شہبازشریف کی عدالت پیشی ، سماعت کرنے والے جج کی گاڑی کو بھی روک لیا گیا

لاہور(پی این آئی)وزیراعظم شہباز شریف کی عدالت میں پیشی کے موقع سکیورٹی کے باعث بدنظمی پیدا ہونے پر سپیشل کورٹ کے جج شدید برہم ہوگئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی عدالت میں پیشی کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے روکے جانے پر جج اعجاز حسن اعوان نے برہمی کا اظہار کیا اور وزیراعظم شہباز شریف سے مکالمہ کیا کہ میں گاڑی میں بیٹھاتھا تو سکیورٹی والے میری گارڈ کے گلے پڑگئے،

وکلا اور ملزموں کو اندر نہیں آنے دیا جا رہا۔جج اعجاز حسن کی ناراضی پر وزیراعظم نے کہا کہ میں آیا ہوں، میں نے کہا کسی کو نہ روکا جائے۔اس موقع پر عدالت نے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو طلب کیا لیکن عدالتی اہلکار کے بلائے جانے پر دونوں افسران عدالت میں نہ آئے جس پر جج نے کہا کہ پولیس والوں کے یہ حالات ہیں کہ عدالت کا حکم نہیں مان رہے۔جج اسپیشل کورٹ نے کہا کہ اگر یہ سکیورٹی ہے تو اللہ ہی حافظ ہے،

ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا جب کہ اس موقع پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے بھی عدالت میں بتایا کہ انہیں بھی راستے میں روکا گیا۔فاضل جج نے شہباز شریف سے مکالمہ کیا کہ سکیورٹی والے اندر نہیں آنے دے رہے، میں کیس کی کارروائی کیسے کروں، آپ یہاں بھی وزیراعظم ہیں، یہاں حکم جاری کریں۔علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قوم کے

اربوں روپے بچائے اور برطانیہ میں ہونیوالی تحقیقات میں بھی بے گناہ ثابت ہوئے۔ لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل میں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہو ئے۔منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت کیدوان وزیراعظم شہباز شریف نے روسٹرم پر آکر کہا کہ سابق وزیراعظم کے کہنے پر برطانیہ کی ٹیم نے تفتیش کی لیکن برطانیہ میں ہونے والی تفتیش میں بھی

بے گناہ ثابت ہوا، 2004 میں پاکستان آیا تھا،میرے پاس حرام کا پیسا ہوتا تو پاکستان کیوں آتا۔ میں نے اس قوم کے اربوں روپے بچائے۔ انہوں نے کہا کہ نیب اور این سی اے نے تحقیقات کیں اور این سی اے کی پونے 2 سال کی تحقیقات میں انہیں کچھ بھی نہیں ملا، میں ان کا رشتے دار تو نہیں تھا، پونے 2 سالتحقیقات میں ایک دھیلے کی کرپشن نہیں نکالی گئی۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ خدانخواستہ میں نے کرپشن کی ہوتی تو میں اس عدالت کے سامنے نہ ہوتا۔

close