جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا، سینئر تجزیہ کار ارشاد محمود کا کالم

بلدیاتی الیکشن سے فرار کے لیے لولے لنگڑے بہانہ تراشے جارہے ہیں۔ الیکشن ملتوی کرانے کے لیے کچھ شخصیات سرگرم ہوچکی ہیں۔
آج چیف سیکرٹری نے دوٹوک اعلان کیا کہ الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے۔ ہوسکتاہے کہ مرحلے وار ہوں جیسے کہ خیبر پختون خوا میں ہوئے۔ لیکن ہوں گے ضرور۔

حکومت الیکشن کرانے کے لیے پرعزم ہے۔ تمام تر منفی پروییگنڈے کے باوجود تمام ریاستی ادارے بھی الیکشن کے حق میں ہیں۔ شہریوں کا جوش وخروش دیدنی ہے۔ الیکشن میں زیادہ تر نوجوان حصہ لے رہے ہیں وہ بھرپور الیکشن مہم چلارہے ہیں۔ یہ نوجوان بیدار بھی ہیں اور مستقبل میں قومی سیاست میں کردار ادا کرنےکے لیے پرجوش اور پر عزم بھی۔

ہر وارڈ کی تعمیر اور ترقی کے لیے امیدوار اپنا اپنا منشور پیش کرچکے ہیں۔ لوگوں کی گفتگو کا مرکزی موضوع گڈگورننس اور مقامی مسائل کا مقامی سطح پر حل ہے۔ ایک عرصے بعد سیاست کا موضوع حقیقی عوامی مسائل بننے ہیں۔ غیرمعمولی سوشل موبلائزیشن ہوئی ہے۔ روایتی جغداریوں میں بے چینی پیدا ہوچکی ہے اور انہیں اپنی ’’گدی‘‘ خطرے میں نظر آتی ہے۔

وفاقی حکومت کی طرف سے سیکورٹی کی فراہمی سے انکار سمجھ آتاہے۔ لیکن غالب امکان ہے کہ کوئی راستہ نکل آئے اور پاکستان کے حالات بہتر ہوجائیں۔ اب الیکشن میں ڈھائی ہفتےباقی ہیں۔

۔ آزادکشمیر ایک پرامن علاقہ ہے۔ یہاں عمومی طور پر الیکشن میں تصادم کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔
اس مرحلے پر الیکشن کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ الیکشن ایک گیم چیجنر ثابت ہوگا۔ نئی لیڈرشپ ابھرے گی۔ سیاسی جماعتوں کو تازہ دم کارکن اورلیڈر ملیں گے۔

الیکشن حصہ لینے والے گیارہ ہزار کے لگ بھگ امیدواروں کو آج سے ہوشیار ہونا ہوگا۔ بلدیاتی الیکشن کے التوا میں اٹھنے والی ہر آواز کو چیلنج کرنا ہوگا۔

سوشل میڈٰیا سب سے بڑا ہتھیار اپنی آواز بلند کرنے اور احتجاج کرنے کا۔
اس حوالے سے اپنا نقطہ نظرپوری جرآت سے بیان کریں تاکہ الیکشن ملتوی کرانے والے کامیاب نہ ہوسکیں۔
اگر ایک بار یہ تاریخ موقع ہاتھ سے نکل گیا کیا معلوم اگلے تین دہائیوں تک ہاتھ ملتے رہ جائیں۔

اپی اپنی لیڈرشپ پر دباؤڈالیں۔ انہیں قائل کریں کہ وہ میدان سے بھاگے نا بلکہ مقابلہ کریں۔ جو بھی کامیاب ہوگا وہ سب کا نمائندہ ہوگا۔

close