اسلام آباد (پی این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیدیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔ہونے والی سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، کون ذمہ دار ہے؟ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے گئے اور ان کی ہی خلاف ورزی کی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اور وہ دفعات لگائیں جو لگتی ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ دفعات اس لیے لگائی گئی تھیں تاکہ عدالت سے بچا جا سکے، یہ بتا دیں کہ اس سب سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کسی عام آدمی کے لیے ایکشن لیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا۔ڈائریکٹر ایف آئی نے کہا کہ گرفتاری کے بعد برآمدگی پر بھی مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کس قانون کے تحت مقدمہ درج ہونے سے پہلے کسی کو گرفتار کرتے ہیں، آپ اپنے عمل پر پشیمان تک نہیں
اور دلائل دے رہے ہیں۔چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ کسی کا تو احتساب ہونا ہے، فیصلہ کریں گے کہ کون ذمہ دار ہے، صحافیوں کی نگرانی کی جارہی ہے، کیا یہ ایف آئی اے کا کام ہے؟ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے، ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا ہے یہ تاریخ ہے لوگ باتیں کریں گے۔بعدازاں فریقین کے
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا ۔عدالت نے نماز جمعہ کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے پیکا آرڈیننس 2022 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔عدالت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کیخلاف پی ایف یوجے سمیت دیگر درخواستیں منظور کرلیں۔عدالت نے 4 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ پیکا آرڈیننس کے تحت ہونے والی تمام کارروائیاں کالعدم قرار دی جاتی ہیں اور اس آرڈیننس سے متاثرہ افراد متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں
۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کوئی شک نہیں کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس غیرقانونی ہے اور اسے ختم کیا جاتا ہے، آرٹیکل 19 شہریوں کو حق آزادی اظہار رائے دیتا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 20 فروری کو چھٹی کے دن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے شخص میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی
صورت میں قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کردی گئی ہے۔آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی ویژن پر کسی بھی فرد کے بارے میں فیک نیوز
(جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی،
ان کیسز کیلئے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔مذکورہ آرڈیننس کو امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022 کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوچکا ہے اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے
ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے
، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں