قائد اعظم کے پاکستان میں سستے آٹے کے لیے غریب بچوں کے باپ کیوں مر رہے ہیں؟

پاکستان اس وقت 1971 سے زیادہ خطرناک پوزیشن پر کھڑا ہے۔۔۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقت متفق ہیں کہ 1971 میں پاکستان کے دو حصوں میں دوریاں جغرافیائی طور پر تھیں۔۔۔۔ اس لیے ان میں جب دلوں کی اور سوچ کی دوریاں پیدا ہو ئیں تو ہر شہری اس تجربے میں سے نہیں گذرا۔۔۔لیکن اب کی بار تجربہ زیادہ تشویشناک اور زیادہ تکلیف دہ ہے۔۔۔ آبادی 24 کروڑ تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ اور ہر شخص اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی وابستگی کے ساتھ اس خوفناک حد تک جڑا ہے کہ اسے دوسرے کا وجود بھی برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔ ایسے میں ہمیشہ ایک قومی قیادت ہوتی ہے۔۔۔ جو لوگوں کو جوڑ کر رکھتی ہے۔۔۔۔

1971 میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے حلقہ اثر میں مرکز نگاہ تھے۔۔۔ وہ لوگوں کے لیے کشش اور وابستگی کی وجہ تھے۔۔۔ اس لیے جب ۔۔۔ وجوہات کچھ بھی تھیں لیکن مشرقی پاکستان کے لوگوں نے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ تو ان کے پاس ایک مرکز نگاہ تھا جس نے ان کو لیڈ کیا۔۔۔ جو ان کو لے کر چل پڑا۔۔۔ ایسا ہی کردار ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اپنی پرکشش شخصیت کے باعث ادا کیا۔۔۔۔ لیکن بد قسمتی سے آج جس دو راہے۔۔۔ بلکہ زیادہ مناسب ہو گا کہ ۔۔۔۔ چوراہے پر پاکستان کھڑا ہے۔۔۔ اس کے 24 کروڑ عوام کے پاس کوئی متفقہ مرکز نگاہ نہیں ہے۔۔۔ کوئی متفقہ سوچ اور کوئی متفقہ لائحہ عمل نہیں ہے۔۔۔ قوم بری طرح تقسیم ہو چکی ہے۔۔۔ اور تقسیم بھی ایسی کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کی موجودگی اور سلامتی گوارہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔

چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خصوصی حیثیت کے خطوں تک کشیدگی اور محاذ آرائی کا یہ زہر پھیل چکا ہے۔۔۔ ملک کا نوجوان طبقہ جو گذشتہ مارچ تک بری طرح مایوسی کا شکار ہو چکا ہے کہ ان کی محبوب عمران خان کی جماعت ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہو چکی تھی اور عوام کے لیے جینا دو بھر ہو چکا تھا۔۔۔خود عمران حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ معاملات ان کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں لیکن وہ کچھ کرنے سے اور حل کی جانب بڑھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم تھے۔۔۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ نے آگے بڑھ کر ایک فیصلہ کیا اور اپوزیشن کو آمادہ کیا کہ وہ ملکی معاملات سنبھالنے کو آگے آئیں تو ان سرپرستی کی جائے گی۔۔۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں ایسا ہو گیا لیکن اقتدار سے محروم کیے جانے کے عمل کے دوران عمران خان نے جو کہا تھا ۔۔۔ کہ مجھے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔۔۔ یقینا کوئی نہیں جانتا تھا کہ عمران خان اس حد تک خطرناک ہو جائے گا۔۔۔ کہ قومی وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی۔۔۔ وفاقی اور صوبوں کی حکومتیں تو ایک طرف خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنی عزت بچانا مشکل ہو جائے گی۔۔۔ اس وقت ملک کے نوجوانوں کی بڑئ اکثریت خم ٹھونک کر عمران خان کے ساتھ کھڑی اور عمران خان بقیہ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے مخالف کھڑا ہے۔۔۔ معشیت تباہی کے دھانے پر کھڑی نہیں بلکہ تباہی کے گڑھے میں گر چکی ہے۔۔۔ 24 کروڑ عوام بے بس اور بے اختیار ہیں۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہے کہ درپیش حالات میں اقتدار عمران خان کو نہیں دیا جا سکتا ۔۔۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑے جانے کے باوجود ابھی تک یہی نظر آتا کہ آئین کے تمام تر تقاضوں کے برخلاف ملک دونوںصوبائی اسمبلیوں کے الیکشن مقررہ آئینی مدت میں منعقد نہیں ہوں گے۔۔۔ معاملہ عدالتی اکھاڑے میں اتر چکا ہے۔۔۔ سستے آٹے کے حصول کے لیے غریب بچوں کے باپ ہجوم تلے روندے جا رہے ہیں۔۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان میں یہ منظر 23 مارچ 2023 کا ہے۔۔۔کوئی 24 کروڑ لوگوں کو پاکستانی قوم نہیں کہہ سکتا ۔۔۔ کہ یہ 24 کروڑ کا ایک ہجوم ہے جس میں ہر شخص اپنی ذات کے اندر ایک گروہ ہے۔۔۔ اس لیے یہ 24 کروڑ گروہ ہیں ۔۔۔۔۔ جن کا ایک ملک ہے۔۔۔ اور یہ ملک تباہی کے گڑھے میں گر چکا ہے۔۔۔۔ اور سیاسی قیادت دست و گریباں ہے۔۔۔ بات چیت کی صلاحیت سے عاری ہے۔۔۔۔

close