حق نا حق، ممتاز دانشور فیاض باقر کی سلسلہ وار تحریر، اختر حمید خان- پشاور اکیڈیمی اور داؤد زئی

اختر حمید خان نے بارہ سال مشرقی پاکستان میں دیہی ترقی کا کام کیا۔ مارچ 1971 میں فوجی کاروائی ہوئی تو فوجی حکام نے جہاز فراہم کیا اور اختر حمید خان نے بھاری دل سے مغربی پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اُن کی زندگی کو مشرقی پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اُن کا خاندان بھی محفوظ تھا۔ لیکن اُنہیں محسوس ہوا کہ اُن کا کام پورا ہو گیااور روانگی کا وقت آگیا ہے۔

مغربی پاکستان آنے پر یحیی خان کی حکومت نے اُن سے بنگالیوں کے خلاف بیان دینے کو کہا اور اُنہوں نے صاف انکار کر دیا۔ اُن دنوں میں پاکستان اکیڈیمی فار رورل ڈویلپمینٹ کے ڈائریکٹر شعیب سُلطان خان تھے جو کومیلا اکیڈیمی میں اختر حمید خان کا کام دیکھ چُکے تھے اور یہی کام اب پشاور اکیڈیمی کے ذریعے کرنا چاہتے تھے۔ اُن کی دعوت پر اختر حمید خان پشاور آگئے۔

یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ مشرقی پاکستان میں جس وقت خان صاحب نے عوام کی حاکمیت پر مبنی دیہی زرعی اور صنعتی ترقی کا پروگرام ولیج ایڈ شروع کیا ٹھیک اُسی وقت مغربی پاکستان میں بھی یہ پروگرام شروع کیا گیا۔ لیکن یہاں “ان پڑھ” عوام کی حاکمیت کی بجائے “ ماہرین کی آمریت “ کا نظام قائم کیا گیا۔ پیسے خرچ ہو گئے۔ خانہ پُری ہوگئی۔ اور نتیجہ کُچھ نہیں نکلا کیونکہ “عوام جاہل تھے”۔ لیکن اختر حمید خان اور شعیب سلطان خان کا خیال تھا۔ کہ لوگوں سے پُوچھ کر کام کرنے اور اُن کی تنظیم بنانے کے کئی فائدے صاف نظر آتے تھے۔ایک تو یہ کہ لوگ غریبی دور کرنے کے جو منصوبے بتاتے تھے وہ ماہرین کی تجاویز سے کہیں بہتر ہوتے تھے۔دوسرے لوگوں کو پیداوار کے ترقی یافتہ طریقے سکھانے کیلئے اُن کی تنظیم کے ذریعے کام کرنا ہر کاشتکار کے ساتھ الگ الگ کام کرنے سے بہتر تھا۔ کیونکہ ایک ایکسٹنشن ورکر کے لئے ہزاروں کسانوں تک پہنچنا مُشکل تھا۔ تیسرے پروجیکٹ پر کام سے مقامی لوگوں کو ملازمت ملتی تھی اور اخراجات کا حساب مقامی تنظیم کے پاس ہونے کی وجہ سے بھتہ خوری نا ممکن تھی۔ چوتھے حساب کتاب کے شفاف نظام کی وجہ سے پروجیکٹ نہایت کم اخراجات سے مکمل ہوتا تھا اور پروجیکٹ مکمل ہونے پر مقامی تنظیم اسے جاری رکھنے کی ذمہ داری قبُول کر لیتی تھی۔

تھانے کی سطح پر کام شروع کرنے کے لئے ضلع چارسدہ کے تھانہ داؤد زئی کا انتخاب کیا گیا- یہ علاقہ نیشنل عوامی پارٹی کے زیر اثر تھا لیکن صُوبے کی حکومت پیپلز پارٹی کے پاس تھی۔ گاؤں کی سطح پر مقامی تنظیمیں بنائی گئیں۔ تنظیموں سے مکالمہ شروع ہوا۔ اور مقامی ترقی کے منصوبوں پر کام شرُوع ہوا۔یہ کام خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ انہی دنوں اکیڈیمی میں زیر تربیت ایک افسر کے افسرانہ طریق کار پر اُن کو سرزنش کی گئی تو اُنہوں نے حُکام بالا کو شکایت کی کہ دونوں خان صاحبان سی آئ اے کے ایجنٹ ہیں۔ اس الزام کو وزن دینے کیلئے مزید کہا گیا کہ نہ صرف یہ سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں بلکہ کے جی بی کے بھی ایجنٹ ہیں۔ ایک نا اہل افسر کی الزام تراشی اتنی حیران کُن نہیں۔ اختر حمید خان پر کئی دہائیوں بعد اس سے بھی سنگین الزامات لگائے گئے۔ لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ “حُکام بالا” نے اس شکایت پر یقین کر لیا۔ اختر حمید خان کراچی چلے گئے اور شعیب سُلطان خان سرکاری نوکری سے رُخصت لے کر یُو این سنٹر نگویا چلے گئے۔ وہاں سے یُو نیسف نے اُنہیں سری لنکا میں کام کرنے کے لئے چُنا۔ اور اُنہوں نے اتنا اچھا کام کیا کہ ایک مشہور امریکی ہفت روزہ، ٹائم یا نیوز ویک میں اُن پر ایک صفحے کا مضمون اُن کی کارکردگی کے اعتراف میں شائع کیا گیا۔ ہز ہائی نس آغا خان 1980 کی دہائی میں اسی طرح کا کام شمالی علاقہ جات میں کرنا چاہتے تھے۔ وہ شعیب سلُطان خان کو گلگت لے آئے اور جو کام داؤد زئی میں ختم ہوا تھا وہ گلگت میں دوبارہ شرُوع ہوا اور کُچھ “ ترقی پسند دانشوروں” نے دوبارہ یہ شک ظاہر کیا کہ یہ کام سی آئی اے کی سازش ہے۔ نجانے عوام کی ترقی کے کام کو ہمیشہ غیر مُلکی سازش کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں سی آئی اے کی بجائے اپنے گریبان کو ٹٹولنا چاہئے۔ اگلے کالم میں میں گلگت کی کہانی بیان کروُں گا اور “ ساز شیوں” کے کام کی تفصیل بتاؤں گا تاکہ تمام پاکستانی نوجوان اس سازش میں شریک ہو سکیں۔۔۔۔

close