طالبان کی پیش رفت کو روکنے کیلئے افغان خواتین کا اسلحہ اٹھانے کا عزم، بی بی سی اردو کی رپورٹ

اسلا آباد(پی این آئی )افغان خواتین طالبان سے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھتیں، ہم نہ اپنی یونیورسٹی جا سکیں گے اور نہ ہی کام کی اجازت ہو گی اس لیے اب خواتین میدان عمل میں آئی ہیں اور اپنی افغان نیشنل آرمی کی حمایت کر رہی ہیں تاکہ طالبان کی پیش رفت کو روکا جا سکے۔بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق یہ الفاظ کابل یونیورسٹی کی ایک طالبہ اور سوشل ورکر سعید غزنی وال کے ہیں جو اسلحہ اٹھانے والی خواتین کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں طالبان کی پالیسیوں اور حکومتکا اچھی طرح اندازہ ہے۔افغانستان میں جاری کشیدگی اور طالبان کی جانب سے پیش قدمی کے بعد جہاں افغانستان میں ایک خوف پایا جاتا ہے وہیں چند خواتین بھی علامتی انداز میں میدان عمل میں آ گئی ہیں۔گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں جن میں افغان خواتین بھاری اسلحہ اٹھائے کھڑی ہیں۔ ان میں بیشتر کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور افغانستان کا پرچم ہے۔ یہ خواتین افغانستان نیشنل آرمی کی حمایت میں سامنے آئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت اکیلے طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی لہذا وہ اپنی حکومت اور آرمی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی یہ تصاویر جوزجان اور غور کے علاقوں کی ہیں البتہ افغانستان میں خواتین کے یہ مظاہرے جوزجان اور غور کے علاوہ کابل، فاریاب، ہرات اور دیگر شہروں میں بھی منعقد کیے گئے ہیں۔ سعیدہ غزنی وال کابل کی رہائشی ہیں۔ وہ اس مظاہرے میں تو شامل نہیں تھیں لیکن وہ بھی خواتین کے اس عمل کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے خلاف متحد ہونا وقت کی ضرورت ہے اور یہ ایک انتہائی مثبت عمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خواتین چاہتی ہیں کہ سب لوگ اپنی آزادی کے لیے طالبان کے ظلم اور تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

close