شمعون کے آنجہانی ہونے کی خبر ملی تو خیالات اور یادوں کا ایک انبوہ کثیر وارد ہو گیا۔ پشتو زبان کا ایک محاورہ ہے کہ درخت کی لمبائی اُس کے گرنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ شمعون نے بہت خوبصورتی سے بہت سی متضاد کیفیتوں کو اپنے جیون میں جمع کیا ہوا تھا۔ وہ کمیونسٹ بھی تھا، سانجھ خُدائی میں یقین رکھتا تھا لیکن اُس نے اپنے گرد ایک انتہائی نا قابل تسخیر اور غیر اعلانیہ حصار قائم کر رکھا تھا جس میں “ بغیر اجازت اندر آنا منع تھا”۔ اُس کا پوری زندگی لگا تار اپنے آپ سے ایک شدید مکالمہ جاری رہا اور وہ اس قیمتی جذب و مستی کی کیفیت میں نا معقول مداخلت پسند نہیں کرتا تھا۔ اُس کا “غیر” سے تعلق محبوبی کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا تھا۔ وہ لوگ جو آداب عاشقی سے نا واقف تھے وہ اُس کے انتہائی نجی حصار میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔
میری شمعون سے مُلاقات اپنے دوست نذیر چوہدری کے ذریعے مُلتان میں اُن دنوں میں ہوئی جب وہ نشتر میڈیکل کالج مُلتان میں “ڈاکٹری” کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اُسے طبیب، شفا دینے والے ( healer) اور بیماری کی سماجی جہت سے لڑنے والوں کے درمیان فرق بخوبی معلوم تھا۔ علم اور مُنافقت کے درمیان فرق کو وہ آنکھوں سے اوجھل کرنے پر راضی نہیں تھا۔ اسی لئے جب شمعون کی یاد آئی تو مُجھے نجم حُسین سید کی یہ لائن یاد آگئی “ اوئے میں نہیوں تیڈے جنگلے مننے”۔نشتر کالج کے دنوں میں ایک دن مُجھے شمعون نے کہا کہ ہمارے غریب اور لاچار ٹی بی کے مریض جب ڈاکٹر کے پاس آتے ہیں تو وہ کہتا ہے یہ دوائی ہے اور روزانہ سوا کلو قیمہ کھایا کرو- وہ قیمہ کھا سکتا تو اُسے ٹی بی کیوں ہوتا۔ بات تو ٹھیک تھی ہمارا نام نہاد “سائنسی علم” بھئ مکھی پر مکھی مارنا سکھاتا ہے۔ جن لوگوں کی سوئی مذہب اور سائنس کے درمیان مُجادلے پر اٹکی ہوئی ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ علم کو معاشرت اور سماجی حقیقت سے الگ کر دیا جائے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ متن سائنس کی کتاب سے لیا گیا ہے یا الہامی کتاب سے۔ جو علم زندگی سے باہمی تعلق قائم نہیں کرتا وہ صرف مجاوری، دکانداری اور چھینا جھپٹی کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ ایسا علم اگر دین کے نام پر سیاست کا حصہ بن بھی جائے تو چنگیزی کا آلہ کار ہی ہوتا ہے۔
علم کے نام پر جاری منافقت سے شمعون کی لڑائی اُس کئ پوری زندگی پر حاوی رہی۔ اُس نے زندگی میں موجود منافقتوں سے بھی بھر پُور لڑائی لڑی اور اُس کی بھاری قیمت ادا کی۔ میرے خیال میں یہ گھاٹے کا سودا نہیں
یہ رُتبہ بُلند ملا جس کو مل گیا
ہر مُدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
میڈیکل کی تعلیم کے آخری سال میں شمعون کو اُن کے ایک اُستاد نے فزیالوجی کے امتحان میں فیل کر دیا۔ یہ سو نمبروں کا شاید انتہائی آسان پرچہ تھا- استاد محترم نے فزیالوجی کی بجائے بے باکی کے نمبر لگا کر شمعون کے لئے ڈگری لینا نا ممکن بنا دیا۔ شمعون نے سر نہیں جھُکایا ڈگری پر لعنت بھیجی اور کالج چھوڑ دیا۔
مُلتان میں شمعون طالب علم، مزدور اور کسان تمام محاذوں پر سرگرم تھا۔ اُس زمانے میں بہت سے خواب دیکھنے والے، مجنون اور دلبر لوگ شمعون کے ساتھیوں میں تھے۔ محبوب مہدی، مجاہد مرزا، برکت علی، ظفر زیدی، ناصر زیدی، عزیز نیازی، فواد علی شاہ، خان محمد نثار، ٹونی ، شاہد مُبشر، تنویر اقبال اور بہت سے دوسرے۔
روزی کمانے کے لئے اس نے صحافت کا سہارا لیا۔اُس کے دوستوں کے حلقے میں حسن نثار، فوزیہ رفیق اور دھنک کئ ٹیم کے کُچھ اور لوگ بھی شامل تھے۔اس صحافتی کیرئیر کے دوران اس نے لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ اور انقلابی سیاست سے اپنا تعلق قائم رکھا۔جن دنوں شمعون نشتر میڈیکل کالج چھوڑ کر لاہور آیا تو میں بھی اپنے دماغی خلل کی وجہ سے گومل یونیورسٹی میں نوکری چھوڑ کر لاہور میں مُقیم تھا۔ تعلیم چھوڑنے سے پہلے میں اور شمعون دونوں پروفیسر گروپ کے ساتھ کام کرتے تھے اور این ایس او کے ممبر تھے۔ بعد میں امتیاز عالم کے اصرار پر میں مزدور کسان پارٹی میں شامل ہو گیا۔ چند سال بعد ضیاالحق کے ابتدائی سالوں میں امتیاز نے مزدور کسان پارٹی سے علحدگی اختیار کر کے لوک پارٹی بنا لی۔ شمعون مُجھے لوک پارٹی میں شمولیت کی دعوت دینے کے لئے میرے گھر آیا۔ میں لوک پارٹی میں تو شامل نہیں ہوا لیکن ہم نے مل کر ضیاالحق کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کا خواب ضرور دیکھا اور نتیجتا” ہمیں اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا۔
میری شمعون سے آخری ملاقاتیں 2014-15 میں ایمسٹرڈیم میں ہوئیں۔ صباحت حمید کے ساتھ۔ اُن کی تشنگی ابھی تک برقرار ہے۔
رہ وے قاضی دل نہیوں راضی
گلاں ہوئیاں تاں ہوون والیاں وو
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں