مرتضیٰ سولنگی، ایک کارکن صحافی کابطور وزیر اطلاعات خیر مقدم، مزمل سہروردی کی تحریر، بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

نگران حکومت میں برادرم مرتضیٰ سولنگی نے بطور نگران وزیر اطلاعات ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔ مرتضیٰ سولنگی ایک کارکن صحافی ہیں۔ جنھوں نے عالمی نشریاتی اداروں میں بھی کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ وہ پاکستان کے الیکٹرانک پرنٹ میڈیا سے بھی منسلک رہے ہیں۔

میری رائے میں وہ ایک بہترین چوائس ہیں۔ ان کے وزیر اطلاعات بننے سے پاکستان میں نہ صرف صحافت بہتر ہوگی بلکہ پاکستان میں صحافتی اداروں کے حالات بھی بہتر ہونگے۔ اس سے پہلے مرتضی سولنگی پاکستان ریڈیو کی کمان بھی سنبھال چکے ہیں۔ اس لیے کسی محکمہ کو چلانا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ، وہ اپنا کام کرنا خوب جانتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں مرتضیٰ سولنگی کا وزیر اطلاعات بننا پاکستان میں کارکن صحافیوں کی جیت ہے۔ وہ کسی سیٹھ یا سرمایہ دار کے نمایندے نہیں ہے بلکہ ہمیں فخر ہے کہ وہ صحافیوں میں سے ہیں۔ مرتضیٰ سولنگی کس سیاسی جماعت نہیں بلکہ آزادی صحافت کے نمایندے ہیں۔
انھوں نے ہمیشہ ملک میں او ر عالمی سطح پر آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کا پرچم بلند کیا ہے۔ اس لیے مرتضیٰ سولنگی کے وزیر اطلاعات بننے سے نہ صرف پاکستان میں صحافت مضبوط ہوگی بلکہ آزادی اظہار رائے بھی مضبوط ہوگی۔

مرتضیٰ سولنگی کی ساری عمر انسانی حقوق کی پاسداری میں گزری ہے۔ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے ضامن رہے ہیں۔ انھوں نے آمریت سے لے کر ہائبرڈ ادوار میں بھی ملک میں نہ صرف انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط آواز بلند کی بلکہ ساتھ ساتھ جب بھی ملک میں آزادی اظہار پر پابندی لگی اس پابندی کے خلاف مرتضیٰ سولنگی ایک مضبوط آواز رہے ہیں۔

وہ دلیل سے بات کرنے کے قائل ہیں اور طاقت کے استعمال کے خلاف رہے ہیں۔ وہ اپنا مخالف نقطہ نظر حوصلے سے سننے اور پھر دلیل سے اس کا جواب دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کی سوچ میں عوام بہترین جج ہیں۔

میں نے کئی پروگرام میں ان سے اختلاف بھی کیا ہے۔ لیکن وہ اختلاف کو معاشرہ کا حسن سمجھتے ہیں اور اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

بعض دوستوں کی رائے میں ان کو وزیر اطلاعات نہیں بننا چاہیے تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ان کو بالکل بننا چاہیے تھا۔ وزیر اطلاعات ہر دور میں ایک صحافی کو ہی ہونا چاہیے تا کہ ملک میں آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کی حفاظت ہو سکے۔

جب ہم خود دور رہیں گے تو ہم ان کو موقع دیں گے جو نہ تو یہ کام جانتے ہیں اور نہ ہی انھیں آزادی اظہار رائے کا مطلب پتہ ہے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں مرتضیٰ سولنگی نے وزیر اطلاعات کا منصب سنبھال کر پاکستان میں صحافت کی خدمت کی ہے۔ ایک مشکل دور میں انھوں نے یہ قلعہ سنبھال کر ہمارے لیے ایک مثبت کام کیا ہے۔ آپ سوچیں اگر مرتضیٰ سولنگی کی جگہ کوئی ریٹائرڈ جنرل یا کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ اس منصب پر آجاتا تو کیا ہوتا تو معاملات مختلف ہو سکتے تھے۔

مرتضیٰ سولنگی جہاں دلیل کے قائل ہیں وہاں وہ منفی پراپیگنڈے اور بیانیہ کی سیاست کے بھی خلاف ہیں۔ وہ دلیل کے حق میں ہیں لیکن پراپیگنڈے کے خلاف ہیں۔ ان کی رائے میں آزاد صحافت اور پراپیگنڈہ صحافت میں فرق ہے اور یہ فرق ہونا چاہیے۔

وہ سمجھتے ہیں جہاں صحافت کی آزادی کی حفاظت ناگزیر ہے وہاں پراپیگنڈے کو روکنا بھی اتنا ہی ناگزیر ہے۔ وہ صحافت کی آڑ میں پراپیگنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے سخت خلاف ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

قدرت کا انصاف دیکھیں ایک وقت تھا کہ پاکستان کی یہی وزارت اطلاعات مرتضیٰ سولنگی پر صحافت کے دروازے بند کرنے کے درپے تھی۔ ان کو ہر جگہ سے نوکری سے نکلوانے کے لیے ہائبرڈ دورمیں بھر پور سرکاری طاقت لگائی گئی کیونکہ ان کا موقف اور قلم ارباب اقتدار کو پسند نہیں تھا۔ آج وہی مرتضیٰ سولنگی اسی وزارت اطلاعات کا وزیر ہے۔

کل تک جو مرتضیٰ سولنگی کے خلاف تھے آج انھیں سلام کر رہے ہیں۔ آج وہ اسی محکمے کے وزیر ہیں جہاں سے ان کے خلاف مہم چلائی گئی اور ان کے لیے روزگار کے دروازے بھی بند کیے گئے۔

مرتضیٰ سولنگی کی اس جیت کے پیچھے ان کی سچ کی طاقت ہے۔ وہ کل بھی حق پر تھے اور آج بھی حق پر ہیں۔ اور حق کی جیت تو ہونا طے ہے۔ لیکن مرتضیٰ سولنگی نے جس قدر بہادری سے برا وقت گزارا ہے وہ بھی ایک شان ہے۔

انھوں نے کبھی کسی سے گلہ نہیں کیا، کبھی اپنی مظلومیت کا رونا نہیں رویا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ روزگار کے دروازے بند ہونے کے بعد واقعی مرتضیٰ سولنگی پر زندگی مشکل ہو گئی تھی۔ وہ کوئی امیر آدمی نہیں ہیں، اہم عہدوں اور اہم جگہوں پر نوکری کرنے کے باوجود وہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔شاید انھوں نے کبھی دولت کمانے پر توجہ ہی نہیں دی۔

ان کے نزدیک ان کے پیشہ ورانہ اصول ہمیشہ مقدم رہے ہیں اور ان اصولوں کے لیے انھوں نے زندگی میں ایک بار نہیں کئی بار بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔ لیکن قدرت نے جب جب مرتضیٰ سولنگی سے ان کے خیالات اور سوچ کی قیمت مانگی ہے انھوں نے پوری قیمت ادا کی ہے۔ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی کمزوری نہیں دکھائی ۔

مرتضیٰ سولنگی کو جانوروں سے بھی بہت پیار ہے۔ انھوں نے گھر میں دس کے قریب بلیاں پال رکھی ہیں، وہ ان بلیوں کو بچوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال پر بہت توجہ دیتے ہیں۔

مرتضیٰ سولنگی ایک رحم دل انسان ہے۔ وہ انتقام کی سیاست اور انتقام لینے پر یقین نہیں رکھتے۔ اس لیے جنھوں نے ان پر ظلم کیے ہیں وہ بے فکر رہیں مرتضیٰ سولنگی اپنی طبیعت اور سوچ کی وجہ سے ان سے کوئی انتقام نہیں لیں گے۔

اسی لیے وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے فوری بعد انھوں نے دوستی اور مفاہمت اور بھائی چارے کا اعلان بھی کیا ہے۔

یہ ان کی سوچ کا عکاس ہے۔ ورنہ جنھوں نے بھی ان کی زندگی مشکل کی ہے وہ آج سب مرتضیٰ سولنگی کے نشانے پر ہیں۔ لیکن وہ نشانہ لگانے پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ وہ محبت سے دل جیتنے کا کھلاڑی ہے۔ یہی اس کی طاقت ہے۔

close