اختر حمید خان اور شعیب سُلطان خان کو جو کام 1970 کی دہائی میں داؤود زئی میں ادھورا چھوڑنا پڑا وہ اگلی دہائی میں گلگت میں دوبارہ شروع ہوا۔ آغا خان فاؤنڈیشن نے گلگت میں دیہی ترقی کا پروگرام شُروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ تو شُعیب سلطان خان کو اسکا جنرل مقرر کیا گیا۔ پروگرام کا نام تھا آغا خان رورل سپورٹ پروگرام جس کا انگریزی میں مخفف تھا اے کے آر ایس پی اور ارُدوترجمہ تھا آغا خان دیہی اشتراکی پروگرام۔ اگرچہ اشتراکی حضرات اس پروگرام کو شک و شُبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ شعیب سلُطان خان نے دسمبر 1982 میں ایک کرائے کی جیپ اور ایک ہوٹل کے کمرے سے اس پروگرام کا آغاز کیا۔ پروگرام کا طریقہ کار انتہائی دلچسپ تھا۔ اس پروگرام نے دس سال میں دُنیا کے بُلند ترین اور انتہائی دُشوار گُزار پہاڑی علاقے میں رہنے والے ایک لاکھ خاندانوں کے لوگوں کی آمدنی دُگنا کر دی۔
پروگرام کا بنیادی اصُول یہ تھا کہ غُربت ختم کرنی ہے تو غریبوں سے پوچھو وہ کیوں غریب ہیں اور اُن کی غربت کیسے دور ہو سکتی ہے۔ ماہرین نہیں عوام بتائیں گے کس کام سے غُربت دُور ہوگی۔اس کا طریقہ کار تین مکالموں پر مشتمل تھا۔ اُسے تشخیصی مکالمہ یا ڈائگنوسٹک ڈائلاگ کہا جاتا تھا۔ پروگرام کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں مقامی آبادی، ماہرین اور مالی وسائل دینے والے اداروں کی ذمہ داریوں میں فرق کو سمجھا گیا تھا اور اُن کے وسائل کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔اور مُکالمے کے ذریعے غُربت کا حال تلاش کیا گیا۔ اس میں غریبوں کا احترام تھا اور اُن پر ذمہ داریاں بھی ڈالی جاتی تھیں۔ اختر حمید خان نے غریبوں کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ خود مزدوری کی تھی اور نہایت باریکی سے سوچ کر اُن کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ بنایا تھا۔ پروگرام تین طرح کے لوگوں پر مشتمل تھا مینیجمنٹ گروپ، تکنیکی ماہرین اور سوشل آرگنائزر۔ سوشل آرگنائزر پروگرام کا بُنیادی ستون تھا اور مرحلہ وار مُکالمہ شروع کرنے سے پہلے وہ گاؤں کے لوگوں سے تفصیلی رابطہ کرتا تھا۔
تین حصوں پر مشتمل مرحلہ وار مکالمہ شرُوع ہونے سے پہلے سوشل آرگنائزر گاؤں میں لوگوں سے رابطہ شرُوع کرتا تھا۔ لوگوں سے پوچھا جاتا کہ آیا وہ غریبی ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر زیادہ تر لوگ دلچسپی ظاہر کرتے تو اُنہیں بتایا جاتا تھا کہ وہ تین ذمہ داریاں قبول کریں گے تو اے کے آر ایس پی اُن کے ساتھ کام کرے گی۔ پہلے یہ کہ وہ تنظیم بنائیں گے۔ باقاعدگی سے ملیں گے اور کاروائی کا ریکارڈ رکھیں گے۔ عہدے دار اتفاق رائے سے چُنیں گے انتخاب سے نہیں۔ کیونکہ اُمیدوار کھڑے کر کے انتخاب کرانے سے دھڑے بندی ہو جاتی ہے۔ایسے عہدیدار چُنیں گے جن کا گریبان بھی پکڑ سکیں۔ اُن کی جوابدہی خود کریں گے۔ اے کے آر ایس پیاس کام میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اپنے اختلافات بھی خود نمٹائیں گے۔ دوسرے یہ کہ ہر ممبر گھرانہ باقاعدگی سے بچت کرے گا اور گاؤں کی تنظیم کے اکاؤنٹ میں اپنے نام سے جمع کرائے گا۔ تیسرے یہ کہ وہ پیداوار بڑھانے کیلئے نئے طریقے سیکھنے کو تیار ہوں گے۔
جس گاؤں کے لوگ اے کے آر ایس پی کی تینوں شرائط پر عمل کرتے اُن کے ساتھ پہلا مُکالمہ شروع کیا جاتا۔ پہلے مکالمے میں پوری تنظیم سے ایک ہی بات کی جاتی۔ایک ایسے منصوبے کی نشاندہی کریں جس سے گاؤں کے اکثر گھرانوں کی غُربت دور ہو جائے۔ جو منصوبہ مقامی تنظیم طے کرتی اُس کے بارے اے کے آر ایس پی کے ماہرین کام کر کے قابل عمل ٹیکنیکل منصوبہ پیش کرتے۔ دوسرے مکالمے میں ٹیکنیکل رپورٹ پر بحث کر کے اسے آخری شکل دی جاتی۔ تیسرے منصوبے میں مقامی تنظیم کو منصوبہ مکمل کرنے کےلئے گرانٹ کا چیک دیا جاتا۔ اس کے بعد منصوبہ مکمل کرنے کے لئے مقامی لوگوں کی ٹریننگ شُروع ہوتی اور کام شُروع ہو جاتا۔پروگرام کی کامیابی دیکھ کر بلتستان اور چترال کے منتخب نمائندوں، مذہبی رہنماؤں اور انتظامیہ نے متفقہ طور پر اے کے آر ایس پیکو اپنے علاقوں میں کام کرنے کی دعوت دی اور اپنے فنڈز بھی اُن کے حوالے کر دئے۔ دس سال میں ایک لاکھ گھرانوں کی آمدنی دُگنا ہو گئی۔ ورلڈ بنک نے کہا جتنے سال دُنیا اے کے آر ایس پی کے کام سے بے خبر رہی ہے اُس کا اتنا نقصان ہوا ہے- شعیب سلطان خان کو اس حُسن کارکردگی پر رامون میگا سیسے ایوارڈ ملا جسے ایشیا کا نوبل پرائز کہا جاتا ہے۔پاکستان کے دُکھوں کی دوا پاکستان کے اندر موجود ہے۔ اور ہم اس سے شفا حاصل کرنے کی بجائے آپس میں گُتھم گُتھا ہیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں