے دائمی اور پرامن حل کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے شہداء نے اس خریدے ہوئے امن کے لیے نہیں بلکہ باعزت اور منصفانہ امن کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جاسکتی۔ ہم خود کو اس کے اہل ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔‘‘

اس عرصے میں بھٹو نے متعدد غیرملکی دورے بھی کیے لیکن اختلافات کی چنگاریاں کم نہ ہونے پائیں اور ذوالفقارعلی بھٹو نے اکثر اوقات تاشقند معاہدے پر بھرپور اعتراض کا اظہار جاری رکھا۔ امریکہ کی طرف سے ایوب خان پر بھی ذوالفقارعلی بھٹو کو حکومت سے علیحدہ کرنے کا دبائو بڑھتا رہا۔ اسی دوران پاکستان کے عوام اور ذوالفقارعلی بھٹو کے عظیم دوست احمد سوئیکارنو جنہوں نے تیسری دنیا کی جدوجہد میں امریکی امپیریل ازم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا کے خلاف امریکہ نے انڈونیشیا کے اندر سی آئی اے کے ذریعے ایک ردِّانقلاب کی صورت پیدا کرکے احمد سوئیکارنو کے لاکھوں حامیوں کے قتلِ عام کے منصوبے پر عمل شروع کرایا۔ یہ سانحہ تیسری دنیا کے نوآزاد ممالک کے لیے ایک عظیم المیہ تھا۔ سازش کے تحت احمد سوئیکارنو کو ان کے صدارتی محل میں نظر بند کردیا گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو اس پیچیدہ صورتحال میں 9 جون 1966ء کو جکارتہ پہنچے اور تیسری دنیا کے معروف راہنما احمد سوئیکارنو سے ان کی نظربندی کے دوران ملاقات کی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ نے پاکستان اور انڈونیشیا سے دو سامراج دشمن راہنمائوں سے چھٹکارا پانے کا اہتمام کیا تھا۔ اسی لیے جب وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کو وزارتِ خارجہ سے علیحدہ کیا گیا تو برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے 20 جون ٰ1966ء کے شمارے میں لکھا کہ:
’’دنیا بھر میں مسٹر بھٹو کی علیحدگی کو امریکی دبائو اور خواہش کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے کیونکہ وہ ایشیا میں چین کے صفِ اول کے حامیوں میں سے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چین کے ساتھ دوستی سے ہی پاکستان کا مستقبل محفوظ اور خوش آئند ہوسکتا ہے۔‘‘

بھٹو کے استعفیٰ کی خبرسب سے پہلے انڈیا ریڈیو نے 5 جون 1966ء کو نشر کی جبکہ صدر ایوب خان نے 18 جون 1966ء کو بھارتی ریڈیو کی خبر کی تصدیق کردی اور یہ کہا کہ وزیرِخارجہ ذوالفقارعلی بھٹو طویل عرصے تک قومی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے کافی تھک گئے تھے اس لیے وہ رخصت پر جارہے ہیں جبکہ 8 جولائی 1966ء کو سرکاری طور پر ذوالفقارعلی بھٹو کی وزارتِ خارجہ سے علیحدگی کا اعلان کیا گیا اور یوں ذوالفقارعلی بھٹو اقتدار کے ایوانوں سے پاکستان کے عوام کے ساتھ آن ملے۔ وہ اقتدار میں اپنے خاندان کے جاگیردارانہ پس منظر کے حوالے سے شامل کیے گئے جہاں ان کی ذہانت اور قابلیت نے ان کو وزارتِ خارجہ کے اہم ترین قلمدان تک پہنچا دیا اور وہاں سے وہ ایک ترقی پسند اور قوم پرست عوامی راہنما کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے جس کے دوران ان کے دنیا بھر کے مقتدر راہنمائوں سے خصوصی اور ذاتی تعلقات قائم ہوگئے۔ ذوالفقارعلی بھٹو حکومتی اور عالمی تعلقات کے وسیع تجربے کے بعد عوام کی صفوں میں شامل ہوئے جو ایک مدت سے ان کی بھرپور شخصیت سے متاثر ہوچکے تھے۔ مغربی پاکستان میں اب ذوالفقارعلی بھٹو کی مقبولیت کا کوئی شریکِ کار نہیں تھا ۔

جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والے سخت گیر گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان اور پھر جنرل موسیٰ خان جیسے آمریت پسند حکمران ان کے راستے کی رکاوٹ بننے کی کوششوں میں مصروف تھے لیکن عوامی بھٹو کے لیے ریاستی طاقت کوئی رکاوٹ ثابت نہ ہوئی۔ ان کے استعفیٰ سے متعلق عالمی مدبر یہ محسوس کرہے تھے کہ یہ امریکی دبائو کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ 13 اگست 1966ء کو برٹرینڈ رسل نے برما کے جنرل نی ون کو لکھا:’’ذوالفقارعلی بھٹو سے معلوم ہوا ہے کہ آپ لندن میں تھے ۔وہ بھی آپ کو ایشیا کا ایک عظیم لیڈر قرار دیتے ہیں اور ان کی رائے سے میرے ذاتی تأثرات کو تقویت ملی ہے۔ اگر آپ سے ملاقات ممکن ہو اور ہمیں اہم موضوعات پر تبادلۂ خیال کا موقع میسر آئے تو مجھے مسرت ہوگی۔ مجھے نکرومہ، صدر سوئیکارنو اور ذوالفقارعلی بھٹو جیسے سچے قوم پرست اور ترقی پسند راہنمائوں پر امریکی دبائو سے شدید تشویش ہوئی ہے۔‘‘

ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومتِ پاکستان سے علیحدگی افرو ایشیائی اقوام کے لیے ایک بڑا نقصان تھا کیونکہ نوآزاد ترقی پذیر ممالک ذوالفقارعلی بھٹو کی شکل میں ایک سامراج دشمن راہنما کو ترقی پذیر قوموں کے راہنمائوں کے درمیان لڑی کا ایک موتی تصور کرتے تھے۔
اقتدار کی سیاست کے تجربے کے بعد اب ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے روانگی اور پاکستان کے عوام کے ساتھ رابطے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ گو پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ان کی رخصتی کے موقع پر الوداعی ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن اسلام آباد کے ایوانوں میں براجمان حکمرانوں کو اس حقیقت کا علم نہیں تھا کہ پاکستان کے عوام ’’سٹیٹس کو‘‘ کے خلاف ایک بھرپور عوامی بغاوت کا فیصلہ کرچکے ہیں اور اب پاکستان کی سیاست میں ایک نئے باب کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

ان دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی جاری تھا لیکن عوام ان فرسودہ اداروں کے خلاف عوامی اجلاسوں کا تہیہ کرچکے تھے جن کی قیادت ذوالفقارعلی بھٹو نے کرنی تھی۔ 21 جون 1966ء کو خیبر میل میں ذوالفقارعلی بھٹو نے سوار ہوکر عوامی ٹرین چلانے کا فیصلہ دے دیا۔ راولپنڈی کے ریلوے سٹیشن پر قوم کے عوامی ہیرو کو آنسوئوں، سسکیوں اور جوش و جذبے کے بھرپور جذبات کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ ہزاروں کا عوامی اجتماع سامراجی سازشوں کے خلاف نعرے بلند کررہا تھا اور اسی طرح دوسرے دن لاہور کے ریلوے سٹیشن پر طالبِ علم، نوجوان، مزدور، صحافی، دانشور، محنت کش اور شہری اپنے قائد کے استقبال کے منتظر تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اعلان کیا کہ ’’عوام کی یہ ٹرین اپنے حقوق کی بازیابی تک چلتی رہے گی۔‘‘ لاہور ریلوے سٹیشن پر عوام کے ہجوم نے ابھرتے ہوئے عوامی قائد کا تاریخ ساز استقبال کرکے اس بات کا فیصلہ دے دیا کہ ان کو ایک قیادت میسر ہوگئی ہے جو عوام کے انداز میں سوچتی ہے۔ ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کر سیاستدانوں کے فیصلوں کی سیاست کو مسترد کرنے کا ایک نیا انداز۔ عوام کے فیصلے، عوام کے سامنے اور ساتھ بیٹھ کر کرنے کا اعلان۔ یہ پاکستانی سیاست میں ایک بالکل نیا انداز تھا۔ 22 جون 1966ء کو لاہور کا ریلوے سٹیشن عوامی جمِ غفیر کے ان نعروں سے گونج اٹھا:
’’امریکی سامراج مردہ باد‘‘
’’امریکی امداد مردہ باد‘‘
’’پاک چین دوستی زندہ باد‘‘
’’چیئرمین مائو زندہ باد‘‘
’’ایوب خان مردہ باد‘‘

’’بھٹو کو واپس لو، بھٹو قوم کا سرمایہ ہے‘‘
’’بھٹو کو واپس لو، بھٹو ہماری غیرت ہے‘‘
لاہور کے ریلوے سٹیشن پر عوام کے اس شاندار تاریخ ساز اجتماع میں سینکڑوں ترقی پسند سیاسی کارکن اور دانشور بھی شامل تھے جنہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کی قیادت میں پاکستان میں ترقی پسندانہ بنیادوں پر ایک نئے سماج کی تشکیل کا ارادہ کرلیا تھا۔ جذباتی ماحول کے سبب لاہور کے ریلوے سٹیشن پر ابھرتے ہوئے عوامی قائد کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تو جس رومال سے نوجوان قائد نے آنسو پونچھے اس کو ایک نوجوان نے دس ہزار روپے میں خرید کر اپنے قائد کے ساتھ عقیدت کا اظہار کیا اور اس کے بعد قوم نے اپنے قائد کا لاڑکانہ اور کراچی میں اسی طرح عوامی استقبال کرکے اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایوب حکومت ذوالفقارعلی بھٹو کے اس قدر شاندار استقبال سے گھبرا گئی۔ یہ حکومت کی توقع سے بڑا استقبال تھا بلکہ بھٹو کے ان استقبالیہ اجتماعات نے اب ایک عوامی تحریک (Mass Movement) کی شکل اختیار کرنی شروع کردی تھی۔۔۔۔ (ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کی کہانی “میرا لہو” کا بقیہ حصہ آٹھویں قسط میں ملاحظہ فرمائیں)

close