حق ناحق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، ہم جنگ ہارنے کے خلاف ہیں اور جیتی ہوئی جنگ لڑنا نہیں چاہتے

مولانا مودودی کا اسلامی سیاسی نظام قائم کرنے کا منصوبہ اس مفروضے پر مبنی تھا کہ عام ووٹر انتخابات میں صالحین کو ووٹ دے کر کامیاب کروائیں گے۔ لیکن پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں ووٹروں کا رویہ حیران کُن حد تک اس سے مُختلف رہا ہے۔ اس سے ملتا جُلتا مفروضہ بائیں بازو کے انقلابیوں کا رہاہے کہ لوگ اپنے طبقاتی دُشمن کے خلاف ووٹ دیں گے۔ لیکن لوگ بہت ناپ تول کر اور سوچ سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں ۔ وہ دو چیزیں دیکھتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ووٹ مانگنے والے والے تک اُن کی پہنچ ہے یا نہیں اور دوسرے یہ کہ وہ جیتے گا یا نہیں ۔ وہ ہارنے والے صالح یا طبقاتی دوست پر جیتنے کا امکان رکھنے والے ڈیرہ دار کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وجہ واضح ہے ہم مزاج کے اعتبار سے ہجرت مدینہ سے پہلے کے نہیں فتح مکہ کے بعد کے مسلمان ہیں۔ اس رویے کی بنیاد ایک گہرائی سچائ پر مبنی ہے اور اس کا توڑ بھی اسے سمجھ کر کیا جا سکتا ہے۔

فوجی فکر کی تاریخ میں تمام مفکرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جو جنگ ہار نے کا ڈر ہو وہ نہ لڑیں۔ جب پیشہ ور جنگجو یہ سوچ رکھتے ہیں تو آپ عام شہریوں سے اس کے بر عکس توقع کیوں رکھتے ہیں۔سو سوال یہ نہیں ہیں ہے کہ لوگ غیر صالحین اُمیدواروں کو ووٹ کیوں دیتے ہیں سوال یہ ہے کہ لوگ صالحین یا انقلابیوں کے انتخاب جیتنے کی اہلیت پر یقین کیوں نہیں رکھتے-وہ صالحین کو فاتحین کے حلقے میں کیوں نہیں شُمار کرتے۔ ڈیرہ دار اُمیدوار دفتروں، تھانوں، کچہریوں میں اُن کے کام کرواتے ہیں۔ یا اُن کی شادیوں اور جنازوں پر جاتے ہیں۔ لوگ اُنہیں اقتدار کے ایوان کا اندر کا آدمی سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس نظریے یا انصاف کے پیروکار اقتدار میں آنے کے بعد اُن کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، اُس سے پہلے کُچھ نہیں کرتے۔ اُن کے پاس اقتدار میں آنے سے پہلے اور نظام کو تبدیل کرنے سے پہلے عوام کو دینے کے لئے کُچھ نہیں ہے اس لئے عوام کے پاس بھی اُن کے لئے کُچھ نہیں ہے۔

اب آئیں اُن قائدین کی طرف جنہیں جناب عمران خان نے “قابل انتخاب “ کا لقب عطا کیا- یہ منتخب نمائندے اور اُن کے سالار اور ہمارے “مقبول” قائد بھی اپنے طرز سیاست میں خلافت راشدہ کے بعد کے دور کے قائد ہیں ۔ اُن کے لئے اقتدار میں آنے کے لئے ہر طریقہ جائز ہے۔ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سچ کے لئے لڑائی میں ہمارے انصاف پسند قائد اپنی قوت سے اتنا مایوس ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے سچ کو بچانے کی خاطر لگاتار جھُوٹ بولنا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ اُن کے خیال میں لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ سچ بولنا اُن کے خیال میں ہاری ہوئی جنگ لڑنا ہے۔لیکن مسئلہ اس سے مختلف ہے۔ جو جنگ ہم جیت نہیں سکتے وہ لڑنا چاہتے ہیں اور جو جیت سکتے ہیں وہ لڑنا نہیں چاہتے۔یہی ہمارا مخمصہ ہے۔

گلی، محلے اور مقامی آبادیوں میں بے شُمار لڑائیاں ہیں جو عوامی قوت سے جیتی جا سکتی ہیں اور کروڑوں اربوں روپے کا ڈُوبا ہوا سرمایہ دوبارہ کام میں لایا جا سکتا ہے۔ بند اور ناکارہ سکول، مراکز صحت، پانی اور سینی ٹیشن کی سکیمیں ہیں جو بحال کی جا سکتی ہیں۔ اور روزگار کے بے شُمار مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ جو مقامی رہنما یہ لڑائیاں جیتیں وہ “قابل انتخاب” بھی بن سکتے ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ چھوٹے حلقوں کی طالب علم سیاست میں کامیاب ہونے والے طالب علم رہنما اسی مہارت کی بنیاد پر مقامی حکومت کے انتخابات میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں مگر وہ مقامی حکومت کی سیاست میں جیتنے کی بجائے مرکزی حکومت کی سیاست میں ہارنا پسند کرتے ہیں ۔حالانک مقامی طور پر قابل انتخاب لوگ بعد میں مرکزی حکومت کا نظام سنبھال سکتے ہیں۔دلچسپ سوال یہ ہے کہ ہمارے متبادل سیاست کے حامی رہنما اور کارکن جیتی ہوئی جنگ کی بجائے ہاری ہوئی جنگ کیوں لڑنا چاہتے ہیں؟ کیا حکمران اشرافیہ کی طرح ہم بھی شارٹ کٹ پر یقین رکھتے ہیں ؟ ہمارے شہری چھوٹی چھوٹی نا انصافیوں کے خلاف لڑتے ہیں تو صرف ایک رُکاوٹ اُن کے راہ میں آتی ہے۔ اُنہیں اپنے گرد ہمدردی کے دو بول کہنے والا یا ساتھ دینے والا کوئ بھی نظر نہیں آتا۔ جو رہنما لوگوں کو انہونے خواب دکھانے کی بجائے اُن کی بات سُن سکے اور اُن کے حق میں ہمدردی کے دو بول کہ سکے وہی ڈیرہ داری اور ووٹوں کے بیوپاری کی سیاست ختم کر سکتا ہے۔۔۔۔

close