دعووں سے کام نہیں چلے گا سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

ڈیڑھ ماہ گذرنے کے بعد بالاخر مخلوط وفاقی حکومت نے غیریقینی کی چادر اُتار پھینکی ہے۔تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد حکومتی ارکان کی جانب سے حکومت کی مدت اور الیکشن سے متعلق بیانات نے ہر جانب کنفیوژن پید اکردیا۔ دوست ممالک اور آئی ایم ایف نے بھی حکومتی مدت سے متعلق جاری غیریقینی کے باعث مالی تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں اور سابق وزیراعظم عمران خان کے تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں ملکی اور عالمی سطح پر سیاسی عدم استحکام کی چہ میگوئیوں کو مزید تقویت ملی۔ افسر شاہی‘کاروباری شخصیات اور عام شہری ہرایک کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ یہ حکومت تو گئی۔

چند دن پہلے تو72گھنٹوں میں قومی اسمبلی تحلیل اور نگران حکومت کے قیام کی خبر بھی اُڑاتے ہوئے ہمایوں اختر خان کا نام بطور نگران وزیراعظم گردش کرنے لگا۔ یہ سب قیاس آرائیاں او ر افواہیں تھیں ان افواہوں نے ڈالر کی قدر میں 15روپے اضافہ کرکے ملکی معیشت کو مزید دلدل میں دھکیل دیا۔پنجاب میں آئینی بحران بھی ختم نہ ہوسکا۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے منحرف اراکین سے متعلق اپنا فیصلہ سُناد یا۔ پنجاب میں تو ایک مرتبہ پھر سیاسی دنگل لگنے جارہا ہے مگر مخلوط وفاقی حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کے مطالبات اور دھرنے کی دھمکیوں کا بالائے طاق رکھتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ الیکشن اکتوبر 2023ء کے بعد ہی ہوں گے۔مخلوط وفاقی حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تمام سخت فیصلے کرنے اور مطلوبہ اصلاحات کیلئے اب تیار ہے۔ وفاقی حکومت کے اس اعلان سے قبل وفاقی کابینہ کا اہم ترین اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی اندرونی کہانی انتہائی دلچپپ اور خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔

کابینہ اجلاس میں نیب قانون میں ترمیم پر ارکان اور بیوروکریسی نے کھل کر گفتگو کی۔ وزیر اعظم نے اجلاس میں موجودکابینہ ڈویژن‘وزارت داخلہ خزانہ‘توانائی اور ہیلتھ سیکرٹری کو نیب قانون سے متعلق اپنی رائے دینے کیلئے روسٹرم پرآنے کی ہدایت کی۔اس موقع پر وفاقی سیکرٹریز نے اپنی آراء کا کُھل کر اظہارکرتے ہوئے کہا کہ نیب قانون کی وجہ سے ماضی میں بڑے فیصلے نہیں لئے جاسکے۔سیکرٹری ہیلتھ نے کورونا ویکسین کی خریداری میں نیب کے خوف سے کابینہ کو آگاہ کیا۔ کابینہ میں شامل نیب کیسز سے متعلق وزراء نے اپنی رائے دی۔کابینہ اراکین نے اظہار کیا کہ نیب کا کالا قانون صرف سیاسی انتقام، سرکاری اہل کاروں اور کاروباری طبقے کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال ہوتا رہا۔انہی قوانین کی وجہ سے بیوروکریسی فیصلے لینے سے ڈرتی ہے جس کی وجہ سے اہم ترین امور میں ملک کا نقصان ہو جاتا ہے۔ کابینہ نے نیب ترامیم کیلئے وزیرقانون کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دیدی ہے۔ اس کمیٹی میں وکالت، بنکاری، بیوروکریسی اور دیگر شعبوں سے منسلک نامور شخصیات بھی شامل کئے جائیں گے۔وزیر تخفیف غربت شازیہ مری نے نیب پر کمیشن بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون سے ملک کو شدید نقصان پہنچا۔نیب قانون کے فوائد اور نقصانات پر تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ وزیر اعظم نے نیب قانون پر اظہار خیال کرنے سے گریزہوئے کہا کہ میں خود اس قانون کا شکار رہا ہوں اس لئے گفتگو نہیں کرونگا۔کابینہ میں شریک تمام وزراء نے نیب قانون میں ترمیم کی سفارش کی۔

وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی لندن میں سابق وزیراعظم نوازشریف کیساتھ ملاقات کے دوران تین امور طے پائے۔ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ نیب اور الیکشن قوانین میں فوری اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ملک کو درپیش معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے سخت ترین فیصلے کئے جائیں گے۔سابق وزیراعظم نوازشریف اہم اتحادی جماعتوں کے سربراہان کیساتھ وزیراعظم شہباز شریف کے لندن پہنچنے سے قبل ہی مشاورت کرچکے تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف جب لندن پہنچے تو وزارت قانون میں نیب آرڈیننس میں ترمیم کے مسودے کو حتمی شکل دینے کا سلسلہ اچانک شروع ہوگیا۔ وزارت قانون میں ایک سورس سے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سوال کیا تو موصوف نے کہاانتخابی اصلاحات کو چھوڑئیے پہلے ذرا نیب قانون میں ترامیمی مسود ہ پڑھ لیں‘نیب کا وقت تمام ہوا چاہتا ہے۔وفاقی حکومت نے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے خلاف کرپشن کے نام پر نام نہاد کاروائی کے اختیارات ختم کرنے کیلئے نیب آرڈیننس میں 31ترامیم کا فیصلہ کرلیا ہے۔

نیب آرڈیننس کے ترمیمی مسودے کے مطابق وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے ارکان کے خلاف کابینہ کمیٹیوں کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا۔نیب کا ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیار ختم،عدالت کی منظوری سے نیب ملزم کو گرفتارکرسکے گا۔5سال سے زائد پرانی ٹرانزیکشن یا اقدام کے خلاف نیب انکوائری نہیں کرسکے گا۔ترمیم کے بعد بارثبوت ملزم کی بجائے نیب کو فراہم کرنا ہوگا ورنہ انکوائری شروع نہیں ہوسکے گی۔ کرپشن کیسز میں نااہلی 10 سال کی بجائے 5 سال کے لیے ہوگی۔5 سال بعد الیکشن لڑا جاسکے گا۔کرپشن کیس میں سزا کے نتیجے میں اپیل کا حق ختم ہونے تک عوامی عہدیپر فائز رہا جاسکے گا۔زیر التواء انکوائریاں اور انڈر ٹرائل مقدمات احتساب عدالت سے متعلقہ اتھارٹیز کو منتقل ہوجائیں گے۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے خلاف مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کرپشن کیسز نہیں بنے گا۔سیاستدانوں اور افسر شاہی کے خلاف اچھی نیت سے کیے گئے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا۔ وفاقی اور صوبائی ٹیکسیشننز،ڈیوٹیز اور لیویز سے متعلق نیب کو کارروائی کا اختیار نہیں ہوگا۔پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تعیناتی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے بعد صدر مملکت کرینگے۔نیب آرڈیننس کی سات شقیں ختم کردی جائیں گی۔نیب ترامیم کا اطلاق 1985 سے کیا جائے گا۔ زیر تفتیش اور انڈر ٹرائل مقدمات پر بھی نفاذ ہوگا۔نیب کرپشن کیس کی انکوائری 6ماہ میں مکمل کرنے کا پابند،پبلک سٹیٹمنٹ جاری کرنے پر نیب کے افسر کو ایک سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔مجوزہ ترامیم کے مسودے پر اتحادی جماعتوں اور پی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد حتمی مسودہ کابینہ کو ارسال کیا جائے گا۔وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد نیب آرڈیننس میں ترمیم کابل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

اصلاحات اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔نیب قانون اور انتخابی اصلاحات لازمی کیجئے مگر اب خدارا تھوڑی سی توجہ چولستان میں خشک سالی اور مارکیٹ میں افواہوں کے باعث ڈالر کی اُڑان کی جانب ضرور دیجئے۔خادمِ پاکستان کا صرف نعرہ ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات سے خادم ِپاکستان ہونے کا ثبوت دیجئے‘صرف دعووں سے کام نہیں چلے گا (بشکریہ روزنامہ 92) ۔۔۔۔۔

close