وزیر اعظم عمران خان نے افغان امن عمل میں بھارت کی شمولیت مسترد کر دی

اسلام آ بادس(آئی این پی ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کیلئے افغان عمل میں انڈیا کی شمولیت قبول کرنا ممکن نہیں ، افغان رہنماوں کا پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرانا انتہائی افسوسناک ہے، پاکستان دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے،افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں سیاسی ہے، پاکستان کی مستقبل کی تمام معاشی حکمت عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن پر ہے، پاکستان کی کوششوں کی تائید امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی، بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر ہے کہ پاکستان کو عسکری ادارے کنٹرول کرتے ہیں، یہ سراسر جھوٹ اور بھارت کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے، آر ایس ایس کے زیرِ تسلط بھارت امن نہیں چاہتا، مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کیا جارہا ہے، یہی محرکات بھارت کے ساتھ امن میں بڑی رکاوٹ ہیں، 5 اگست کے اقدامات واپس لینے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے تک بھارت سے بات نہیں ہو سکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے پاک افغان یوتھ فورم کے وفد نے ملاقات کی جس میں اعلی حکام کے علاوہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، ایڈیٹروں، فلمسازوں، کاروباری شخصیات، صنعت کاروں اور دفائی تجزیہ نگاروں نے شرکت کی۔ اس ملاقات کا مقصد پاک افغان یوتھ فورم کے اراکین کے پاکستان افغان تعلقات، پاکستان کے افغانستان میں پائیدار امن کیلئے اٹھائے گئے اقدامات اور خطے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے اراکین کے سوالات پر حکومت کا موقف واضح کرنا اور نوجوانوں کو پاکستان کی افغان امن عمل کیلئے کوششوں کے بارے آگاہی دینا تھا۔ پاک افغان یوتھ فورم کے تحت وزیراعظم کا افغان صحافیوں کے ساتھ سوال جواب کا سیشن منعقد کیا گیا۔ ایک افغان صحافی کی جانب سے افغانستان، بھارت اور پاکستان پر مشتمل سہ فریقی مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 5اگست کو بھارت نے یکطرفہ طور پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو مسترد کرتے ہوئے کشمیریوں سے ان کی ریاست کا حق چھین لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1948 میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں کشمیریوں کے استصوابِ رائے کا حق رکھا گیا تھا جو انہیں نہیں دیا گیا اس لیے کشمیر کے عوام نے اس حق کی جدوجہد کی جس کی پاکستان نے حمایت کی تاہم 5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس اقدام کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور جب تک بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کردیتی، ہم بھارت، افغانستان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں افغانستان گیا ہوں، افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں اور ہمارے باہمی تعلقات بھی اچھے ہیں لیکن افغان رہنماں کے حالیہ بیانات میں افغانستان کی صورتحال کا الزام پاکستان پر لگایا گیا جو کہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کو پہلے امریکا کے ساتھ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز پر لانینے کے لیے پاکستان سے زیادہ کسی ملک نے دبا نہیں ڈالا،ہم نے اپنی بھرپور کوشش کی اور کسی ملک نے اتنی محنت نہیں کی جتنی ہم نے کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس بات کی تصدیق امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی۔ افغانستان میں کھیل کی سرگرمیوں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران میرے پاس کھیلوں کے لیے وقت نہیں تھاکیوں کہ دیگر مسائل تھے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کرکٹ کی تاریخ میں جتنے کم وقت میں افغانستان میں بہتری آئی وہ کسی اور ملک کی ٹیم میں نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان جس مقام پر پہنچ چکا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے دیگر ممالک کو 70 برس لگے ہیں، افغانوں نے بنیادی طور پر مہاجر کیمپوں میں کرکٹ سیکھی جو قابل ستائش ہے۔ افغانستان کے بارے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت میں کتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں ایک احساس یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے اور بدقسمتی سے اسے بھارت نے جان بوجھ کر پروان چڑھایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری حکومت کی خارجہ پالیسی گزشتہ 25 برسوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ ہے اور میرا ہمیشہ یہ مقف رہا ہے کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، ہمیں ہمیشہ کہا کہ بالآخر افغانستان کا مسئلہ سیاسی تصفیے کے ذریعے حل ہوگا، میری حکومت کا 3 سال سے یہی مقف ہے جو میں 15 برسوں سے کہ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے اور میں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ امن چاہا ہے، فوج نے بھارت کے ساتھ امن سے متعلق میرے تمام اقدامات کی حمایت کی ہے، یہ بھارت ہے جو امن نہیں چاہتا۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیوں کہ بھارت کو اس وقت آر ایس ایس نظریات کی حامی جماعت کنٹرول کررہی ہے جو پاکستان اور مسلمان مخالف ہے اور اس کا مظاہرہ آپ نے کشمیر اور بھارت کے دیگر علاقوں میں دیکھا ہے کہ بھارت مسلمانوں کے ساتھ کس طرح کا برتا کررہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہی چیزیں بھارت کے ساتھ امن میں رکاوٹ ہیں لیکن پاک فوج نے میرے ہر اقدام کی حمایت کی ہے اور ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں ہے، دنیا کے تمام مماک سے بڑھ کر پاکستان، افغانستان میں امن چاہتا ہے کیوں کہ وہاں امن کی صورت میں پاکستان کا وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ ہوگا۔انہوں نے کہا ہم نے ازبکستان کے ساتھ مزار شریف-پشاور ریلوے لائن کے لیے پہلے ہی سمجھوتہ کیا ہوا ہے اس لیے ہمارے مستقبل کی تمام اقتصادی حکمت عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن سے منسلک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام افغان عوام کو پڑوسیوں کے بجائے بھائی سمجھتے ہیں جنہوں نے 40 سال مشکلات برداشت کی ہیں، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو امن کی اشد ضرورت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی جاری رہتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان کے قبائلی اضلاع پر پڑیں گے اور جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اس کے نتیجے میں جنگ کے اثرات ہمارے قبائلی اضلاع پر آئے اور 70 ہزار پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں