ریاست کو بچانے کیلئے سیاست کی قربانی دے دی گئی

اسلام آباد (آئی این پی) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کسی کو ریاست کا مفاد داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائیگی‘ ایک لیڈر ملک کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے‘ساری قیادت کو سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ‘پچھلی حکومت کے آئی ایم معاہدے کی پاسداری سے انحراف پر پاکستان کا تشخص خراب ہوا ‘آئی ایم ایف کی تمام شرطیں پوری کی جارہی ہیں ‘آج سیاست دان گالی بن چکا ہے ‘ اس طرح کے مخدوش حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے عدالت اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے سیاست قربان کردی‘

پاکستان کیلئے آباؤ اجداد نے اس لئے نہیں قربانیاں دیں کہ ہم کشکول لے کر پھرتے رہیں اس لیے قربانیاں نہیں دیں کہ قرض کے افیون کے عادی بن جائیں، قومیں وہی اٹھتی ہیں جن کے دلوں میں بے پناہ جذبہ تڑپ ہو۔ جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے سینیٹ آف پاکستان کے پچاس سال پورے ہونے پر خصوصی اجلاس میں شرکت کی ، اجلا س میں غیر ملکی مندوبین اور سفراء نے بھی شرکت کی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نے وزیر اعظم نے کہا کہ گولڈن جوبلی کی تقریبات کے انعقاد پر چیئرمین اور سینیٹرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،پاکستان میں حالیہ سیلاب میں مدد کرنے پر تمام دوست ممالک کا مشکور ہوں، کوئی شک نہیں کہ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، یوکرائن جنگ کیوجہ سے پاکستان میں بھی مہنگائی ہے اور ترقی پذیر ممالک شدید متاثر ہوئے ہیں ۔ انھوںنے کہا کہ سابق دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا گیا مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوا، جس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی، اقتدار میں آتے ہی ہمارے پاس دو راستے تھے، ایک راستہ تھا کہ سبسڈیز دیتے یا ذمہ داری اٹھاتے، ہم نے مشاورت سے ریاست کو محفوظ کرنے کا راستہ اپنایا، ہم نے کفایت شعاری اپنائی، حکومتی اتحاد جماعتوں کے سربراہان نے کہا کہ ہماری سیاست قربان ہو جائے خیر ہے لیکن ہم ملکر ریاست کو بچانا ہے ۔ آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی سے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچا، بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی غلطی تسلیم کر لے، خطا کار انسان ہوں بے پناہ خطائیں کی ہوں گی، اللہ سے دعا ہے وہ پاکستان کو بہتری کی طرف لے جائے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی میں شدید اختلافات کے باوجود پاکستان کے عظیم تر مفاد میں سیاسی قائدین ایک ساتھ بیٹھتے تھے، ماضی میں قائدین نے مسائل پر گفت و شنید کی اور اسکا حل نکالا، ہم نے دیکھا کہ 1965 میں سب قوم وطن دفاع کے لئے متحد ہوئے، شدید اختلاف کے باوجود 1971 جنگ کے بعد جب وزیراعظم نے شملہ روانہ ہوئے تو سب نے رخصت کیا۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نیایپکس کمیٹی میں سب کو اکٹھا کیا، اس طرح قومیں چیلنجز کا سیاسی بصیرت کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں، 2020 فروری میں کرونا کے دوران لندن سے پاکستان آیا، سپیکر قومی اسمبلی نے کرونا کے دوران میٹنگ کال کی تھی، سابق وزیراعظم نے تکبر کی وجہ سے کرونا کے دوران اجلاس نہیں بلایا، بلاول بھٹو سے مشورہ کیا ہمیں انا کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ویڈیو لنک کے دوران جب میرے خطاب کی باری آئی تو سابق وزیراعظم میٹنگ سے چلے گئے، اس کو کہتے ہیں انا۔ انہوں نے کہا کہ میری بات کرنیکا مقصد کسی کی توہین کرنا نہیں۔

بھارتی خلاف ورزی پر اہم اجلاس کی اطلاع ملی، اس وقت ڈیڑھ گھنٹہ ہم نے سابق وزیر اعظم کا قومی ایشو پر انتظار کیا، اس وقت بھی سابق وزیراعظم نے ہمارے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کیا، قوم کے لیڈر میں تکبر نہیں ہوتا، محبتیں بانٹتا ہے، ہمیں دن رات چور، لیٹرے کہا گیا۔انہوں نے کہا کہ اپنی زندگی میں اتنے انتہائی مخدوش حالات نہیں دیکھے، قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، اداروں کی بے توقیری کی جا رہی ہے، جلا، گھیرا کو ہوا دی جا رہی ہے، ان حالات میں گولڈن جوبلی کا خصوصی اجلاس بلایا گیا ہے، یہ حالات آج پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں فاشسٹ طریقے سے نیب کے قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے تبدیل کیا گیا، گزشتہ حکومت میں اربوں، کھربوں کی کرپشن ہوئی، ریٹائرڈ ججز کو لگانے کا آرڈیننس جاری کیا گیا، یہ وہ صورتحال تھی جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے، بعض ایسے راز سینے میں دفن ہیں ان پر بات نہیں کر سکتا، قومیں وہی کھڑی ہوتی ہیں جو قربانیاں دیتی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ معاشی نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے، اگر سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو پھرمعاشی استحکام خواب ہے، وزیر خزانہ اور ہماری ٹیم ملک کو مشکلات سے نکالنے کی پوری کوشش کر رہی ہے، آئی ایم ایف کی شدید کڑوی شرائط پوری کر دی ہیں، اگلے چند دنوں میں سٹاف لیول کا معاہدہ ہونا چاہیے، آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر میں اپنے لوگوں کے شور کرنے کا بھی قصور ہے، آئی ایم ایف والیاندھے نہیں سب کچھ دیکھ رہے ہیں، لیڈر وہ ہوتا ہے جو ذات کی قربانی دے ملکی مفاد کی نہیں۔انہوں نے کہا کہ کارگل معرکے نے کشمیر کاز کو کمزور کیا، نواز شریف کو مشورہ دیا آرمی چیف کو بھی امریکا ساتھ لے کرجائیں، ایک وزیر نے مشورہ دیا آرمی چیف کو ساتھ نہ لے کر جائیں، نواز شریف نے ملک کو تو بچا لیا لیکن اپنی حکومت نہ بچا سکا، لیڈر وہ ہوتا ہے جوعوامی مفاد کے لیے ہر چیز قربان کر دے، پہلے کہا گیا اس حکومت کے پیچھے امریکا ہے، یوٹرن کے بادشاہ نے ایک دن یوٹرن مارا اور پھر کہا نہیں امریکا پیچھے نہیں ہے، نہیں چاہتا تھا اس تقریب میں یہ باتیں کروں، قومی مفاد میں حقائق سامنیلا رہا ہوں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ایک لیڈر تلا ہوا ہے پاکستان کو تباہ کر دینا ہے، اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، بڑے طعنے سننے کو ملتے ہیں کیوں نہیں گرفتار کیا جاتا، احتیاط کے پہلو کو نہیں چھوڑا جا رہا، یہ ممکن نہیں ریاست کا مفاد دا پر لگ جائے اور نیرو بانسری بجاتا رہے، چاہے کچھ بھی ہو جائے ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ معزز ایوان کو گواہ بنا کر کہتا ہوں پاکستان کے عظیم مقصد کے لیے سیاست قربان کر دیں تو کوئی معنی نہیں رکھتی، اللہ نے چاہا تو آئی ایم ایف پروگرام ہو جائے گا، پاکستان کی تاریخ میں 25 پروگرام ہو چکے ہیں، ایک ہمسایہ ملک نے 1988 کے بعد آئی ایم ایف کا رخ نہیں کیا، ہماری صورتحال یہ ہے قرض ملنے پر شادیانے بجاتے ہیں، اس طرح قومیں نہیں بنتیں، بطور قوم ہم سب کو سر جوڑ کر فیصلے کرنا ہوں گے، اکنامک ریفارمز پر پوری لیڈرشپ کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ 2018 میں بطور اپوزیشن لیڈر چارٹر آف اکانومی کی بات کی تو مذاق اڑایا گیا اور ٹھکرا کر چور، ڈاکو کے الفاظ سے نوازا گیا، ابھی بھی وقت ہے ہم ہوش کے ناخں لیں، مل بیٹھ کر فیصلے کریں، چند دن بعد 23 مارچ کی آمد آمد ہے۔انہوں نے کہا کہ آج پوری صورتحال پلٹ دی گئی، کس طرح کہا گیا کہ یہ امپورٹڈ حکومت ہے اور اس کے پیچھے امریکہ ہے، یہ بات مان لی گئی تھی، مگر اگلے دن یوٹرن کے بادشاہ نے یوٹرن لیا، میری بطور وزیراعظم ذمہ داری ہے کہ حقائق سامنے رکھوں، ہم سب کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنا ہو گا، ابھی بھی پورا وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، وقت ہے کہ بیٹھ جائیں۔

close