اتنا کافی نہیں کہ مجھے ٹی وی سکرین سے ہٹادیا گیا، کچھ لوگ مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں، حامد میر کا امریکی جریدے میں تہلکہ خیز مضمون شائع ہو گیا

اسلام آباد(پی این آئی)نجی ٹی وی سے آف ائیر کئے جانے والے نامور صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستان میں کچھ مہربانوں کے لیے اتنا کافی نہیں کہ مجھے ٹی وی سکرین سے ہٹادیا گیا ہے۔ اب وہ مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاتے ہوئے بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں سازش زوروں پر ہے۔معروف امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ میں اپنی تازہ ترین تحریر میںحامد میرلکھتے ہیں کہ دو دہائیوں سےجاری ٹی وی شوکیپیٹل ٹاک کی میزبانی کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ مجھے پاکستان کے سب سے مشہور اردو اخبار جنگ میں اپنے کالم لکھنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ اب مجھے بغاوت کے الزامات کا سامناہے۔ جس کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے۔میرا واضح جرم ایک تقریر تھا جو میں نے گذشتہ ماہ صحافی اسدطور کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایک مظاہرے میں کی تھی۔ 25 مئی کی رات کو تین نامعلوم افراد طور کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے ‘ اس کو باندھ کر اس پر تشدد کیا۔ یہ پاکستان کے دارالحکومت‘ اسلام آباد میں صحافیوں پر حملوں کے سلسلے میں تازہ ترین حملہ تھا۔ ہم ایسے کئی حملوں کے بارے میں جانتے ہیں لیکن زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔اسدطور نے اپنے حملہ آوروں کے خلاف بولنے کے اپنے فیصلے کی قیمت ادا کی۔ کچھ ہی لمحوں میں ‘ اس پر شہرت کے حصول کے لئے جعلی حملےکا الزام لگادیا گیا۔یہ اور بات کہ حملہ آوروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج نے حملے کا پول کھول دیا۔اس پر پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بیان دیا کہ صحافی بیرون ملک سیاسی پناہ کے حصول کے لئے خود پر تشددکاالزام عائد کرتے ہیں۔ان ریمارکس پر مظاہرے میں اسد طور کے ساتھ کھڑےصحافی ناراض ہوگئے۔ میرے نزدیک صحافیوں پر حملہ ایک ذاتی پس منظر بھی رکھتا ہے۔اپریل دو ہزار چودہ میں مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔مجھے چھ گولیاں ماری گئیں‘زندہ بچ جانے پر مجھ پر بھی جعلی حملے کاالزام لگایا گیا تھا۔گزشتہ ماہ میں نےاپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر صحافیوں پر حملے بند نہیں ہوئے تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ میں نے کسی فرد یا کسی ادارےکا نام نہیں لیا ، لیکن میرا لہجہ سخت تھا۔ مجھ پر فوری طور پر پاکستان کے اعلیٰ جرنیلوں کو بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ایک سوچی سمجھی مربوط مہم کے ذریعے مجھے سوشل میڈیا پرمجھے غدار کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔پھر مشکوک جلد بازی کے ساتھ میرے خلاف ملک بھر میںمقدمات درج کرانے کی لہر شروع ہو گئی۔۔جیو ٹی وی چینل کی انتظامیہ نے مجھے مطلع کیا کہ میں اپنے شو کی میزبانی نہیں کروں گا۔ انہوں نے یہ کارروائی بغیر کسی عدالتی حکم یا کسی بھی نوٹس کے بغیر کی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘ ہیومن رائٹس واچ اور بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹ نے میڈیا مالکان پر تنقیدی آوازوں کودبانے کی مذمت کی ۔پاکستانی صحافت کی تنظیموں نے عدالتوں میں میرا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہوں نے مجھ سے اپنے موقف کی وضاحت کرنے کو کہا کیوں کہ میں نے ان کے پلیٹ فارم پر بات کی تھی۔ میں نے واضح کیا کہ میں نے اپنی تقریر میں کسی کا نام نہیں لیا اور میں فوج کا بطور ادارہ احترام کرتا ہوں لیکن یہ کہ میں صحافیوں کے خلاف حملوں پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ یہاں تک کہ میں نے کہا کہ اگر میرے سخت لہجے سے کسی کی دلآزاری ہوئی ہےتو میں معذرت خواہ ہوں لیکن میں نے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا کہ صحافیوں پر حملوں کا خاتمہ ضرور ہونا چاہئے۔2007 میں‘ اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے جب ایمرجنسی نافذ کی تھی تو مجھ پر کئی مہینوں تک پابندی عائد کردی گئی۔ ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے حملے پر تنقید کرنے کے بعد 2012 میں ‘ میری کار کے نیچے ایک بم برآمد ہوا۔ 2014 کے قاتلانہ حملے میںجب میں قربِ مرگ تھا تب سے میں اپنے جسم میں دو گولیاںلئے پھرتا ہوں۔ یہی نہیںمجھے توہین مذہب کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن مجھے عدالت نےتمام الزامات سے بری کر دیا ۔مجھ پر بغاوت کا الزام لگانے کی کوشش پاکستان میں اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف منظم جنگ کا ایک حصہ ہے۔ بغاوت کا یہ قانون ماضی میں صحافیوں‘ انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اس قانون کی شقوں کو جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے۔اس کی غیر متعین اصلاحات اس کے غلط استعمال میں مدد دیتی ہیں۔ آپ محض فیس بک کی پوسٹ کولائیک کرنے ‘ کارٹون بنانےیا تقریر کرنے پر بغاوت کےالزامات عائد کیے جاسکتے ہیں۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے دو ممبران کو اس وقت بغاوت کے الزامات کا سامنا ہے۔ ایک‘ میاں جاوید لطیف کو حال ہی میں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔ دوسرا علی وزیر پچھلے چھ ماہ سے کال کوٹھری میں قید ہے۔حامد میر لکھتے ہیںبغاوت کے قانون کا تعزیراتی ضابطہ ایک سو چوبیس اے۔19 ویں صدی کے برطانوی نوآبادیاتی جبرکی یادگار ہے۔ اس قانون کا استعمال مہاتما گاندھی کو گرفتار کرنے کے لئے بھی کیا گیا تھا‘ جنھوں نے اس بارے کہا تھا کہ یہ قانون شہری کی آزادی کو دبانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ میرے ملک پاکستان کے بانی اور وکیل محمد علی جناح نے عدالت میں بغاوت کے الزام میں صحافیوں کا دفاع کیا ۔ اور وہ مقدمہ بھی جیت گئے تھے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی حکومتیں جو اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیںآج بھی برطانوی سامراج کی اس یادگار کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ہندوستان میں‘ مودی حکومت نے ماہرین تعلیم ‘وکلا‘ کارکنوں اور طلباء کو نشانہ بنانے کے لئے بغاوت کا قانون نافذ کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں ‘ شیخ حسینہ کی حکومت نے انسانی حقوق کی پامالی اور بدعنوانی کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں اس قانون سے چھٹکارا پانے کی کوشش کو گزشتہ سال پارلیمنٹ میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے ناکام بنادیاتھا ۔پرانے سخت قوانین کے ساتھ ساتھ نئے بھی گھڑے جا رہے ہیں۔ حکومت ِپاکستان نے حال ہی میں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دینے کے لئے تجویز پیش کی تھی۔ اس مسودہ قانون میں میڈیا ٹریبونلز بنانے اور انہیں یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا کہ صحافیوں کوکسی نوٹس‘حق دفاع یا سماعت کے بغیر تین سال تک قید اور لاکھوں روپے جرمانے کی سزادی جا سکےگی۔ یہ قانون پاکستانی میڈیاپر مکمل خاموشی طاری کردے گا۔تاہم صحافیوں ‘ وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنان نےیک زبان ہو کر اس مسودہ قانون کی مذمت کی ہے۔ اتحاد کا یہ مظہر امید کی کرن ہے۔ اگر ہم سب اونچی آواز میں اور بغیر کسی خوف کے سچی بات کرتےرہے تو مجھے یقین ہے کہ ہماری بات سنی جائے گی۔ہمارے آباؤ اجداد نے اسی طرح برطانوی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی تھی۔اور ہم بھی اس نو آبادتی ذہنیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے جوآج جبر کے ہتھکنڈوں سے ہمیں خاموش کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں