حق ناحق فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، شنگرام شنگرام چولبے چولبے، بنگالی پیاروں کی یاد میں

پنجاب یونیورسٹی میں 1968 سے 1970 کے درمیان بہت بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان سے نوجوان طالب علم ہمارے ہم جماعتوں اور دوستوں میں شامل تھے۔ یہ نہایت ، ذہین، خوبصورت ، بہادر اور خواب دیکھنے والے لوگ تھے۔ جن کی آنکھوں میں ستارے چمکتے تھے۔ اُن میں زیادہ تر قائد اعظم ہال میں رہتے تھے۔ سُہیل، ناگی، بابل، شہید، شہاب الدین، حفیظ الرحمان، جمیل احمد، امتیاز احمد، یوسف جارجی، اور کمال دیوان، کے نام مُجھے ابھی تک یاد ہیں ۔ اُسی طرح پی ایل او سے تعلق رکھنے والا فلسطینی مصطفے ساحلی، اور پی ایف ایل پی سے تعلق رکھنے والا داؤد سلیمان موسا ، اور ایرانی مزاحمت سے تعلق رکھنے والا جہانگیر، اور ایران کے عرب آبادی پر مشتمل صوبے ابادان سے تعلق رکھنے والا امیر ، اور میری ہم جماعت فاطمہ نجدی، اردن سے کامل دجانی، جنوبی افریقہ سے ابُو اور مُوسا یونیورسٹی کی علمی اور انقلابی دُنیا کی رونق تھے۔ہمارے بنگالی دوست یونیورسٹی اور مُلکی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

قرار داد پاکستان منظور ہونے کے ٹھیک تیس سال بعد 23 مارچ 1970 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس نیشنل عوامی پارٹی نے منعقد کی لیکن اس میں بائیں بازو کی تمام جماعتوں خاص طور پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے بھر پور حصہ لیا۔ لاہور سے ہم طالبعلموں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ جس میں ہمارے بنگالی دوست بھی شامل تھے ٹرین میں ٹوبہ ٹیک سنگھ گئے۔ تمام راستے ہمارے بنگالی دوست نعرے لگاتے رہے شنگرام ، شنگرام ، چولبے ، چولبے۔ (جد و جہد ، جدو جہد ، جاری رہے گی، جاری رہے گی)- اور بھی نعرے تھے جالو جالو آگُن جالو۔ مولانا بھاشانی لال سلام لال سلام۔ ہم جلسہ گاہ کی طرف جانے لگے تو ڈھول کی تھاپ پر رواں دواں ایک جلوس نظر آیا۔ جلوُس کے آگے ایک لمبا تڑنگا خوبرُو نوجوان ناچ رہا تھا۔ میں نے کسی سے پوچھا یہ کون ہے۔ جواب ملا، احمد رضا قصوری۔

اس اجلاس میں مولانا بھاشانی کے علاوہ طارق عزیز۔ معراج محمد خان اورمسیح الرحمان نے بھی خطاب کیا۔ یہ بہت شعلہ بار جلسہ تھا۔ معراج محمد خان نے سوشلسٹ انقلاب کی دعوت دی۔ طارق عزیز جنہوں نے ابھی نیلام گھر نہیں شروع کیا تھا اور انقلاب کی محبت میں اپنا دل نیلام کر دیا تھا کہا کہ پنجاب کو رانجھے کی مُرلی کی نہیں مرزے کے تیر کی ضرورت ہے۔ مولانا بھاشانی نے یحی خان کو للکارا کہ منصفانہ سیاست کرو ورنہ ہمارے پاس 42000 گوریلے ہیں ہم گوریلا جنگ کریں گے۔ اُن کے سیکرٹری مسیح الرحمان ایک قدم آگے بڑھ گئے اور کہہ دیا یحی خان تُم غدار ہو۔ اُن پر مقدمہ چلا تو اُن کے وکیل نے کہا وہ اُردو زبان اچھی طرح نہیں جانتے اور اُنہیں بری کر دیا گیا۔

انتخابات 1970 کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلائے بغیر اور مجیب الرحمان کو حکومت کا حق دئیے بغیر فوجی کاروئی ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ پنجاب میں بہت کم لوگوں کو اس کا صحیح ادراک ہوا اور اس کی مخالفت کرنے کی جرآت ہوئی ۔ پنجاب یونیورسٹی میں صرف جاوید علی خان اور شجاع الحق دو طالب علم تھے جنہوں نے بھاٹی دروازے کے باہر فوج کُشی کے خلاف تقریر کی اور مار کھائی۔ بنگالی طالب علموں نے خاموشی سے گھروں کو واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ اُنہیں ہم پر بھی اعتماد نہیں تھا۔ اُنہوں نے ایک ٹرک کرائے پر لیا اور کابل کے راستے واپس روانہ ہو گئے۔ لاہور چھوڑنے سے پہلے سب نے داتا دربار پر حاضری دی۔ ہوسٹل نمبر تین کے بنگالی مُلازم سراج کے پاس بیس سال نوکری کرنے کے بعد بھی اتنے پیسے اکٹھے نہیں ہوئے تھے کہ کرایہ ادا کر کے وطن واپس جا سکے۔ وہ یہیں رہ گیا۔ پتہ نہیں اب کہاں ہے۔ عالم ارواح میں اُسے زُوم میسر ہوئی یا وہ واپس پہنچ گیاتھا-ہمارے بنگالی دوست داتا صاحب سے اٹک کے پُل اور تورخم سے ہوتے ہوئے کابل پہنچ گئے ۔

جس دن عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کیا گیا اُس دن پاکستان کے عوام کو سب سے بڑی شکست ہوئی۔ اُس دن سیکولرازم، سوشلزم، جمہوریت، اور اسلامی فلاحی ریاست تمام نظریات کی بساط لپیٹ دی گئی۔ وہ زخم ابھی تک ہرا ہے۔ اور جیسے فیض صاحب نے کہا تھا کسی کو خبر نہیں کہ

خُون کے دھبے دھُلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

مُجھے 1998 میں بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ مُجھے اپنے پُرانے دوستوں سے ملنے کی شدید خواہش تھی مگر تذبذب تھا کہ پتہ نہیں کیسے ملیں گے۔ میں اُنہیں کیسے شکل دکھاؤں گا۔ اُن کے سوالوں کے کیا جواب دوں گا۔ لیکن میں نے ہمت کی اور اپنے ہم جماعت جمیل احمد کے چھوٹے بھائی امتیاز کو ڈھونڈ نکالا۔ وہ اُس وقت نیشنل بنک آف بنگلہ دیش کا نائب صدر تھا۔ وہ بہت محبت سے ملا۔ اپنے گھر کھانے پہ بُلایا۔ یونیورسٹی کے زمانے کی البم نکالی۔ دوستوں کو یاد کیا۔لاہور سے ڈھاکہ واپسی کی کہانی سُنائی ۔ اور بتایا کہ اٹک پُل پہ جب ایک شخص نے ہمیں گننا شروع کیا تو ہمارا لہو جم گیا کہ اب سر اُتارنے کے لئے گنتی ہو رہی ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بندوں کو پار کرانے کے پیسے لینے کے لئے گنتی کر رہا تھا۔ ڈھاکہ میں یُو این ڈی پی میں میری ہم منصب تنزیلہ حق مُجھے خاص بنگالی پکوان کھلانے کے لئے مسجد بیت المکرم کے قریب واقع کستوری ریسٹورینٹ لے گئی۔ تنزیلہ کے والد یحی خان کے ملٹری سیکرٹری رہے تھے۔ اور اسلام آباد کی چند خوشگوار یادیں اُس کے دامن میں تھیں۔ ہم نے کھانا کھا لیا تو ریسٹورنٹ کا مالک آ کر میرے پاس بیٹھ گیا۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ پھر اُس نے بہت محبت سے کہا۔ آپ کو ایک بات بتاؤں مُلک جُدا ہو گئے ہیں لیکن دل جُدا نہیں ہوئے۔ میں اس کا کیا جواب دیتا۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔۔

close