آئی ایم ایف _ الوداع سے خوش آمدید تک! عرفان صدیقی

ٹھیک سات برس پہلے، جولائی 2016؁ میں وزیراعظم نوازشریف نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا _ ’’آج کے بعد اِن شاء اللہ ہمیں کبھی آئی۔ایم۔ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ الوداع آئی۔ایم۔ایف۔‘‘ اور آج ہم آئی۔ایم۔ایف سے تین ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی پیکج ملنے کے بعد، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نعرہ زن ہیں۔ ’’خوش آمدید آئی۔ایم۔ایف۔‘‘ اڑان بھرتے ہوئے پاکستان کے بال وپر کس نے کاٹے؟ اب یہ کوئی راز نہیں رہا۔ ’’الوداع آئی ایم ایف‘‘ سے ’’خوش آمدید آئی ایم ایف‘‘ تک کا ہر کردار بے نقاب ہوچکا ہے۔

نوازشریف نے جون 2013؁ میں تیسری بار وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالا تو تین بڑے مسائل زہریلے شیش ناگوں کی طرح پھنکار رہے تھے۔ توانائی کا شدید بحران بے قابو ہوچکا تھا۔ بیس بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے صنعتی، تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں مفلوج کررکھی تھیں، معیشت تیزی کے ساتھ روبہ زوال تھی اور دہشت گردی نے ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان تین بڑی ترجیحات کے ساتھ نوازشریف نے تیسرے سفر کا آغاز کیا۔ ایک بیل آئوٹ پیکج کے لئے آئی۔ایم۔ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ دو سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کے باعث دنیا نوازشریف کو ’’معاشی معمار‘‘ کے طورپر جانتی تھی سو صرف اڑھائی ماہ بعد ستمبر کے اوائل میں آئی۔ایم۔ایف سے تین برسوں پر محیط 6.6 ارب ڈالر کا پیکج مل گیا۔ یہ پاکستان کے ساتھ آئی۔ایم۔ایف کا اکیسواں پروگرام تھا۔ ایوب خان سے 2008؁ میں قائم ہونے والی پی پی پی حکومت تک بیس پروگراموں میں سے کوئی ایک بھی کامیابی کے ساتھ پایۂِ تکمیل کو نہ پہنچ پایا تھا۔ تحریک انصاف حکومت کو ملنے والا پیکج بھی اسی انجام سے دوچار ہوا۔

نوازشریف کی تین ترجیحات کے مدّمقابل فوج کے چند سینئر اور طاقتور عناصر نے بھی کچھ ترجیحات طے کررکھی تھیں۔ نوازشریف کو ’’چورڈاکو‘‘ قرار دے کر، سہولت کار ججوں کے ذریعے وزیراعظم ہائوس سے نکالنا، اُسے نااہلیت کی زنجیروں میں جکڑ کر انتخابی اکھاڑے سے باہرپھینک دینا اور ’’فتح مبین‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے انتخابات میں بھرپور دھاندلی کے ذریعے عمران خان نامی نابغۂِ روزگار کو تختِ حکمرانی پر بٹھانا۔ نوازشریف دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پہ چلتا رہا۔ ’’انقلابی عناصر‘‘ بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مسلسل متحرک رہے۔ شاہراہِ دستور پر عمران خان اور طاہرالقادری کے طویل دھرنے، وزیراعظم ہائوس پر یلغار، جنرل ظہیرالسلام کی وزیراعظم کو دھمکی کہ ’خیرچاہتے ہو تو استعفٰی دے کر گھر چلے جائو،‘ جمہوریت کی کھُدی قبریں، سربکف کفن پوش دستے، پاناما کا ڈرامہ، ڈان لیکس کا ناٹک، رنگا رنگ جتھوں کی اسلام آباد پر چڑھائی اور انہیں معقول یومیہ الائونس دینے کی وڈیوز، ملازمت میں توسیع کے لئے انگاروں پہ لوٹتے آرمی چیف کی کرتب کاریاں اور میڈیاکے ذریعے نوازشریف کی کردارکُشی کی طویل مہم کے متوازی نوازشریف اپنی طے کردہ مستقیم راہ پر چلتا رہا۔

اگست2016؁ میں، جب نوازشریف کی پیٹھ پر پانامہ کے تازیانے برسائے جارہے تھے، ہماری تاریخ کا پہلا، اور اب تک واحد آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہوگیا۔ 1.2 ارب ڈالر کی آخری قسط جاری کرتے ہوئے آئی۔ایم۔ایف کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطٰی اور وسط ایشیاء نے رائٹر کو بتایاکہ _ ’’یہ پروگرام مکمل ہونے کے ساتھ ہی پاکستان اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے کے قابل ہوجائے گا۔ اب تک معیشت کی تعمیر نو کے لئے خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔ پاکستان یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ اب اُسے کسی مزید آئی۔ایم۔ایف پروگرام کی ضرورت نہیں رہے گی۔ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرلیا ہے۔ بجٹ خسارا نصف رہ گیا ہے اور معاشی ترقی کی شرح نمو (GDP) خطے کے تمام ممالک سے بہتر ہوگئی ہے۔‘‘ آئی۔ایم۔ایف کے مذاکراتی مشن کے سربراہ ہیرالڈ فِنگر نے کہا _ ’’آئی۔ایم۔ایف پروگرام کے دوران پاکستان نے اپنے تمام معاشی اشاریے بہتر بنا لئے ہیں اور اقتصادی استحکام کے ذریعے مضبوط معیشت کی ٹھوس بنیادیں ڈال دی ہیں۔‘‘

ہر نوع کے جبر اور ہتھکنڈوں کے باوجود نوازشریف نے اپنی تینوں ترجیحات مکمل کیں۔ عالمی اداروں نے کہاکہ اگر تعمیروترقی کا یہ سفر جاری رہا تو پاکستان 2050؁ تک دنیا کی اٹھارھویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس سب کچھ کے باوجود، اُس کے خون کے پیاسے، اپنی ترجیحات پر کاربند رہے۔ انہیں ترقی وخوشحالی سے ہم کنار ہوتے پاکستان سے کہیں زیادہ اپنے خوابوں کی تعبیر عزیز تھی۔ ’’چورڈاکو‘‘ کی کوئی چوری ملی نہ ڈاکہ تاہم پتہ چلا کہ کبھی اس کے بیٹے نے دبئی میں ایک کمپنی قائم کی تھی۔ ویزا کی سہولت کی خاطر نوازشریف کو اس کمپنی میں کوئی عہدہ دیاگیا تھا اور اس کی دس ہزار درہم تنخواہ مقرر تھی۔ یہ تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وہ بددیانت قرار پایا اور نہ صرف منصب بلکہ سیاست سے بھی باہر کردیاگیا۔ اسے جماعت کی سربراہی سے بھی ہٹا دیا گیا اور اس کے دستخطوں سے جاری ہونے والے سینٹ کے ٹکٹ بھی فردِگناہ بنا دئیے گئے۔ 2018؁ میں آسودگی بخش اکثریت کی طرف بڑھتی مسلم لیگ (ن) کا راستہ روک کر صندوقچیوں سے دیرینہ خوابوں کے تعبیر نامے برآمد کئے گئے اور عمران خان کی ’’فتح‘‘ کے ساتھ ہی مسلح افواج کے باضابطہ ترجمان نے مسرت سے سرشار لہجے میں ایک قرآنی آیت پر مشتمل ٹویٹ کیا _ ’’اور اللہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلّت دے۔‘‘ عزتوں اور ذلتوں کے فتوے جاری کرنے والوں سے کون پوچھے کہ آج تاریخ کس کی سرخروئی کی نوید دے رہی ہے اور کن چہروں پر کالک تھوپ رہی ہے۔

2018؁ میں پٹڑی سے اتار کرپاکستان کو اندھی تاریک راہوں میں جھونک دینے والے ذمہ داروں کا محاسبہ لازم سہی لیکن ہمارے ہاں اِس طرح کا مطالبہ کرنا بھی آدابِ شہنشاہی کے منافی ہے۔ وہ جو بھی ہیں، جہاں بھی ہیں، مزے میں ہیں لیکن صورت حال کی اصلاح کی ذمہ داری بھی فوج پر عائد ہوتی ہے۔ یہ اس کے سرپر بہت بڑا قرض ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ 2018؁ جیسی مشقِ تیرہ بخت پھر سے دہرائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ پاکستانی تاریخ کے اس سب سے بھیانک تجربے سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنے نصابِ حکمت کا حصہ بنالے اور آئیندہ کسی فرد سے نفرت اور فرد سے محبت کی بنیاد پر پاکستان کو بحرانوں کی چِتا میں نہ جھونکے۔ اگر موجودہ آرمی چیف، اس سوچ کے تسلسل کو یقینی بناکر اسے مستقل ادارہ جاتی حکمتِ کار کا حصّہ بناسکیں تو شاید کسی حد تک 2018؁ کی زیاں کاری کا ازالہ ہوسکے۔
حدِّ ادب سے تجاوز نہ ہو تو عدل وانصاف کی بارگاہِ اقدس میں فروکش اُن جج صاحبان کو بھی یاددلایا جائے کہ آپ نے بھی ’’الوداع اور خوش آمدید‘‘ کے درمیان پھیلی بے ثمری میں بھرپور حصہ ڈالا تھا۔ بلکہ کچھ کے دلوں میں آج بھی وَصلِ یار کے گریز پاموسموں کی دھیمی دھیمی آنچ سلگ رہی ہے۔ فوج کی طرح عدلیہ بھی اپنا کڑا احتساب کرے اور اپنے من مندر میں کسی مورتی کو سجانے کے بجائے خوفِ خدا کو جگہ دے۔اسی طرح میڈیا کے کچھ مہم جُو عناصر کی تراش خراش کو ایک خاص راہ پر ڈال دیا گیا اور بعض دانشورانِ فتنہ ساماں رضاکارانہ طورپر اس سپاہ کا حصہ بن گئے۔ چار برس کی غارت گری اور 9 مئی کی ترشی نے بھی اُن کا نشہ نہیں اتارا۔ انہیں اپنے حال اور سیلِ وقت کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ البتہ سنجیدہ خُو صاحبانِ قلم وقرطاس اور مبصرین کو ضرور اپنی سمت کا تعین کرنے کے لئے ذہن وفکر کے نئے دریچے وا کرنا ہوں گے۔

’’الوداع آئی ایم ایف سے خوش آمدید آئی ایم ایف‘‘ تک کا سفر فوج، عدلیہ اور میڈیا کے عناصر ثلاثہ کی بے ننگ ونام مہم جوئی کا نوحہ ہے۔ اِن سب کو اپنے اپنے حصے کا قرض چکانا ہوگا۔ ورنہ وہ اپنی ساکھ کے حوالے سے ’’دیوالیہ‘‘ قرار پائیں گے اور اس دیوالیہ پن سے بچنے کے لئے ابھی تک کوئی’’ آئی۔ایم۔ایف‘‘ وجود میں نہیں آیا۔
٭٭٭٭٭

close