وزیراعظم عمران خان کی خواہش پوری نہ ہوئی، سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے، سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ سنا دیا

اسلام آباد (پی این آئی)سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے کرانے بارے تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا،تفصیلی فیصلہ چار ،ایک کی اکثریت سے جاری کیا گیا ہے ،جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق عدالت عظمی سے جاری تفصیلی اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے سینیٹ انتخابات سے متعلق عدالت سے رائے مانگی گئی،آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو ایڈوائزری دائرہ اختیار حاصل ہے،آرٹیکل 186 کے تحت صدر سپریم کورٹ سے قانونی رائے لے سکتا ہے،آئین کےآرٹیکل226کےتحت وزیراعظم اوروزیراعلیٰ کےعلاوہ تمام انتخابات خفیہ ہوں گے، آئین کے آرٹیکل 226 کی قانونی طور پر کوئی اور تشریح نہیں ہو سکتی، الیکشن ایکٹ 2017ءکی شق 122/6 کے مطابق سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہونگے،سینیٹ انتخابات قانون کی بجائےآ ئین کے تحت ہوں گے،سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 220 کے مطابق پارلیمنٹ کو بدعنوانی اور دیگر جرائم سے متعلق قانون سازی کا اختیار ہے، آرٹیکل 220 پارلیمنٹ کو الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کے اختیارات واپس لینے سے متعلق قانون بنانے سے روکتا ہے،آرٹیکل 220 کے مطابق وفاق اور صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی معاونت کی پابند ہیں۔سپریم کورٹ نےقراردیاہےکہ الیکشن کمیشن کوصاف اورشفاف انتخابات کویقینی بنانےکےاختیارات حاصل ہیں،الیکشن کمشن کی آئینی ذمہ داری ہےکہ انتخابات شفاف،ایماندارانہ اوربدعنوانیوں سےپاک کرائے،الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کیلئےتمام ضروری اقدامات کرسکتاہے،انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرناالیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمےکیلئےٹیکنالوجی کابھی استعمال کرسکتا ہے،الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کارروائی کرے۔عدالت عظمی نے قرار دیاہے کہ جہاں تک ووٹ کے خفیہ رہنے کا تعلق ہے سپریم اس حوالے سے فیصلہ دے چکی ہے،سپریم کورٹ کے طے کردہ اصول کےتحت ووٹ کی رازداری تاقیامت نہیں رہ سکتی، ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ہونی چاہیے یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ شفاف انتخابات کےلیےتمام ضروری اقدامات کرے،الیکشن کمیشن تمام ترٹیکنالوجیز کواستعمال کرتےہوئے الیکشن شفاف اور کرپشن سے پاک کرائے۔واضح رہےکہ رواں سال یکم مارچ کو سپریم کورٹ نے مذکورہ بالا کیس کا مختصر فیصلہ سنایا تھا۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کا مختصر فیصلہ سنایا تھا۔صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل 226 کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ سےرائے طلب کی گئی تھی۔صدارتی ریفرنس پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنی اختلافی رائےمیں کہاہےکہ سپریم کورٹ کی رائےحتمی تصورہوتی ہے،اختلاف رائےہمیشہ جمہوریت کاحصہ رہا ہے، اختلاف رائےکامطلب نہیں کہ کوئی مسئلہ سیاسی نظام سےنکل کر عدالت آ جائے،عدالت میں معاملہ آنے کا مطلب جمہوری رائے کیلئے خطرہ ہے،قوموں کی زندگی میں مشکل وقت آتے رہتے ہیں،ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب سیاسی نظام مایوس کر دیتا ہے،سیاسی نظام سے مایوسی کا مطلب نہیں کہ عدالت بہتر حل دے سکتی ہے،عدالتوں کا کام ریاست کے دوسرے اداروں میں مداخلت نہیں،عدالت کا کام صرف قانونی سوالات اور نقاط کو طے کرنا ہے،غلطیاں سدھارنے کا کام عدالت کے بجائے منتخب اکثریت کو کرنے دینا چاہیے،عدالت کا رائے دینے کا اختیار طے شدہ نہیں ہے،طے شدہ نہیں کہ عدالت کے کتنے ججز ریفرنس سنیں گے اور انکی سنیارٹی کیا ہوگی۔ریفرنس میں پوچھاگیاسوال واضح طورپرقانونی ہونا چاہیے،پوچھا گیا سوال سیاسی نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے،سیاسی سوالات سے عدالت نہ صرف جانبدار تصور ہوگی بلکہ آئینی حدود سے بھی تجاوز ہوگا،صدر مملکت کی جانب سے بھیجے گئے سوالات قانونی نوعیت کے نہیں۔

close