آزاد کشمیر حزب اختلاف اور حزب اقتدار ریاست کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے سے متعلق مجوزہ پندرہویں آئینی ترمیم کا راستہ روکنے کیلئے متحد ہو گئے

مظفرآباد (پی این آئی) آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے اراکین اسمبلی وزارت امور کشمیر کی جانب سے آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے سے متعلق مجوزہ پندرہویں آئینی ترمیم کا راستہ روکنے کیلئے متحد ہوگئے ۔قانونی ساز اسمبلی کے سپیکر چوہدری انوار الحق کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں اپوزیشن کے رکن اسمبلی اور سابق وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر کی جانب تیرہویں آئینی ترمیم کے تحفظ اورپندرہویں کا راستہ روکنے کیلئے ایوان میں تحریک التواء پیش کی گئی جسے ایوان نے بحث کیلئے متفقہ طور پر منظور کر لیا ۔

تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن اور حکومتی اراکین اسمبلی نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنے تک آزاد ریاست جموں وکشمیر کے آئینی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے آزاد کشمیر حکومت اور اسمبلی کے اختیارات کوکم کرنے اور مالیاتی اختیار واپس لینے کی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔تحریک التواء کے محرک راجہ محمد فاروق حیدر خان نے ایوان کوبتایا کہ آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیرکی آئینی حیثیت میں تبدیلی انتظامی مالیاتی اور قانون سازی سے متعلق اختیارات میں کمی سے متعلق وفاقی وزارت امور کشمیر کی جانب سے پندرہویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودے کشمیریوں اور حکومت پاکستان کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی سازش ہے یوں محسوس ہورہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کسی غیر تحریری معاہدے کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو تقسیم کرنے پر متفق ہیں ۔

انکا کہنا تھا آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی نے عبوری آئین 1974 میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے آئینی ,قانونی مالیاتی اور انتظامی اختیارات کو ایک جمہوری پارلیمانی نظام کی منشاء اور عوام کی امنگوں کے مطابق 2018 میں بحال کیا پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان ترامیم کیلئے حکومت آزاد کشمیر سے اتفاق کیا جس پر کشمیری عوام میاں محمد نواز شریف, شاہد خاقان عباسی, مفتاح اسماعیل اور بیرسٹر ظفراللہ کے شکرگزار ہیں راجہ محمد فاروق حیدر نے ایوان کو بتایا کہ یکم جولائی کو وزارت امور کشمیر نے آزاد حکومت کو ایک مکتوب تحریر کیا ہے جس میں 31 جولائی تک عبوری آئین 1974 میں پندرہویں آئینی ترمیم کے مسودے کو حتمی کرنے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی گئی یے جس میں وزارت امور کشمیر وزارت دفاع اور وزارت قانون کو نمائندگی دینے کے علاوہ آزاد کشمیر حکومت کو تین نمائندے نامزد کرنے کا کہا گیا ہے اس مکتوب پر آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری کا قلمی نوٹ بھی موجود ہے راجہ محمد فاروق حیدر خان کا کہنا ہے کہ ۔

اس مکتوب سے آزاد کشمیر کو صوبائی سٹیٹس دینے اور حکومت آزاد کشمیر سے متعلق حکومت پاکستان کی ذمہ داریوں کا ازسرنو تعین کرنے کا عندیہ ملتا ہے انھوں نے کہا کہ اسی مراسلہ میں آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کی طرف سے پاس کرداہ تیرہویں ترمیم پر حقائق سے ہٹ کر آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی یے راجہ فاروق حیدر نے کہا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں وکشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ عوام نے رائے شماری کےذریعہ کرنا یے ۔

راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں وزارت خارجہ کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔اس مکتوب سے ریاست جموں وکشمیر کے شہری جہنوں نے ہمیشہ ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا کو شدید صدمہ پہنچا ہے ۔اس طرح کے مکتوب سے آزاد کشمیر کے عوام اور حکومت پاکستان کے درمیان شدید غلط فہمیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے

تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر تعلیم دیوان علی چغتائی وزیر بلدیات خواجہ فاروق احمدمشیر مذہبی امور حافظ حامد رضا جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی سردار حسن ابرہیم پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی سردار جاوید ایوب اور سید بازل نقوی نے آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت اور تشخص پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تحریک التواء کے محرک راجہ محمد فاروق حیدر خان نے پندرہویں آئینی ترمیم کے خلاف اسمبلی کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کرنے کا اعلان کیا ۔۔۔۔

close