محترمہ ادا جعفری ، کشور ناہید ، زہرہ نگاہ ، پروین فنا سید ، فہمیدہ ریاض اور اسی درجے کی چند اور شاعرات کے قلم کی جنبش جب سست روی کا شکار ہوگئی یا یوں کہیےکہ ان کی شاعری منظرِ عام پر آنا جب کم ہو گئی تو دلداگانِ شعروادب نے شاعرات کے تخلیقی جوہر کی کمی کا شدت سےاحساس کیا ایسے میں اچانک متعدد شاعرات سامنے آئیں۔۔۔ان میں ایک نام پروین شاکر کا بھی تھا جبکہ سارہ شگفتہ کی آزاد اور نیم آزاد یا نثری نظمیں بھی اسی عہد میں مگر کم کم سامنے آئیں کیونکہ وہ اپنی نظمیں شائع کروانے کے بجائے امرتا پریتم کو لکھ کر بھیجنے کو ترجیح دیتی تھیں۔۔۔۔۔ نورین طلعت عروبہ ، نوشی گیلانی ، شاہدہ نور و دیگر نے اپنی شاعری شائع کرنے کروانے اور مشاعرے پڑھنے پر زیادہ توجہ دی بےشک محترمہ ماہ طلعت زاہدی کو شاعرات میں ایک بلند اور اعلی مقام حاصل رہا ہے اور ان کی حیثیت مسلمہ ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ مشاعروں سے گریزاں رہیں ۔ اور جہاں تک شاعری کی اشاعت کا تعلق ہے تو ہمیں کہہ لینے دیجے کہ محترمہ ماہ طلعت زاہدی اس معاملے میں بھی معیار کو مد نظر رکھتی تھیں۔ چند مخصوص اور معیاری ادبی رسالوں اور جریدوں کو ہی اپنی تخلیقات بھیجتی تھیں ۔جبکہ منصورہ احمد بھی مشاعروں کی واہ واہ سے دور رہیں اور اپنی شاعری کو اپنے یا اپنے مخصوص اور قریبی حلقے تک محدود رکھنے میں کامیاب رہیں۔۔۔۔پروین شاکر، نوشی گیلانی اور نیلما ناھید درانی ہم عصر تھیں۔۔۔نیلما ناھید درانی کا تعلق محکمہ پولیس سے تھا۔۔۔جو ایس ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ھوئیں۔ مگر دوران سروس ہی انھوں نے شاعری افسانہ نگاری سفر نامہ نگاری جاری رکھی۔۔۔وہ بھی اپنی پہلی کتاب۔۔۔جب تک آنکھیں زندہ ہیں کی اشاعت( 1986) سے بلے ھاوس کی ادبی محافل میں شرکت کرتی رہیں ہیں
ان سب میں پروین شاکر کی شاعری سب سے زیادہ مشہور اور ممتاز قرار پائی ، نوشی گیلانی کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی کو متنازعہ بناکر پیش کیا جانے لگا اور پھر اچانک پروین شاکر ایک ”مبینہ“ حادثے میں داغِ مفارقت دے گئیں۔۔۔ادھر ”فنون“ میں منصورہ احمد کی خوبصورت نظمیں پہلے ہی شائع ہو رہی تھیں اور ان کے مداحوں کا حلقہ وسیع تر ہوتا جا رہا تھااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منصورہ احمد تمام شاعرات میں سب سے منفرد اور بلند قامت نظر آنے لگیں مگر ابھی تک منصورہ احمد کا کوئی شعری مجموعہ منظرِعام پر نہیں آیا تھا۔
منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ’’طلوع‘‘ 1997ء میں شائع ہوا۔ 1998ء میں طلوع کو وزیراعظم ادبی ایوارڈ ملا۔ احمد ندیم قاسمی کے 81 ویں جشنِ ولادت کے موقع پر منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ادبی افق پر ”طلوع“ ہوا۔
یہ حقیقت ہے کہ بڑے لوگ بہت کم کم ہی ہوتے ہیں بلکہ ایک ارب تیس چالیس کروڑ کی آبادی کو صرف ایک ”گلزار“ میسر آسکا۔ اس ایک گلزار نے لاکھوں تخلیق کاروں میں بھی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کروالیا اور سرحدوں سے (صرف جغرافیائی سرحدوں سے) پار بھی گلزار کو لاکھوں پرستار میسر آئے اور وہ گلزار کہ جس کے ایک مصرع
”ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“
نے منصورہ احمد کی تخلیقی اپج کو منظرِ عام پر لانے اور جوالا سلگانے میں اہم کردار ادا کیا اسی منصورہ احمد کو تخلیق کے ایک گھنے شجر کی ٹھنڈی اور مہکتی چھاؤں سے فیض یاب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اگر آپ منصورہ احمد کی نجی حلقے پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس میں شامل ہر شخص کسی نہ کسی اعتبار سے علم و ادب اور تخلیق کاری میں پیش پیش نظر آئے گا اور پھر اگر آپ ”حلقہ فنون“ اور حلقہِ اساطیر کی طرف آئیں گے تو شاید اس بات کا اندازہ کر سکیں کہ علمی ، ادبی اور تخلیقی سطح پر جو جس قدر بلند مرتبے کا حامل ہوگا منصورہ احمد کے لیے اس قدر قابلِ تکریم ہوگا۔
منصورہ احمد کی خوبصورت شاعری کا مطالعہ کرتے وقت احساس ہوتا ہے گویا ہم خود بھی ان کے ہمراہ ہیں اور ہر منظر اور موضوع کو محسوس کر رہے ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قاری تخلیق کار کے ساتھ آدھے سفر تک ہی ہمسفر رہتا ہے کیونکہ وہ تو پاتال میں اس قدر گہرائی تک اترتی ہیں کہ جہاں سے دوبارہ ابھرنا یا باہر نکل آنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔
منصورہ احمد ایک شدت پسند شاعرہ ہے بہت سی چھوٹی چھوٹی اور معمولی بلکہ معمولی سے معمولی بات کا شدت سے احساس کرکے پھراسی شدتِ احساس کو شعری پیکر عطا کر دیتی ہیں ، کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس قدرحساس ہونا خود تخلیق کارا ور اس کے قاری دونوں کے لیے خطرناک ہے اور بے شک منصورہ احمد ان خطرات سے کھیلتی ہیں اور ان خطرات سے کھیل کر ہی کھل کر سامنے آتی ہیں۔۔۔۔منصورہ احمد کے مشاہدات اور تجربات انتہائی تلخ ہیں انہوں نے جو کچھ دیکھا ‘سنا ‘ سمجھا، پایا اس کو اسی انداز میں محسوس بھی کیا اور محفوظ بھی ”طلوع“ کا مطالعہ کر کے یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ منصورہ احمد کی تخلیقی اپج سے انکار ممکن ہی نہیں البتہ طلوع پڑھ کر ایک اور احساس بھی ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا کہ ”طلوع“ کا قاری خوف زدہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ وہ تخلیق کاری کی اس شدت بلکہ حدت کو برداشت نہیں کر پاتا۔۔۔۔۔ اور ایسا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ منصورہ احمد کی شاعری کی کیفیت ایسی ہے ہی نہیں کہ اس سے یکدم باہر آیا جا سکے اور یہ انداز اور اعزاز کم بلکہ بہت کم تخلیق کاروں کو حاصل ہوتا ہے یقینا منصورہ احمد انہی میں سے ایک ہیں۔
میری خواہش تو یہ تھی کہ میں منصورہ احمد کی نظموں میں سے چند نظمیں منتخب کر کے اس کے اقتباسات بھی شامل تحریر کروں لیکن نہیں یہ کام بہت کٹھن ہے۔ منصورہ احمد کی تمام تر تخلیقات منتخب شدہ ہیں شاید مجھ سے مزید انتخاب نہیں ہو پائے گا ۔مجھے منصورہ احمد کے ”طلوع“ میں کوئی تخلیق تو کجا ایک مصرع تک ایسا محسوس نہیں ہوا جس کو میں نسبتاً کم اچھا کہہ سکوں ۔۔۔۔ بہرطور بحالتِ مجبوری چند نظموں کے اقتباسات شامل تحریر کرنا برائے حوالہ اشد ضروری ہے۔۔۔۔۔
مگر پہلے منصورہ کی شاعری کے حوالے سے جون ایلیا کی رائے ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ ”منصورہ احمد ایک زبردست شاعرہ ہے اور پنجاب میں تو اس سے بہتر یا اس کے پائے کی شاعرہ ہے ہی نہیں “۔۔۔۔۔طلوع کی اشاعت پر پروفیسر طاہر تونسوی کے تاثرات بھی توجہ طلب ہیں ملاحظہ ہوں ”طلوع کی اشاعت ادبی دھماکہ قرار پایا۔۔۔اور یہ ثابت ہوکر رہا کہ منصورہ احمد منفرد اور چونکا دینے والے لہجے کی ایک خوبصورت شاعرہ ہےاور ان کے پہلے ہی شعری مجموعے ”طلوع“ نے ادبی دنیامیں تہلکہ مچا دیاہے۔“
گلزار لکھتے ہیں کہ ”منصورہ ایک کولمبس ہے۔۔۔۔سمندروں پہ سفر کرتی ہےاور زندگی کے نئے نئے جزیروں کو تلاش کرتی ہے وہ جزیرے کبھی ایک صورت کی صورت میں نظر آتے ہیں کبھی تواریخ کی صورت۔۔۔۔اس کی نظمیں پرسنل بھی ہیں اور اپنے دور کی روداد بھی اس کے مصرعے سانس لیتے ہیں تو چھو جاتے ہیں کبھی صبا کی صورت کبھی روشنی کے چھینٹے کی طرح ۔۔۔۔اس کی سطروں میں وقت کی تہیں رکھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اس کی نظم پڑھ لینے کے بعد کئی بار محسوس ہوا کہ نظم کی افشاں میرے ہونٹوں پہ رہ گئی !۔۔۔“
منصورہ احمد کی نظمیں ہی نہیں بلکہ غزلیں بھی حد درجہ خوبصورت ہیں ۔۔۔۔چند اشعار ملاحظہ ہوں لیکن اس سے قبل ایک چھوٹی سی بات اور وہ. یہ لازمی نہیں ہے لیکن عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اردو ادب کے ایسے تخلیق کار کہ جن کا تعلیمی یا مطالعاتی پس منظر انگریزی ادب یا پھر دیگر زبانوں اور اردو ادب سے وابستہ رہا ہوتا ہے تو ان کی تخلیقات کی انفرادیت انہیں جداگانہ پہچان عطا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن شاعرات میں ہی دیکھ لیجے تو بالکل سامنے کی مثالوں میں محترمہ پروین شاکر ٗ محترمہ ماہ طلعت زاہدی ٗ محترمہ فہمیدہ ریاض اور خود محترمہ منصورہ احمد اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام ہیں. منصورہ احمد کی غزلیں بھی حد درجہ خوبصورت ہیں ۔۔۔۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔۔۔۔ زندگی موت کی امان میں ہے
چھاؤں سورج کے سائبان میں ہے
کل عدالت لگائیں گے بچے
محتسب آج کس گمان میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس قدر دشوار ہے ان شہروں میں رہنا
گھر کی چوکھٹ ڈھونڈنے میں ہجرتوں کے درد سہنا
پھر کسی کی آنکھ میں دیکھا گیاہے موسم گل
کتنے دن کے بعدمیں نے کوئی کھلتا رنگ پہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی
بےصدا شہر میں رہ کر ہی پکارے کوئی
کس طرح ناؤ چلے اتنے چڑھے پانی میں
تیری یادوں کا سمندر تو اتارے کوئی
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا ……….. منصورہ احمد
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا
یہ اور بات کہ سورج افق پہ نکلا تھا
عجیب وجہ ملاقات تھی مری اس سے
کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا
میں سب سمجھتی رہی اور مسکراتی رہی
مرا مزاج ازل سے پیمبروں سا تھا
میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا
میں گل پرست بھی گل سے نباہ کر نہ سکی
شعور ذات کا کانٹا بہت نکیلا تھا
سب احتساب میں گم تھے ہجوم یاراں میں
خدا کی طرح مرا جرم عشق تنہا تھا
وہ تیرے قرب کا لمحہ تھا یا کوئی الہام
کہ اس کے لمس سے دل میں گلاب کھلتا تھا
مجھے بھی میرے خدا کلفتوں کا اجر ملے
تجھے زمیں پہ بڑے کرب سے اتارا تھا
”تم اور سورج“بھی منصورہ احمد کی مختصر اور خؤبصورت نظموں میں سے ایک ہے۔۔۔۔اور یہ وہ نظم ہے جس کو پڑھ کر وثوق سے کہا جا سکتا ہےکہ منصورہ احمد تقابلی جائزے کے ہنر سے بھی بخوبی واقف ہیں۔۔۔۔اور تقابلی جائزے میں جب تک تنقید کا عنصر شامل نہ ہو تو یقینا تشنگی رہ جاتی ہے مگر آپ خود فیصلہ کریں کہ منصورہ احمد کی تم اور سورج کیسی مثال ہے
————- تم اور سورج ———–
تم اور سورج اک جیسے ہو
دونوں آنگن میں اترو تو جھلمل ہونے لگتی ہے
دونوں کی حدت سے دل کی برف پگھلنے لگتی ہے
دونوں آنکھ کی وسعت سے بڑھ جاتے ہو
دونوں آنکھیں چندھیاتے ہو
دونوں آگ میں جھلساتے ہو
منصورہ احمد کی خوبصورت نظموں میں قدرت اور فطرت کے حسین مظاہر کا ذکر شدت کے ساتھ ملتا ہے
عجب لہجہ ہے اس کا ……….. منصورہ احمد
پانیوں پر جھلملاتی چاندنی جیسا
مرے دل کا سمندر جب بھنور کی زد میں آ جائے
سبھی تاریک لہریں گھیر کر مجھ کو
کسی پاتال کا رستہ دکھاتی ہوں
تو وہ ایسی صفت لہجہ
مجھے پھر ساحلوں پر کھینچ لاتا ہے
مجھے کہتا ہے دیکھو
اس بھنور کے پار بھی دنیا میں کچھ لمحے دھڑکتے ہیں
انہیں بھی اپنی سانسوں میں پردہ دیکھوں
یہ لہریں جو کہ اندھیاروں میں دیو آثار لگتی ہیں
انہیں تم چاندنی میں دیکھنا یہ کس طرح
کرنوں سے مل کر ماجرے تخلیق کرتی ہیں
یہ لہریں جب روپہلے نور کی ندی میں ڈھلتی ہیں
تو مستی میں مچلتی آسمانوں کو لپکتی ہیں
اماوس جب بھی آئے چاندنی کو یا مگر لینا
مرے چاروں طرف میلوں پہ چلتی دھوپ پھیلی ہے
مگر اس کی یہ باتیں بارشوں کی بوندیوں جیسی
مرے دل کی دراڑوں میں
ہری فصلی اگائی ہیں
میں سر سے پاؤں تک
شبنم سے بھیگی پتیوں میں ڈوب جاتی ہوں
گواہی ………………………. منصورہ احمد
وہ سیڑھی جو مرے دل سے
تمہارے دل کے گنبد پر اترتی ہے
شکستہ ہے
وہ کھڑکی جو تمہارے گھر میں کھلتی ہے
مری پہچان اور مکڑی کے جالوں سے اٹی ہے
زنگ خوردہ ہے
گواہی دے نہیں سکتے نہ دو
لیکن مرا اک کام تو کر دو
مری پہچان میں الجھے ہوئے مکڑی کے سب جالے
مجھے دے دو
کوئی تو ہو جو مجھ کو میرے ہونے کی گواہی دے
”یہاں سے آسماں دیکھو“جو کہ بلا شبہ ایک انوکھے خیال کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں منصورہ احمد نے دھول ، پلکیں ، صحرا ، کلیاں ، شاخوں ، شاخوں پہ ہلکا بور ، پت جھڑ ، چاند ، سمندر ، روزوشب ، ساحل ، جزیرہ ، زندگی ، بدن ، گھاٹیاں ، آنکھ ، خوشبو ، خلا ، گرداب ، بیل ، آنگن ، آسمان اور زمین جیسے مظاہر قدرت و فطرت کے ذکر سے ثابت کیا ہے کہ فطرت اور قدرت کی ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر قائم یہ کائنات اور اس کائنات کا ہر رنگ اور روپ انہیں کس قدر عزیز ہے۔
ادب کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میرا اکابرین و ناقدین ِ ادب اور اکادمی ادبیات جیسے اداروں کے کرتا دھرتا جو بھی ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ منصورہ احمد کا ایک مجموعہ کلام منظر عام پر آچکا اور اس منصورہ احمد کا اب تک جتنا بھی کلام منظر عام پر آچکا ہے اس پر اہل نظر اور نقادان فن اپنی آرا ٕ دے چکے ہیں اور اگر ان تمام تر آرا ٕ کو یکجا کیا جاۓ تو دو یا تین ضخیم کتابیں مرتب کرنا تو ہرگز بھی دشوار نہیں تو منصورہ احمد کا شعری .8. جون 2011 کو اس کی سانسوں کے ساتھ ختم کیسے ہوسکتا ہے ۔ جبکہ منصورہ احمد اپنی زندگی میں ہی اپنا دوسرا شعری مجموعہ پبلش نہ بھی کرواسکی تو کم از کم مرتب ضرور کرچکی تھی۔
منصورہ احمد ……………… کی 53 سالہ زندگی پر ایک نظر
نام : منصورہ احمد
والد کا نام : مرزا حبیب احمد
تاریخ ِ ولادت ۔ یکم جون 1958ء
مقام ِ ولادت : حافظ آباد
تعلیم ۔ ایم اے انگلش 1982
وجہ ِ شہرت : احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی
شاعرہ ٗ مدیرہ ٗ پبلشر ٗ اور مصنفہ
بانی مینجنگ ڈائریکٹر
اساطیر۔ پبشلرز / پبلیکیشنز ۔ لاہور
مدیر منتظم / شریک مدیرہ : ۔ سہہ ماہی فنون لاہور 1986_ 2006
مدیرہ : ۔ سہہ ماہی مونتاج لاہور 2006_2011
پہلا مجموعہ کلام ۔ طلوع. 1997
(وزیراعظم انعام یافتہ 1998 مجموعہ)
دوسرا مجموعہ کلام
آسمان میرا ہے (مرتبہ2010) (تاحال غیر مطبوعہ)
منصورہ احمد کی زندگی کے آخری تین چار برس شدید علالت میں گزرے اور پھر
وفات : ۔ .8.جون 2011ء لاہور
پہنچی وہیں پہ خاک ٗ جہاں کا خمیر تھا۔ لاہور میں منصورہ احمد کے سانسوں کی گنتی پوری ہونے کے بعد انہیں ان کے آباٶ و اجداد کے شہر حافظ آباد میں ہی سپرد خاک کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں