اعصاب شکن مقابلہ ، جو بائیڈن نے سخت جان ٹرمپ کو کیسے شکست سے دو چار کیا؟ مکمل کہانی منظر عام پر آ گئی

واشنگٹن (آئی این پی )امریکا کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن نے 284 الیکٹورل ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی۔ تفصیلات کے مطابق جو بائیڈن کی کامیابی کی تصدیق کے بعد صدارتی انتخاب کے بعد تین روز تک نتائج کے حوالے سے جاری کشمکش اور بے یقینی کی صورتحال ختم ہوگئی۔جو

بائیڈن امریکا کے سب سے طویل العمر صدر ہوں گے۔امریکی خبر رساں ایجنسی نے ہفتہ کی شام جو بائیڈن کو فاتح قرار دیا۔ امریکی نشریاتی اداروں سی این این، این بی سی نیوز اور سی بی ایس نیوز نے بھی اپنی رپورٹس میں کہا کہ فیصلہ کن ریاست پنسلوانیا میں کامیابی کے بعد جو بائیڈن انتخاب میں فاتح قرار پائے ہیں۔منگل کی شام پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد امریکیوں کی نظریں ٹی وی اسکرین اور موبائل فونز پر جمی ہوئی تھیں اور دنیا بھر میں نئے امریکی صدر کے اعلان کا انتظار کیا جارہا تھا۔جو بائیڈن نے اہم ریاستوں وسکونسِن اور مشی گن میں کامیابی حاصل کرکے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات کم کر د یئے تھے۔انتخاب کے دو روز بعد بھی کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 270 الیکٹورل ووٹس حاصل نہیں کر سکا تھا اور ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے جو بائیڈن 264 جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس ہی سمیٹ سکے تھے۔تاہم پنسلوانیا کے 20 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے کے بعد جو بائیڈن کے کل ووٹس کی تعداد 284 ہوگئی ہے۔ جہاں اب بھی لاکھوں ووٹوں کی گنتی باقی ہے، جو بائیڈن تاریخ میں سب سے زیادہ 7 کروڑ 10 لاکھ سے زائد ووٹ کر چکے ہیں۔بدھ کی سہ پہر کو پریس کانفرنس کے دوارن سابق نائب صدر نے کہا تھا کہ انہیں پوری امید ہے کہ وہ انتخاب جیت جائیں گے، لیکن وہ ابھی فتح کا اعلان نہیں کر سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ میں امریکا کے صدر کے طور پر حکومت کروں گا، ہماری فتح کے بعد کوئی ریاست سرخ یا نیلی نہیں ہوگی، صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہوگا۔دوسری جانب ووٹنگ کا عمل ختم ہونے کے دو روز بعد وائٹ ہاس میں تنہا ہوتے ہوئے ٹرمپ نے ایک غیر معمولی بیان میں کہا کہ وہ انتخابات چوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹس ہم سے الیکشن چرانے کے لیے غیر قانونی ووٹ استعمال کر رہے ہیں۔امریکا کی سپریم کورٹ نے پنسلوانیا میں انتخابی دن کے بعد پہنچنے والے بیلٹس کی گنتی کو فوری طور پر روکنے کی ریاستی ریپبلیکنز کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔ریاست پنسلوانیا کے شہر اسکرینٹن میں پیدا ہونے والے جو بائیڈن نے سیاست کا آغاز 1972 میں ریاست ڈلاوئیر سے سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی کے ساتھ کیا۔انہیں خارجہ پالیسی کا کافی تجربہ ہے اور وہ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے دو بار چیئرمین رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے عدالیہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرپرسن کے طور پر بھی فرائض

انجام دیئے ۔ان کا یہ طویل کیریئر واضح طور پر داغ سے پاک نہیں ہے۔ انہیں 1994 کے پرتشدد جرائم کنٹرول کرنے اور قانون کے نفاذ سے متعلق قانون کی حمایت پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ناقدین کہتے ہیں کہ یہ قانون بڑے پیمانے پر افریقی امریکیوں کو قید کیے جانے کی وجہ بنا۔جو بائیڈن کو اپنی زندگی میں کئی دکھوں اور المیہ سے گزرنا پڑا۔ سال 1972 میں عین ان دنوں میں جب وہ سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھانے والے تھے، ان کی بیوی اور تین بچے کار حادثے کا شکار ہوئے جس میں ان کی اہلیہ اور بیٹی ہلاک ہوگئے جبکہ دونوں بیٹے بہواور ہنٹر شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے، جو بائیڈن حلف اٹھائے بغیر ہسپتال روانہ ہوئے اور بعد ازاں وہیں سے سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔سال 2015 میں جب جو بائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے، ان کے 46 سالہ بیٹے بیو بائیڈن کی دماغ میں کینسر کی وجہ سے موت ہو گئی۔جو بائیڈن نے صدر کے لیے پہلی 1988 میں انتخاب میں حصہ لیا لیکن برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما نیل کینوک کی تقریر چوری کرنے کے انکشاف کے بعد وہ دوڑ سے دستبردار ہوگئے۔انہوں نے 2008 میں ایک بار پھر اپنی قسمت آزمائی لیکن اس بار بھی ناکام رہے اور ڈیموکریٹک پارٹی نے براک اوباما کو صدر کے لیے نامزد کیا۔ جو بائیڈن کو بعد ازاں نائب صدر کے لیے نامزد کیا گیا اور اوباما کے ساتھ اگلے 8 سال تک خدمات انجام دیں۔جو بائیڈن، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے امریکا کے نعرے کا تنہا امریکا کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں، بطور عالمی رہنما ملک کی پوزیشن بحال کرانے کے لیے پرعزم ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں