استعفوں کا فیصلہ کریں یا پھر۔۔۔۔ حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کر دی

ملتان (پی این آئی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن جماعتوں سے تمام معاملات پر مذاکرات کیلئے رضامندی ظاہر کردی۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کیسز پر این آراو کے سوام تمام معاملات پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں، پی ڈی ایم کو چاہیے کہ استعفوں کا فیصلہ کریں۔ ملتان میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کورونا

وائرس کی صورتحال سے متعلق کہا کہ پاکستان میں اموات صفر کی سطح تک آگئی تھیں تاہم اب پھر 50 سے 76 سے قریب اموات یومیہ ہورہی ہیں اور یہ کہہ دینا کہ یہ ایک مسئلہ نہیں ہے حقائق سے آنکھ چرانے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر آگئی ہے اور پاکستان بھی اس سے متاثر ہے ، اندازوں کے مطابق جنوری میں یہ وبا مزید بڑھ سکتی ہے، ان حالات میں ملک کے شہریوں، دانشوروں اور میڈیا کو آگاہی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔وزیر خارجہ نے کہاکہ لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے، تقریبات میں احتیاط نہیں ہورہی، لوگ معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، تاہم حالات غیرمعمولی ہیں، میری ہر گھرانے اور ذی شعور شہری سے گزارش ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کا خود تحفظ کرنا ہے اس میں سختی نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ ایک رضاکارانہ فیصلہ ہے جو آپ نے خود کرنا ہے۔انہوں نے درخواست کی کہ ایس او پیز پر عمل کریں، معمول کی سرگرمیوں کو محدود کردیں جبکہ غیرضروری سرگرمیوں کو مؤخر کردیں، تاہم کچھ ایسی چیزیں ہیں جو آپ مؤخر نہیں کرسکتے اور وہ کرنا لازمی ہیں۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوںنے کہا کہ میری اپیل ہوگی کہ آپ اپنے فیصلوں پر نظرثانی فرمائیں اور میڈیا آگاہی میں اپنا کردار ادا کرے جس طرح پہلے کیا تھا اور وہ کافی مؤثر تھا۔انہوں نے کہا کہ میری رائے میں جہاں جلسہ نہیں ہونا چاہئے تھا اور سیاسی قیادت کو انسانی جانوں کی قدر کرنی چاہیے تھی وہاں کنٹینرز کی ضرورت نہیں تھی اور میں نے یہ بات کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں بھی رکھی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن کو جلسہ نہیں کرنا چاہیے تھا جبکہ انتظامیہ کو کنٹینر نہیں لگانے چاہیے تھے کیونکہ جو تعداد تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بڑے شوق سے جاتے اور قلعہ کہنہ قاسم باغ میں جلسہ کرلیتے، میری رائے میں اس کی اجازت ہونی چاہیے تھی اور میں اب بھی یہی کہوں گا۔نیوز ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ حکومت نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے ان کی سرگرمیوں کو زبردستی نہیں روکنا، تلقین کرنی ہے۔ اس وقت بھی ملک میں صحت کی ہنگامی صورتحال نافذ ہے، یا تو آپ یہ کہیں کہ ڈاکٹرز اور ماہرین، این سی او سی کی کمیٹی میں مشاورت کے بعد جو ہدایات دی جاتی ہیں وہ غلط ہے، سندھ میں آپ جو اسمارٹ لاک ڈاؤن کر رہے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، اگر نہیں ہے تو پھر یہ منطق سمجھ آتی ہے کہ آپ اسے تسلیم نہیں کر رہے تاہم

انہوں نے کہا کہ اگر آپ اسے تسلیم کرتے ہیں اور اس کے باوجود سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو یہ دوہرا معیار ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں اس سے آپ کا اور ملک کا بھی فائدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمل ہوتا رہے گا اور ہم نے سیاسی انداز میں آگے بڑھنا ہے، یہاں کچھ لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مجھے محدود کیا گیا اور پکڑوایا گیا لیکن حقائق کبھی چھپتے نہیں ہیں اور اصلیت سامنے آجائے گی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ میری سوچ کبھی غیرسیاسی و غیرجمہوری نہیں رہی اور میں اطمینان اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی کی پکڑ دھکڑ یا کسی کی تضحیک میں کسی کو اشارہ کیا ہے، نہ یہ میری سوچ ہے اور نہ ہی یہ ملتان کی روایت ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کی سیاسی ضروریات ہوتی ہیں اور اسی کو سامنے رکھتے ہوئے بیان بازی کی جاتی ہے۔اس موقع پر یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹوں کی جانب سے کیے جانے والے دعوے سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر وہ الزام لگانا چاہتے ہیں تو میں روک نہیں سکتا لیکن یہ حقائق پر مبنی بات نہیں ہے تاہم اگر وہ ثابت کرسکتے ہیں تو کریں۔انہوں نے کہا کہ میں ان کے خلاف کوئی ایسی بات نہیں کہوں گا لیکن اگر انہوں نے ایسی بات کی ہے تو یہ نامناسب بات ہے۔ملتان جلسے میں رکاوٹوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت میں ملک میں نہیں تھا، تاہم میں

سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم نے جو جلسہ کیا ہے وہ برمولاناکام تھا اور اگر یہ اسٹیڈیم میں چلے جاتے تو یہ بے نقاب ہوجاتے، ان کے پاور شو کی حقیقت لوگوں کے سامنے عیاں ہوجاتی، تاہم میں سمجھتا ہوں جس نے بھی کیا اس نے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ قیادت کی جانب سے بھی واضح ہدایت تھی کہ کوئی تشدد، لاٹھی چارچ یا اس قسم کی کارروائی نہیں ہونی۔صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے یا گرفتاریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا ہوا کہ تو غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔شہباز شریف کی جانب سے قومی مکالمے کے مطالبے پر انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت میں فیصلہ کرلیں کیونکہ مریم نواز کا ایک مؤقف ہے اور شہباز شریف جو مؤقف اپنا رہے ہیں وہ اس کے برعکس دکھائی دے رہا، لہٰذا وہ فیصلہ کریں کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اندر بھی الجھن ہے کہ استعفیٰ دینے ہیں یا نہیں دینے، اگر آپ نے استعفے دینے ہیں تو آپ دے دیں کس نے روکا ہے، 8 دسمبر کو آپ کی قیادت کا اجلاس ہے اس میں فیصلہ کریں اور استعفے دے دیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیرفطری، وقتی الائنس ہے، ان میں کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے یہ بچاؤ کی کوشش ہے اور یہ پڑاؤ بچاؤ کے لیے ہے جو دیرپا نہیں ہوگا۔خطے کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات کی نوعیت پر اتفاق ہوا ہے، افغانستان میں امن عمل آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان کے کردار کو نہ صرف دنیا بلکہ افغان قیادت بھی سراہ رہی ہے، ماضی میں افغانستان پاکستان پر انگلیاں اٹھاتا تھا، آج افغانستان نے 57 ممالک کے سامنے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

close